عید الاضحی جو دس ذی الحجہ کے دن منائی جاتی ہے ، بڑی اور افضل عید ہے ۔ یہ دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بہترین دن ہے ۔ حافظ ابن قیم رحمتہ اللہ علیہ نے زادالمعاد میںلکھا ہے ’’اللہ تعالیٰ کے یہاں سب سے افضل اور بہترین دن یوم النحر ‘‘ (عیدالاضحی) کا دن ہے۔ نبی علیہ السلام کا فرمان ہے ’’ یقینایوم النحرخدا کے نزدیک بہترین دن ہے ۔‘‘ حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول ؐنے حضرت فاطمہ ؓ سے فرمایا!’’اے فاطمہ اٹھوــ! ااور اپنی قربانی کے پاس (ذبح کے وقت ) موجود رہو ،اس لئے اس کے خون کا پہلا قطرہ گرنے کے ساتھ ہی تمہارے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے ۔ یہ قربانی کاجانور قیامت کے دن اپنے گوشت اور خون کے ساتھ لایا جائے گا اورتمہارے ترازو میں ستّر گناہ زیادہ کرکے رکھاجائے گا‘‘۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ؓلکھتے ہیں :کہ حج کے موقع پر قربانی میں حکمت یہ ہے کہ اس میں حضرت ابراہیم ؑ کے ساتھ مشابہت ہے، آپ ؑ نے اپنے رب کے حکم کی تعمیل اور اس کی طرف توجہ کی نیت سے اس جگہ دنبہ بھیج کر قیامت تک کے لئے سنت ابراہیمی ؑ کو ادا کرنے کا نام قربانی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے فرزندحضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو حکم خداوندی کے مطابق قربانی کرنے کا اردہ فرمایا اور چھری گلے پر چلائی تو اللہ رب العزت کو یہ ادااتنی پسند آئی کہ قیامت تک کے لئے اس کو جاری فرمادیا۔ سنت ابرہیمی ؑسے ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی محبوب ترین چیز پیش کی جائے جس کا مقصد صرف اور صرف رضائے الٰہی کا حصول ہو ، اس میں ریاونام ونمود کا شائبہ نہ ہو۔ا گر کوئی اس وجہ سے مہنگا جانور خرید تا ہے کہ لوگ اس کی تعریف کریں گے تو اللہ کے پاس اس کاکوئی اجرنہ ہوگا۔ قربانی خوشحال لوگوں پر واجب ہے، جو صاحب نصاب ہو۔قربانی اسلام کا ایک شعار ہے جس کی بہت فضیلت ہے۔ پیغمبر اسلام صلی ا للہ علیہ وسلم کو قربانی کا حکم دیاگیا۔اللہ نے فرمایا !’’ اپنے رب کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو‘‘ ۔(سورہ کوثر)۔
احادیث میں اس کی بڑی تاکید آئی ہے، اس کے کرنے پر ثواب اور ترک کرنے پر عذاب ہے۔ رسول پاکؐفرمایا! ’’ قربانی کے دنوں میں انسان کا کوئی عمل اللہ پاک کے نزدیک قربانی کرنے سے زیادہ پیارا نہیں اور وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگ اور بال اورکھروں کے ساتھ آے گا‘‘قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے نزدیک قبولیت کے مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ اللہ کے نبی نے ایسے لوگوں کو جو صاحبِ حیثیت ہوتے ہوئے قربانی نہیں کرتے ،تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا!’’ جس میں وسعت ہو اور قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے ‘‘۔ (سنن ابن ماجہ )۔
