اسلام کے نظام سیاست وحکومت کے موضوع پر عربی زبان میں علماء قدیم نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں، آج بھی وہ کتابیں اسلامی فقہ کی حوالہ کی کتابیں سمجھی جاتی ہیں ۔علامہ ماوردی کی کتاب الاحکام السلطانیہ اس موضوع پر اہم مرجع ہے ، امام ابن تیمیہ کی کتاب بھی اس موضوع پر ہے جس کا نام ہے الامامہ والسیاسۃ ، امام ابو یوسف کی کتاب’’ کتاب الخراج‘‘ اسی موضوع پر ہے ۔ موجودہ دور میں عربی زبان میں سیاست اور حکومت پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں علامہ یوسف القرضاوی کی فقہ الدولۃ اور فقہ الجہاد کا تعلق اسی موسوع سے ہے ، اردوزبان میںاس مو ضوع پر بہت زیادہ کتابیں نہیںملتی ہے پچاس سال پہلے دار المصنفین سے ایک کتا ب اسی ہوضوع پر شائع ہئی تھی جس کا نام’’ اسلام کا سیاسی نظام‘‘ تھا یہ مولانا نا اسحق سیندیلوی ندوی کی کتاب تھی اور تقریبا اسی زمانہ میں ندوۃ المصنفین سے حامد الانصاری غازی صاحب کی کتاب’’ اسلام کا نظام حکومت ‘‘شائع ہوئی۔ علامہ سید سلیمان ندو ی کی سیرت النبی کی آخری جلد اسی موضوع پر ہے یہ بہت اچھی کتاب ہے اگر چہ کہ وہ نامکمل رہ گئی ہے ، پاکستان کی حکومت نے اسے انعام سے بھی نوازا علامہ شبلی نے الفاروق میں اسلامی نظام سیاست و حکومت کی عملی تصویر پیش کی تھی مولانا مودودی کی کتاب ’’اسلامی ریاست ‘‘ اسی موضوع پر ہے یہ مولانا مودودی کی مختلف تحریروں کا مجموعہ ہے جسے پروفیسر خورشید صاحب نے بہت محنت سے مولانا کی مختلف کتابوں سے نکال کر جمع کردیا ہے ان کی کتاب’’ خلافت وملوکیت ‘‘میں بھی سیاسی مباحث آگئے ہیں ۔مولانا تقی عثمانی کی ایک کتاب بھی اسی موضوع پر ہے ۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اس موضوع پر’’ مسئلہ خلافت اور جزیرۃ العرب‘‘ لکھی۔ ان کتابوں کی روشنی میں میں موجودہ مسلم حکومتوں کو دیکھ ا جاسکتا ہے یہ حکومتیں اسلامی نظام سے کتنی دور ہیں ۔ اب بہت سے لوگوں کے نزدیک اسلامی نظام سیاست کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ گئی تھی وہ اسلامی نظام حکومت اور مسلم حکومت کو ایک سمجھنے لگے ہیں کیونکہ ایک طویل زمانہ گذرگیا اور اسلامی نظام حکومت کا روشن چہرہ لوگوں کے سامنے نہیں آیا اور جو لوگ اس کے علم بردار بن کر سامنے آئے انہیں دار ورسن کا سانا کرنا پڑا۔
بیسوس صدی شروع ہوئی تو عالم اسلام مغربی تہذیب کی یلغار کو اسلامی تہذیب کی ڈھال سے اور علمی تصنیفات کے جوشن سے روکنے کی کوشش کررہا تھا عرب دنیا میں جمال الدین افغانی کے شاگرد شیخ محمد عبدہ اور رشید رضا تھے اور دوسرے بہت سے اصحاب قلم تھے جن کی اسلامیات پر طاقتور اور فکر انگیز تحریروںکے دلنشین تیر دل میں ترازو ہورہے تھے، حسن البناء کس شخصیت تھی ، اخوان المسلمون کی تحریک کے متعدد مصنفین تھے جنہوں نے قلم کے میدان میں شہسواری اور پختہ کاری اور گوہر باری کا ثبوت دیا اور مغربی افکار کا کامیاب مقابلہ کیا اور اسلامی نظام کی اہمیت دلوں مں پیدا کی، مولانا علی میاں نے عصر حاضر کی سب سے بڑی اسلامی تحریک الاخوان المسلمون کے بارے میں یہ جملہ کہا تھا لایبغضہم الا منافق ولا یحتہم الا مؤمن یعنی جو ان سے نفرت کرے وہ منافق اور جو ان سے محبت کرے وہ مؤمن ۔