عید الضحی کے مذہبی پیرائے پہ سب ہی کی توجہ مرکوز ہے اور عام و خاص پہ اِس عظیم دن کی اہمیت واضح ہے البتہ اُس کے تاریخی و سیاسی پیرائے کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جوا سے دی جانی چاہیے چونکہ اِس پیرائے سے موجودہ دنیا کے کئی مسائل بندھے ہیں جن کا تعلق سنت ابراہیمیؑ سے ہے۔ مذہبی نکتہ نگاہ سے جانچا جائے تو عید الضحی ایک ایسے دن کی یاد گار ہے جب سیدنا ابراہیم ؑ سے اپنے فرزند ارجمند سیدنا اسماعیلؑ کی قربانی مانگی گئی جس نے نہ صرف اُنہوں نے خود قبول فرمایا بلکہ اُن کے عزیز فرزند نے بھی اس پہ لبیک کہا ۔آخری وقت پہ جب قربانی کا وقت قریب تھا تو خدائی صدا آئی کہ بدلے میں ایک جانور کی قربانی دی جائے۔ سنت ابراہیمی ؑکی تقلید میںآج بھی دنیا میں لاکھوں کروڑوں افراد قربانی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ سنت ابراہیمی ؑ البتہ یہی تک محدود نہیں بلکہ یہ اہل کتاب کا منجملہ ورثہ ہے۔اِس سنت میں اُس تہذیبی تصادم کی کوئی جگہ نہیں جس کا چرچا دنیا بھر میں ہو رہا ہے۔ اس سنت میں استبداد کیلئے کوئی جگہ نہیں بلکہ استبداد کے خلاف مزاحمت کی اور دائرہ مزاحمت میں تشدد کے بجائے امن وتشدد کی تلقین ہے۔ سیدنا ابراہیم ؑ جہاں سے بھی گذرے اُنہوں نے اُس ملک،اُس شہر،اُس بلدیہ کیلئے امن وآشتی کی دعا کی۔اپنی آبائی آماج گاہ کنعاں سے لے کے حجاز کے لق دق صحراؤں تک اُن کی یہی دعا تھی۔
سیدنا ابراہیم ؑ نے اپنے اپنے پیغمبرانہ مشن کو کسی ایک ملک تک محدود نہیں رکھا بلکہ وہ ایک امت کے کھیون ہار تھے اور اس امت میں سب ہی اہل کتاب شامل ہیں۔اپنے پیغام کی ترویج اشاعت میں اُن کے آڑے جب اُن کے والد آذر آئے تو اُنہوں نے اختلاف ظاہر کرنے میں ذرہ برابر دیری نہیں کی۔ راہ حق میں یہ سیدنا ابراہیم ؑ کی پہلی قربانی تھی جو روحانی دائرے میں دی گئی۔سماجی و سیاسی دائرے میں اُنہوں نے نمرود کا استبداد دیکھا جو نہ صرف مادی دائرے میں حاکم بن بیٹھے تھے بلکہ وہ نعوذباللہ خدائی کے دعویدار بن گئے تھے ۔سیدنا ابراہیم ؑ نے مزاحمت کا آغاز کیا اور جس آفاقی پیغام کے وہ پیام م بر تھے اُس کی سچائی کو ثابت کرنے کیلئے وہ آگ میں کود پڑے ؎
بے خطر آتش نمرود میں کود پڑا عشق
عقل ہے محو تماشا لب بام ابھی
یہ سچ ہے کہ تاریخ کی کتابوں میں ہمیں اِن عظیم واقعات کا ثبوت نہیں ملتا ۔دیکھا جائے تو عصر جدید کی مرتب کردہ تاریخ ۵سے ۷ ہزار پہلے کے واقعات پہ محیط ہے جب کہ سیدنا ابراہیم ؑ سے متعلق واقعات اُس سے پہلے کے ہیں۔تاریخ کو جانچا جائے تو اولین تہذیب کا سراغ ،دریائے فرات کے کنارے بسی ہوئی بستیوں کومانا جاتا ہے جو آج سے ۵سے ۷ ہزار پہلے آباد تھیںحالانکہ سائنسی جانچ کے بموجب ہمارے سیارہ ارضی کو وجود میں آئے ہوئے لاکھوں بلکہ کروڑں برس گذر چکے ہیں لیکن فرات پہ بسی ہوئی تہذیب سے پہلے کے آثار نا پیدا ہیں۔