ریحانہ شجر
عید کا مبارک دن تھا۔قہوے اور سیوئیوں کی خوشبو سے ساری کائنات معطر ہورہی تھی۔ بچے اوربڑے عید کی تیاری میں سب مصروف تھے ۔ نئے ملبوسات، لوازمات اور بازاروں کی چہل پہل ہر سوں ماحول کی رونق میں مزید اضافہ کر رہےتھے۔ عورتوں اور بچوں کی تیاری خاصی دلچسپ اور قابل دید تھی۔ کوئی جوتوں کے تسمے ٹھیک کرتا تھا تو کوئی لباس درست کر رہا تھا۔ نکی نکی لڑکیاں اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں پہ لگی مہندی دیکھ کر خوش ہو رہیں تھیں۔ خوبصورت فضاء تھی اور سورج بہت شاندار لگ رہا تھا۔ شاید اسلئے کہ رحمتوں اور برکتوں سے بھرا مہینہ رخصت ہوچکا تھا اورشکرگزاری کی رونق ہر سُو دیکھنے کو مل رہی تھی۔
سارے بچے خوش تھے۔ سب نےرمضان کے مہینے میں کبھی کبھی آدھے دن کاروزہ رکھا تھا لیکن عید گاہ جانے کے لئے سارے بیتاب تھے۔بچوں کو عیدی کیا مل گئی تھی۔ سارے بچے اپنی جیبوں میں بار بار ہاتھ ڈال کر ایسے خوش ہو رہے تھے کہ مانو خزانے مل گئے ہوں۔ ان چند روپوں سے ساری دنیا خریدنے نکلنے تھے۔ بچوں کےلئے بحرحال عید تھی۔ پورے مہینے عید کا انتظار کیا تھا ۔ اب عید آ ہی گئی تھی۔سارے بچے اپنی ہی دُھن میں مگن تھے۔
چھ سال کا فریَد بہت جوش میں تھا۔ ننھا فرید دو سال کا تھا جب اسکے بابا شاکر اور چچا ماجد ایک حادثے کا شکار ہو گئے تھے۔ شاکر واردات کی جگہ پر ہی فوت ہوگیا تھا اور ماجد زندہ تھا۔ لیکن کچھ کرنے کی حالت میں نہیں تھا دونوں مل کر محلے کے کوچے میں کریانہ کی دکان چلاتے تھے۔ حادثے کے بعد شاکر کی بیوی کو اسکے میکے والے لے گئے تھے اور معصوم فرید کو دادی زینت کے پاس چھوڑ دیا تھا۔ تب سے زینت سلائی کڑھائی کر کے گزارہ کر لیتی تھی۔ دن بھر گھر اور بیمار ماجد کےساتھ مصروف اور رات دیر تک موم بتی کے نیچے سلائی کر کے گزر بسر کر رہی تھی۔ اسکی آنکھیں کم روشنی میں کام کرنے وجہ سے کمزور ہو گئی تھی کیونکہ علاقے میں بجلی کی سپلائی اکثر متاثر رہتی تھی۔ بہت محنت کر کے گھر چلاتی رہی تھی۔ اپنے بیٹے ماجد اور اس معصوم فرید کےلئے سب کچھ کر گزرتی تھی۔ کوویڈ وباء کی وجہ سےزندگی اور بھی مشکل ہو گئی تھی۔ کھانے کے بھی لالے پڑ گئے تھے۔ عید کے خرچے کیلئے زینت کے پاس فقط ایک ہزار روپے تھے۔ فرید پہلی بار دوستوں کےساتھ عید گاہ جارہا تھا۔ یتیم کو کون عیدی دیتا ہے۔اسلئے زینت نے فرید کو نہا دھو کے تیار کیا اور اُسے عیدی دیدی۔ اپنے ہاتھوں سے تیار کئے ہوئے کپڑے اور رنگ برنگی موتیوں سے سجی ہوئی ٹوپی پہنا دی۔ وہ پریشان ہوگئی کہ بچے کو اکیلا کیسے جانے دوں لیکن وہ مجبور تھی، گھر اور بیمار کو کس کے بھروسے چھوڑ دیتی۔