ایک صاحب فکر ونظر بصیرت مند عالم دین کے اس قول کی روشنی میں خود ہی فیصلہ کیجئے کہ وہ بہت سارے حاکمان وقت اور کئی’’ شیوخ و امام‘‘ اپنے دوہرے کردار کے باعث کیا قرار پائیں گے جو اخوان کو ہشت گرد قرار دیتے ہیں ؟ یہ حاکمان وقت خوددہشت گرد ہیںکیونکہ انہوں نے دینی قیادتوں کو ظلم اور جارحیت سے دہشت زدہ کرنے کوشش کی ہے۔شاہ فیصل کے زمانہ تک مملکت سعودیہ، الاخوان المسلمون کی مکمل حمایت اور تائید میں تھی اور اس کی سرپرستی کررہی تھی لیکن وہاں کی حکومت نے اب ’’یو ٹرن ‘‘لے لیا ہے ۔برصغیر میں مسلمانوں میں بیداری پیدا کرنے میں علامہ اقبال کے کلام کا بہت بڑا ہاتھ ہے، اقبال اور دوسرے علماء اسلام نے مسلمانوں کو اسلام کا رُخ روشن دکھایا اور اسلامی نظام کی باز دید کا جذبہ ان کے اندر پیدا کیا ۔ اسی کاروان علم وقلم میں مولانا ابو الحسن علی ندوی کا نام بھی آتا ہے جنہوں نے تقریر وتحریر کے ذریعہ تزکیہ و اصلاح کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک میں اسلام کے احیاء کی کوشش کی اور نئی نسل کی شاخوں کو دین اسلام کے شجر سے وابستہ رکھنے میں زبان وقلم کی پوری طاقت صرف کی ۔ مصر میں جب فرعونیت کے احیاء کوشش ہوئی اور عرب قومیت کا نعرہ بلند کیا گیا تو مولانا کی تحریریں صور اسرافیل بن گئیں ، ان کا قلم تیغِ اصیل بن گیا اور ان کی تحریریں بر صغیر ہندستان سے لے کر تمام عرب ملکوں میں پڑھی گئیں کیونکہ مولانا کی عربی نثر اردو سے زیادہ دلکش اورزیادہ طاقتور تھی پھر مولانا کی کتابوں کے دنیا کی زبانوںمیں ترجمے ہوئے عربی زبان میں بہترین انشا ء پردازی اور طاقتور اسلوب مولانا کی وہ خصوصیت ہے جس میں برصغیر کا کوئی عالم ان کا ہمسر نہیں اور اسی وجہ سے وہ پورے عالم اسلام کو ایک ساتھ خطاب کرنے کے لائق ہوئے لیکن حکمرانوں نے مولانا کی بات نہیں مانی، انہوں نے اپنے ملکوں میںآئین اسلام منسوخ کو کر ڈالا ،آئین مغرب کو نافذ کرڈالا ۔ مصرو شام لبنان و عراق و الجزائر سب جگہ یہی ہوا ۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنایا گیاتھا لیکن وہاں ا یک د ن بھی اسلامی حکومت قائم نہیں ہوئی ۔ اب کچھ مرکز اسلام کے بارے میں ع
مقطع میں آپڑی ہے سخن گسترانہ بات
مولانا ابو الاعلیٰ مودودی اور مولانا ابو الحسن علی ندوی بر صغیر کی دو اہم شخصیتیں رہی ہیں ۔ عالم اسلام کی دینی قیادت کے لئے گویاآفتاب اور ماہتاب ۔ دونوں کامل اسلامی نظام کے علم بردار تھے، عہد خلافت راشدہ کو آئیڈیل سمجھتے تھے ۔ سعودی عرب میں شاہ فیصل کے دور سے کچھ پہلے اور کچھ بعد تک خیر کے کام بہت ہورہے تھے ، نہ صرف ملک کے اندر بلکہ عالم اسلام کی ارجمندی اور ملت اسلامیہ کی سر بلندی کےلئے اقدامات کئے جارہے تھے جیسے مدینہ یونیورسٹی کا قیام اور رابطہ عالم اسلامی کا قیام وغیرہ، شاہ فیصل کے زمانہ تک سب سے بڑی دینی تحریک الاخوان المسلمون کی مکمل حمایت اور سر پرستی ہورہی تھی، اس لئے ان دونوں شخصیتوں نے ملوکیت کے نظام کے باوجود سعودی عرب کے ساتھ تعاون کا موقف اختیار کیا جیسا کہ اسلامی تاریخ کے بہت سے علماء نے صالح بادشاہوں کے ساتھ بعض اختلاف کے باوجود تعاون اور تائید کا موقف اختیار کیا لیکن افسوس کہ مرکز اسلام نے اور دیگر خلیجی ملکوں نے حالیہ کچھ عرصہ میں مسلم کش پالیسیوں سے اپنی دینی حیثیت کو مجروح کیا ہے ۔ یہ حکومتیں مصر میں اخوان کی حکومت کو گرانے کی سازش میں شریک ہوگئیں اور عبدالفتا ح سیسی کی اربوں ڈالر سے مدد کی، کثیر تعداد میں اپنے یہاں علماء کو زندان خانوں میں ڈال دیا او راخوانی شخصیت یوسف القرضاوی کو جنہیں پہلے فیصل ایوارڈ سے نوازا گیاتھا انہیں بھی بیک جنبش قلم ’’دہشت گرد ‘‘ قرار دے ڈالا اور اب’’ معتدل اسلام ‘‘کے پردہ میں مغربی تہذیب اور ثقافت کو سعودی معاشرے میں در انداز ہونے کا موقعہ دیاجارہاہے ، گویاحرم کی بے حرمتی اہل حرم کے ہاتھوں ہو رہی ہے ۔ہم پہلے سمجھتے تھے ’’حرم کے رہنے والے ایسے نا محرم نہیں ہوں گے ‘‘ لیکن اب دینی قیادت کو پریشان کیا جارہا ہے، ان کو ’’دہشت گرد‘‘ قرار دیا جارہا ہے ،و پالیسیاں اختیار کی جارہی ہیں جواخوت اسلامی کے منافی ہیں ،گویا ’’ چوں کفر از کعبہ بر خیزد ‘‘ سے ملتی جلتی صورت حال بنتی جارہی ہے ۔ اب اس بات کا یقین ہے کہ مولانا ابو الاعلیٰ مودودی اور مولانا ابو الحسن علی ندوی بقید حیات ہوتے تو ان کے لب اظہار پر اس وقت تالے نہ لگتے اور زبان وقلم سے اس ناروا اور نا زیبا صورت حال پر اپنی تکلیف کا برملا اظہار کرتے۔ حرم کسی کی جاگیر نہیں ہے، پوری دنیائے اسلام کا اس پر حق ہے ۔ عرب دنیا میں کسی کو بولنے اور لکھنے کی اس وقت آزادی حاصل نہیں ہے لیکن برصغیر کےہمارے علماء اور قائدین کے ہونٹوں پر تالے اور زبان قلم پر چھالے اور ان کی زبان دہن میں آبلے کیوں پڑ گئے ہیں ؟ غالباً حرمین کے تقدس کے خیال سے انگشت نمائی اور لب کشائی وہ مناسب نہیں سمجھتے ہیں ، حالانکہ فرماں رواں کی غلطی اور اسلام سے بیگانہ وشی اتنی سنگین ہے کہ اس پر خاموشی مناسب نہیں ہے ۔علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ مہر سکوت توڑیں اور حق بات کہیں اور حق بات لوگوں تک پہنچائیں اور حق کی آواز بلند کریں۔غیر علماء اور عوام دوقسم کے ہیں: ایک وہ ہیں جو باشعور ہیں اور ان حالات کا درد دل میں محسوس کرتے ہیں ، دوسرے وہ ہیں جو بے شعور اور مردہ ہیں اور ان کے دلوں سے احساس زیاںجاتا رہا ۔
انیسوی صدی اور بیسویں صدی میں بر صغیر اور عالم اسلام کے علماء نے مسلم امت کو بیدار کرنے اور اسلامی نظام کے احیاء کی جتنی کوششیں کیں مطلق العنان مسلم عرب حکمرانوں نے ان سب پر پانی پھیر دیا، مصلحین امت کے خوابوں کو چکنا چور کردیا، اسلامی نظام کو بر سر عمل کرنے کے ان کے منصوبوںکو خاک میں ملادیااصلاحی کوششوں کے ستون کو منہدم کردیا ، ان کی کتابوں پر بابندی عائد کردی یہ بیسویں صدی اور اکیسویں صدی کاسانحہ کربلا ہے، حکایت خوں چکاں ہے، روزقیامت مصلحین امت کا ہاتھ ہوگا اور ان حاکمان وقت کا گریباں، ملت کے مصلحین اور علماء اور صالحین اسلام کے مکمل نظام کو بروئے کار دیکھنا چاہتے تھے وہ اسلامی نظام خلافت کا احیاء چاہتے تھے، اب وہ سب اسیر اور پابہ زنجیر ہیں،ہرمسلم ملک میں اسلامی نظام کی دعوت قابل تعزیر جرم بن گئی ہے ۔ یورپ ا ور امریکا میں اسلام کے خلاف معاندانہ رویہ اختیار کیا گیا اور اسلام کو دہشت اور تشدد کا مذہب قرار دیا گیا عرب ملک احساس کمتری میں مبتلا ہوکراب صفائی پیش کر رہے ہیں اوراب ’’ معتدل اسلام‘‘ کے نام پر نئے شہر بسائے جارہے ہیں ۔ مصلحین امت نے جو کوششیں کی تھیں وہ خاک میں مل گئیں ان کا نخل تمنا ہرا نہ ہوسکا، ان کے خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے ؎
دیکھو وہ میرے خواب تھے دیکھو یہ میرے زخم ہیں
میں نے تو سب حساب جاں برسرعام رکھ دیا