ہو سکتا ہے کہ اُس سے پہلے کی بستیاں و آبادیاں بغیر کوئی سراغ چھوڑے مٹ گئیں اور آج کے سائنسی دور کی تاریخ بدون آثار قدیمہ اپنے اوراق میں کسی بھی گذرے ہوئے واقع کو جگہ دینے سے قاصرہے،یہی وجہ ہے کہ جانے مانے اللہ تبارک تعالے کے پیامبروں کا زمانہ جدید کی تاریخی اوراق میں ذکر نہیں اگر چہ اُن سے وابستہ تاریخی اثرات کو نکارا نہیں جا سکتا۔ بس ایک ذات اقدس رسول کریمؐ ہے جن پر بقول معروف مغربی مفکر تھامس کارلائل ـ ’’تاریخ کی شا عیں متمرکز ہیں‘‘۔کسی بھی تاریخ ساز شخصیت کی ذات اِس حد تجزیہ نگاری کا موضوع نہیں رہی ہے لیکن تاریخ اُن کے پیشرؤں کے بارے میںبارے میں خاموش ہے اور اسے تاریخی المیہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ اُن کے ہونے کے اثبات میں تاریخ فیلاََ فاقدکلمات وقاصر گویائی ہے ۔ ذکر نمرود کے بارے میںضمنی اشارے تو ہیں لیکن ذکر حضرت ابراہیم ؑ نہیں ذکر فرعون تو ہے لیکن ذکر موسیؐ نہیں ، رومیوں کے بارے میں تاریخ کے صفحوں کے صفحے بھرے ہیں لیکن فلسطین کے بھرے دربار میں رومی اقتدار اور یہودی کاہنوں کے جبر و استداد کو للکارنے والی صدائے عیسیؑ کی گونج کے بجائے فقط ضمنی اشارے پہ ہی اکتفا کیا گیا ہے اور واقعیت تو یہ ہے کہ چوتھی صدی تک، جب تک کہ قسطنطنیہ میں عیسائیت کو قومی مذہب کا درجہ نہیں ملا، کہا جا سکتا کہ تاریخ، ایک اُبھرتی ہوئی حقیقت سے بہت حد تک غافل رہی البتہ اِن تاریخی واقعات کی تصدیق آنحضورؐ نے فرمائی اور ایک تاریخ ساز شخصیات کی گواہی ایک ایسی تاریخی تصدیق ہے جس کے بعد کسی اور تصدیق کی ضرورت نہیں رہتی۔ ثانیاََ آنحضورؐ سے پہلے جو بھی پیامبر آئے اُن کے پیامبرانہ دور کے تاریخی اثرات سے تاریخ کی کتابیں بھری ہوئی ہیں۔
مذہبی دائرے میں پیش رفت کے پہلے آثار ہمیں عراقی شہر کنعان سے ملتے ہیں جہاں اہل کتاب کے عقیدے کے مطابق بت تراش آزر کے گھرخلیل اللہ حضرت ابراہیم ؑ کی پیدائش ہوئی۔ حضرت ابراہیم ؑ کی اہلیہ اول سیدہ سارہ ؓ سے اُن کے فرزندا صغر حضرت اسحاق ؑ اور اہلیہ ثانی سعیدہ ہاجرہؑ سے سے فرزند کبیر حضرت اسماعیل ؑ کا تولد ہوا۔ اس تفاوت کی داستان بھی اگر چہ کافی جاذب ہے لیکن یہاں حجم مقالے کو مد نظر رکھتے ہوئے ذکر یہی تک محدود رکھنا ہو گا کہ حضرت اسحاق ؑکی آل و اولاد عبرانی و حضرت ا سماعیل ؑ کی اعراب کہلائی۔ اول الذکر سے قوم یہود و نصرانی اور ثانی سے دور جدید کے مسلمین اُبھر آئے۔اگر چہ عبرانیوں واعراب کے تذکرات سے تاریخ پُر ہے لیکن اُن کے آغاز کے بارے میں اُسے مذہبی دعوے پہ اعتبار نہیں! حضرت ابراہیم ؑ کا تولد عرفات کے کنارے بسی ہوئی تہذیب کے دوران ہوا یا بعد میں واضح طور پہ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔مشرق وسطیٰ میںمذہب کی ادارتی شکل [Institutionalized Religion] یہی سے ترتیب پائی۔ علاوہ از یں چاہے وہ عرفات کے کنارے بسی ہوئی تہذیب ہو یا یونانیوں اور رومیوں کی کی ملی جلی تہذیب، جسے لغت لاطینی میں ’گریکو رومن‘ [Greco-Roman]کے نام سے یاد کیا جاتا ہے،کہیں بھی مذہب کو علامتی روپ کے سوا پایا نہیں جاتا۔اپالو و زئیس اِس علامتی مذہب [Religious Symbolism]کے چند روپ ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ ’گریکو رومن‘ تہذیب کے دوران مذہب کو اُس زاویے سے پرکھا ہی نہیں گیا جو کہ بعد کے دور کا خاصہ رہا اور آج بھی جاری و ساری ہے۔
اپنے خاندان کی اُس شاخ کو جو کہ اہلیہ ثانی سیدہ ہاجرہ ؑ و فرزند حضرت ا سماعیل ؑ سے وابستہ ہے کو آبائی شہر کنعان چھوڑ کے کعبہ میں حضرت ابراہیم ؑ کو کیوں بسانا پڑا اِس داستاں سے اہل ایماں واقف ہیں،کہا جا سکتا ہے کہ مشیت ایزدی یہی تھی۔بے آب و گیاہ،لق دق صحرا میں ننھے اسماعیل ؑ کی ایڑوں کی رگڑ سے آب زمزم کا ظہور اور پھر بیت اللہ خانہ کعبہ کی تعمیراور اُس کے گرد کعبہ کے شہر مقدس کا وجود داستاں ابراہیمی ؑ و اسماعیلی ؑ کوجاذب تر بناتا گیا تا کہ امتحان کی گھڑی آئی جب والد سے فرزند کی قربانی مانگی گئی ۔نہ ہی والد نے لیت و لیل سے کام لیا نہ ہی فرزند نے البتہ یہ امتحان تھا بس ایک امتحان،جس میں والد و فرزند پوراپورا اُترے۔آخری لحظہ میں صدا آئی کہ فرزند کے بجائے صرف ایک جانور کی قربانی مطلوب ہے۔قوم عرب کی تشکیل مطلوب تھی اور بعث حضور اکرم ؐ اور یہ کام حضرت اسماعیل ؑکے توصل انجام پایا اور آج اُن کی آل و اولاد ملت اسلامیہ کہلاتی ہے۔
اہلیہ اول سیدہ سارہ ؓ سے اُن کے فرزند حضرت اسحاق ؑ سے عبرانیوں [Hebrews] کی تشکیل ہوئی اور آل و اولاد حضرت اسحاقؑ سے پیامبروں کا ایک لمبا سلسلہ چل نکلا جن میں حضرت یعقوب ؑ، حضرت یوسف ؑ،حضرت موسی ؑ، حضرت داود ؑ، حضرت سلیمانؑ،حضرت زکریا ؑ، حضرت ییحی ؑ ،حضرت عیسیؑ قابل ذکر ہیں ۔ان بر گذیدہ پیامبروں کو ملت اسلامیہ حضرت ابراہیم ؑ کی آل و اولادہونے کے سبب عزت و توقیر کی نگاہوں سے دیکھتی ہے۔ان پیامبروں سے جو سلسلہ چل نکلا وہ پہلے تو نسلی اعتبار سے عبرانی کہلائے اور پھر مذہبی اعتبار سے قوم یہود اور پھر اُنہیں میںسے نصرانی یا عیسائی سلسلہ شروع ہوا۔ملت اسلامیہ اِن کو اہل کتاب و آل ابراہیم ؑ مانتے ہوئے اپنوں میں سے ہی مانتی ہے البتہ بعث رسول اکرمؐ سے ہی قوم یہود نے دشمنی کا ایک ایسا سلسلہ شروع کیا جو آج تک ختم نہیں ہواحالانکہ میثاق مدینہ [Medinite Declaration] میں مکی مہاجروں،انصار مدینہ و مدینہ کے گرد و نواح میںبسنے والے قوم یہود ،سب ہی کے پنپنے کی گنجائش تھی لیکن یہودیوں کی ریشہ دوانیوں و ساز باز کی سیاست کو یہ راس نہ آئی اور اُنہیں تضاد کی سیاست ہی راس آئی اور آج تک یہی سلسلہ مختلف ادوار میں مختلف عنواں لئے جاری و ساری ہے۔