اتنی دیر میں فرید یہ کہتے ہوئے آیا ۔ ’’دادی جان ہمارے ساتھ جعفر اور فیضان کے بابا بھی عید گاہ جا رہے ہیں‘‘۔ یہ سن کر زینت کو سکون ملا۔
فرید کے دوستوں میں اب ظفر ، فیضان اورجعفر تھے ۔شیرین اور اسکی ماں بھی ساتھ چلیں گئیں۔
۔۔۔۔!عید کی نماز پڑھی اور بازار کی رونق دیکھنے لگ گئے۔
راستے میں ایک سے بڑھ کر ایک شامیانے لگے ہوئے تھے ۔کہیں بیکری اور مٹھائیاں، کہیں خوبصورت چوڑیاں تھیں۔ ساری دنیا گویا مینا بازار میں بدل گئی تھی ۔ جگہ جگہ پر بچوں کو بیتاب کرنے والے کھلونے ، غبارے اور کیا کیا نہیں تھا۔ سب کے امی ابو ،بچوں کو کبھی مٹھائی تو کبھی کھلونے لےکر دیتے تھے۔ آگے چلے تو ظفر، فیضان اور جعفر کو من پسند کھلونوں پر نظر پڑی۔ ظفر نے ڈورے مان ( Doraemon) فیضان نے سُپر مین( Superman) اور جعفر نے چھوٹا بھیم لےلیا لیکن فرید کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ یہ سب خرید لیتا۔ اس کا من کر رہا تھا کہ سارے کھلونے بس ایک بار ہاتھ میں اٹھا کر دیکھ لوں لیکن بچے کہاں اپنے کھلونوں کو چھونے دیتے ہیں۔ سب بچے کھلونے ا چھال اچھال کر فرید کو تڑپاتے تھے ۔ فرید من ہی من خود کو تسلی دیکر کی یہ بڑبڑا رہا تھا،کہ ’’یہ کس کام کھلونے ہیں، گھر پہنچتے ہی ہوا نکل جائے گی اور ہیں تو پلاسٹک کے، ٹیچر کہہ رہی تھی کہ اس سے ماحول آلودہ ہو جاتا ہے‘‘۔
آگے بڑھنے پر بچوں کو چاکلیٹ کے دکان پر نظر پڑی۔ سب نے من پسند کی چاکلیٹ لیں اور مزے لے کر کھانے لگے۔فرید کا نازک دل مچلتا تھا، منہ میں پانی آرہا تھا۔ چھوٹی سی زبان ہونٹوں پر پھیر لی اور آگے چلتا گیا۔۔۔۔
اللہ اللہ ، معصوم فرید کا یہ ضبط نفس دیکھ کر آسمان کے فرشتوں کے بھی پسینے چھوٹ رہے ہونگے ۔
فیضان نے فرید کو کہا ’’تمہارے پاس جو عیدی ہے، تم بھی ایک چاکلیٹ لے لو‘‘۔
فرید نے پوچھا ’’کتنے کی ایک چاکلیٹ ہے‘‘؟
فیضان بولا ’’300کی ہے‘‘۔
فرید نے کہا ’’میرا ابھی من نہیں ہے‘‘۔
شیرَیں کی ماں نے فرید کو چاکلیٹ پیش کی اور کھانے کیلئے بہت اسرار کیالیکن اس نے نہیں لی۔ چلتے ہوئے اچانک فرید کی نظر ایک ریڑھی والے پڑی جو اور چیزوں کے علاوہ شمسی لالٹین بھی بیچ رہا تھا ۔ وہ رک گیا اسکو یاد آیا کہ اس کی دادی جان کو ایک دن موم بتی کے نیچے سلائی کر تے وقت کسی عورت کا کُرتا جل گیا تھا اور وہ عورت کتنا کچھ سنا گئی تھی۔ اندر سے سوچنے لگا میں یہ خرید لوں گا، دادی کے بہت کام آنے والی چیز ہے۔وہ ریڑھی والے کے قریب گیا اور لالٹین کی قیمت پوچھی۔