قربانی ہر مسلمان مکلف ، آزاد ، مقیم ، صاحبِ نصاب پرواجب ہے ۔صاحب نصاب وہ ہے جس کے پاس حاجت اصلیہ کے علاوہ ساڑھے باون تولہ چاندی 653.189گرام ، یا ساڑھے سات تولہ سونا 93.312گرام یا اتنی قیمت کی کوئی چیز یارقم ہو۔ حاجت اصلیہ سے مراد وہ ضرورت ہے جو انسان کی جان یا اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کے لئے ضروری ہو۔ اس ضرورت کے پورانہ ہونے کی صورت میں جان جانے یا عزت وآبرو کے جانے کا اندیشہ ہو۔ مثلاً کھانا ، پینا ، رہائش کا مکان ، پہننے کے کپڑے ، اہل صنعت وحرفت کے اوزار، سفر کی گاڑی ، سواری وغیرہ۔ نیز اس لئے اصول یہ ہے کہ جس پر صدقۂ فطر واجب ہے اس پر قربانی بھی واجب ہے یعنی نصاب کے مال کا تجارت کے لئے ہونا یا اس پر سال گزرنا ضروری نہیں چونکہ نصاب کے لئے ضرورت اصلیہ کے زائد مال کا اعتبار ہوتا ہے، اس لئے یادر کھنا چاہئے کہ بڑی بڑی دیگیں ،بڑے فرش ، شامیا نے ، ریڈیو ، ٹیپر یکاڈر ، ٹیلی ویژن ، وی سی آر یہ ضرورت میںداخل نہیں ۔ اگران کی قیمتیں نصاب تک پہنچ جائیں تو ابھی ایسے شخص پر قربانی کرنا واجب ہوگا ۔اگر کسی کے پاس مال تجارت مثلاً شیئر ، جیویلری کا کام ، فریج ، گاڑیاں ، پنکھے وغیرہ کسی طرح کے مال ہوں تو ان پر قربانی واجب ہے ۔وہ چیز جو زندگی گذارنے کے لئے ضروری ہو جیسے مکان وغیرہ ۔مرد اور عورت اگر حاجت اصلیہ کے علاوہ صاحب نصاب ہیں تو دونوں پر قربانی واجب ہے۔ گھر میں جتنے لوگ صاحب ِنصاب ہوں ، سب پر قربانی واجب ہوگی۔ بالغ اولاد یا بیوی کی طرف سے قربانی کرنے سے پہلے اجازت لینی ہوگی بغیر اجازت قربانی کرنے سے واجب اد انہیں ہوگا ۔ ایام قربانی میں صرف قربانی ہی ضروری ہے۔ اس کی جگہ صدقہ کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ جہاں عید کی نماز ہوتی ہے، وہاں پر نماز سے پہلے قربانی کرنا درست نہیں ۔ قربانی کے جانور کے لئے ضروری ہے کہ اونٹ پانچ سال ، بیل بھینس دوسال اور بکرا ایک سال کا ہو۔ عیب دار جانور نہ ہو۔ ایک جانور میں شریک سب کی نیت قرب ِالہٰی اور اللہ کی رضا ہو صرف گوشت کھانے کی نہ ہو۔ایک جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح کرنا مکروہ ہے ۔ قربانی کا گوشت تول کر تقسیم کرنے، انداز ے سے سات حصہ کرنا صحیح نہیں ہے ۔چرم قربانی کاقصبّا کو اُجرت میں دینا منع ہے ۔ کار خیر میں دیا جائے یا اپنے استعمال میں لایا جائے ۔گوشت غربا ء اور مساکین ، رشتہ دار، دوست واحباب یاجو کسی وجہ سے قربانی نہیں کرسکے، ان لوگوں میں تقسیم کیاجائے ۔ مساکین اور بے سہارا لوگوں کا ضرور خیال کیاجائے ۔بے خیالی اور غفلت میں ہمارا پڑوسی محروم نہ رہ جائے ۔ تکبیر تشریق نوی ذی الحجہ کی فجرسے تیر ہویں کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد بلند آواز سے تکبیر تشریق کہنا واجب ہے اور تین بار افضل جمہورسلف ۔ فقہائے صحابہؓ اور ائمہ کرام کا مسلک یہ ہے کہ یوم عرفہ کی فجر سے ایام تشریق کے آخری دن تک بلندآواز سے تکبیر کہے (مجموع فتاویٰ)۔نوی ذی الحجہ کویوم عرفہ کہاجاتا ہے ان دن حجاج کرام میدان عرفات میں وقوف کرتے ہیں، غیر حاجیوں کے لئے اس دن کا روزہ افضل ہے ۔ نبی علیہ السلام سے عرفہ کے دن کے روزے کے بارے میں دریافت کیاگیا تو آپ نے فرمایا!’’مجھے اللہ سے امید ہے کہ وہ پچھلے سال اور آنے والے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا‘‘(مسلم شریف)
عید گاہ پیدل جائے آنے اور جانے کا راستہ الگ الگ ہونماز کے بعد خطبہ ضرور سنیں ۔ امت مسلمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نماز سے فراغت کے بعد فوری طور پر قربانی کرنا سب سے زیادہ بہتر ہے ۔ سب سے پہلے قربانی کا گوشت کھانا مسنون ہے ۔قربانی کرتے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے عظیم الشان عمل کو یاد کریں کہ دونوں برگزیدہ بندوں نے اللہ کے حکم پر سب سے محبوب چیز جان کی قربانی دینے کے لے تیار ہوگئے ۔لہٰذا ہم بھی احکام الٰہی پر عمل کرنے کے لئے اپنے جان ومال وقت کی قربانی دیں ۔ قربانی کی اصل روح یہ ہے یہ کہ ایک مسلمان اللہ کی محبت میں اپنی تمام نفسانی خواہشات کو قربان کردے، لہٰذا ہمیں من چاہی زندگی چھوڑ کر رب چاہی زندگی گزارنی چاہئے ۔ہمیں بھی اپنے اندر یہی جذبہ پیدا کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کاجو بھی حکم سامنے آئے اس پر ہم خوش وخرم عمل کریں ،اللہ کی ناراضگی والے کاموں سے پرہیز کریں، راستوں اور نالیوں میں گندگی اور فضلہ ڈالنا ، کھلے عام گوشت تقسیم کرنا ، ہلڑبازی کرنا، عورتوں کا بن ٹھن کر بازاروں اور پارٹیوں میں گھومنا پھرنا، آتش بازی کرنا شریعت اسلامیہ اس کی قطعاً اجازت نہیں دیتی۔ اس میں شک نہیں کہ عید خوشی کا دن ہے جس میں لوگ زیب وزینت کرتے ہیں لیکن اس کا ہر گزیہ مطلب نہیں ، اخلاق حدودکو پامال کریں کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتا۔ عید اللہ رب العزت کے فضل شکر گذاری اور اس کے اعتراف کا نام ہے ۔خوشی کے موقع پر غربا ء ومساکین یتامیٰ مجبور ولاچار طبقات کا خیال رکھنا سچی خوشی کا ذریعہ ہے ۔ہر مسلمان کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ وہ سب کے کام آئے محبت کا ذریعہ بنے، اچھے اخلاق اختیار کرے اور اپنے رب کو راضی کرلے ۔ اسلامی طریقہ پر عید منانے کا طبعی اثریہ ہونا چاہئے کہ ہر مسلمان اپنی مسرت وخوشی کے اظہار میں بے لگام ہوکر نفسانی خواہشات کے تابع پڑنے سے بازرہے۔ شریعت اسلامی نے عید کو عبادت کے طور پر مقرر فرمایا ہے اور اس میں اظہار خوشی کا طریقہ بھی عبادت کے صورت میں مقرر کیا ہے، اس لئے مسلمانوں کو علماء کرام اور مساجد کے ائمہ حضرات مسائل واحکام عید الاضحی معلوم کرنے کی سخت ضروری ہے تاکہ ہمارا تہوار اور عمل قربانی شریعت اسلامیہ کی روح کے عین مطابق ہو۔
موبائل:9899252786