سنت ابراہیمی ؑمیںاہل کتاب کے سب ہی فرقوں کے پنپنے کی گنجائش ہے چونکہ اُن کا ورثہ مشترک ہے لیکن اِس سنت میں میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ میرا وعدہ اُن سے منسوب نہیں ہے جو غلطی پہ ہیں (سورۂ البقر: 002.124)بہ معنی دیگر میری سنت اُن سے منسوب نہیں ہو سکتی جن کے اطوار صحیح نہیں، چناںچہ تاریخ گواہ ہے کہ قوم یہود تاریخ کے کسی بھی دور میں کسی ملک میں ٹک نہیں پائی۔ قران الکریم گوا ہ ہے کہ اُن کی ریشہ دوانیوں سے اُن کے اپنے پیامبر بھی عاجز ہوئے۔صحرائے سینا کو عبور کر کے جب وہ اسرائیل میں جا بسے تو حضرت داؤد ؑ و حضرت سلیمانؑ جیسے برگذیدہ پیغمبروں کی نگہبانی بھی اُنہیں اُن تاریخی حوادث سے بچا نہ سکی جن کا وہ بار بار شکار ہوئے۔ ایک مفکر کا قول ہے کہ دنیا کو ہمیشہ یہودی سوال در پیش رہے گا۔ ایک تاریخی تجزیہ میں دیکھا جائے تو یہ آج بھی اتنا ہی صیح ہے جتنا کل تھا گر چہ یہ بھی سچ ہے کہ آج قوم یہود نے اسرائیل کو اپنی بستی بنایا ہے اور اپنے دعوے کے ثبوت میںحضرت داؤد ؑ و حضرت سلیمانؑ کی اسرائیل پہ حکمرانی کا حوالہ دیتے ہیں جو صحیح تو ہے لیکن اُس پیرائے میں نہیں جس پیرائے میں قوم یہود اُسے پیش کر رہی ہے۔ اہل کتاب کے پیامبراں کا ورثہ ایک مشترکہ ورثہ ہے جو قوم یہود تک محدود نہیں بلکہ یہ امت ابراہیمی ؑ کا باہمی ورثہ ہے جس میں یہودیوں کے علاوہ ،نصرانی و مسلمان شامل ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ قوم یہود نے مسلمین کے انخلا ء کے بعد فلسطین پہ جابرانہ قبضہ کیا گیا ہے جسے دنیا ماننے پہ تیار نہیں ۔آج کے دور کے اسرائیل کا نا جائز تولد مغربی استبداد کی ایک انتہائی نا گوار کہانی ہے جس سے سنت ابراہیمی ؑ کا یہ دعو یٰ صحیح ثابت ہوتا ہے کہ میرا وعدہ اُن سے منسوب نہیں ہے جو غلطی پہ ہیں۔
قوم یہود نے نصرانیوں کو بھی اپنی ریشہ دوانیوں و تضادی سیاست میں شامل کیا، حالانکہ حضرت عیسیؑ کے ساتھ یہودی کاہنوں کے فلسطین میں ناروا سلوک نے ایک یسی داستان رقم کی جس کی تاریخ گواہ ہے لیکن پھر بھی نام نہاد مشترکہ تہذیب کو یہودی و نصرانی تہذیب ] [Judeo-Christian Civilizationکا عنوان دیا جاتاہے،ہم پیالہ و ہم نوالہ! اِس پہ طرح یہ کہ آج کی دنیا بھر میں جاری جنگی صورت حال تہذیبوں کی لڑائی ہے[Civilization Conflict] جب کہ ملت اسلامیہ یہ ماننے کیلئے تیار ہی نہیں ہے بلکہ اہل کتاب کو سنت ابراہیمی ؑ کی روشنی میں اپنوں میں سے مانتی ہے۔مسلم امہ پوری دنیا ہر سال سنت ابراہیمی ؑ کی تقلید میں عید الْضحی بڑے شوق و ذوق سے مناتے ہیں اور سنت ابراہیمی ؑ میں صرف و صرف عظیم قربانی اور اُس سے وابستہ جذبہ ہی منسلک نہیں بلکہ سنت ابراہیمی ؑ ایک وسیع کتاب ہے جس کے دقیق و عمیق مطالعے سے یہ حقیقت اظہر من الٓشمس ہو جاتی ہے کہ اختلاف کی گنجائش ہی موجود نہیں اور موجودہ اختلاف صرف و صرف اقوام غرب سے وابستہ ہے جس کا پیش رو امریکہ اور پیش امام قوم یہود کے مفاد خصوصی رکھنے والے افراد ہیں۔
Feedback on:[email protected]