ریڑھی والا بولا ’’ بیٹا یہ تمہارے کام کی نہیں ہے ‘‘۔ فرید بولا ’’مجھے گھر کے لیے چاہئے‘‘۔
جواب ملا ’’بیٹا ،یہ ڈھائی سو کی ہے‘‘۔
فرید نہایت بھولے پن سے بولا ’’ میرے پاس تو صرف عیدی کے دو سو ہیں‘‘۔
ریڑھی والا اس معصوم کو اور کچھ نہ کہہ سکا لالٹین بچے کو دے کر کہا ’’ٹھیک ہے ،یہ لو‘‘۔
دوستوں نے کِھلی اڑائی لیکن وہ چپکے سے چلتا رہا۔ خود سے باتیں کرتا ہوا۔
’’’میں بڑا ہو جاؤں گا اور چاچو کی صحت بھی ٹھیک ہو جائے گی ۔ ہم دونوں مل کر پھر سے اپنی بند پڑی دکان کھولیں گے ۔ دادی کو کام کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ میرے پاس یہ بڑے بڑے چاکلیٹ ہونگے سارے بچے دیکھتے رہ جائیں گے۔ ‘‘
واپسی پر گھر کی طرف بڑھتے ہوئے افراتفری شروع ہوگئی۔ کہیں سےگولیوں کی آواز یں آرہی تھی۔ بھیڑ اتنی بے قابو ہو گئی کہ ماؤں سے بچے بچھڑ گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے پوار بازار ایک ویرانے میں بدل گیا۔ بہت کوششوں کے باوجود حالات پر قابو نہ پایا گیا۔ساری جدوجہد بے سود ۔ بے بس فرید اس بھیڑ کی زد میں آگیا اور سڑک کے ایک طرف گر گیا۔ دیکھتے ہی سناٹا چھا گیا۔ ہر طرف دھواں ہی دھواں تھا، کھلونے ،جوتے ہر طرف بکھرے پڑے تھے۔ ہرسُو تباہی اور بربادی کا عالم تھا او کچھ نہیں۔
تناؤ تھمنے کے بعد حکام کے ایک بندے کو سڑک پر پڑے بچے پر نظر پڑی وہ دوڑ کے اسکے قریب گیا تو دیکھا بچے کے سر پر گہری چوٹ لگی تھی۔معصوم نے اس حالت میں بھی لالٹین مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھا۔ بندے کو شمسی لالٹین دے کرمرجھائی ہوئی آواز میں بولا۔ یہ میری دادی جان کو دےدینا اور کہنا رات کے وقت اسکی روشنی میں کپڑے سیا کریں اور کہنا ’’یہ فرید نے عیدی کے پیسوں سے خ….ر…ی….دی‘‘! آگے کچھ نہ بول سکا اور ہمیشہ کے لئے چپ ہو گیا۔
ادھر دادی زینت اپنی آمدنی کے حساب سےکچھ خاص پکوان تیار کرکے فرید کی راہ دیکھ رہی تھی اور کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہ دوڑتی ہوئی دروازے کی طرح یہ کہتے ہوئے آئی۔ آگیا میرا لال۔ زینت کے دروازے پہ موت کا طوفان کھڑا تھا جسے دیکھ کر و ہ ایسے سکتے میں پڑ گئی کہ شاید ہی کبھی اپنی اصلی حالت میں واپس آپائے گی۔
وزیر باغ، سرینگر
[email protected]