سہیل بشیر کار ،بارہمولہ
اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ رب العزت نے جس طرح مردوں پر کچھ پابندیاں عائد کی ہیں، وہیں خواتین بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ ایک پاکیزہ معاشرہ کے لیے چند پابندیاں لازمی ہے لیکن مذہب کے محدود تصور اور مقامی رسوم و رواج نے بھی مذہب میں اپنی جگہ بنالی ہے۔مشرق میں خواتین میں رائج مختلف پابندیوں کو دین سمجھ لیا گیا، اگرچہ ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ دین اسلام ہی واحد دین ہے جو خواتین کو جہاں تحفظ دیتا ہے وہیں حقوق اور ذمہ داریاں بھی دیتا ہے لیکن عملاً خواتین کا ہمارے دینی معاشرے میں ہم کوئی رول نہیں دیکھتے۔دورِ نبوت میں خواتین ایک متحرک اکائی کی حیثیت سے معاشرہ کی تعمیر میں اپنا رول ادا کرتی ہوئی دکھائی دیتی تھی ،کبھی وہ عمر فاروق ؓ کو اسلام میں لانے کا باعث بنتی ہے، کبھی وہ حدیبیہ کے مقام پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ دیتی ہے ،جس سے صحابہ قربانی کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں،چاہے وہ رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلی وحی کے متعلق حوصلہ افزائی کرنا ہو ،جب حضرت خدیجہ ؓسے تمام واقعہ بیان کرکے فرمایا کہ مجھ کو اپنی جان کا خطرہ ہےتو حضرت خدیجہؓ نے فرمایا:’ آپؐ کو بشارت ہو ،آپ ہرگز نہ ڈرئیے۔ خدا کی قسم اللہ آپ ؐکو کبھی رُسوا نہ کرے گا،آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں۔ آپ ؐکی صلہ رحمی بالکل محقق ہے۔ ہمیشہ آپ سچ بولتے ہیں لوگوں کے بوجھ اٹھاتے ہیں یعنی دوسروں کے قرضے اپنے سر رکھتے ہیں اور ناداروں کی خبرگیری فرماتے ہیں،امین ہیں لوگوں کی امانتیں ادا کرتے ہیں، مہمانوں کی ضیافت کا حق ادا کرتے ہیں، حق بجانب امور میں آپ ہمیشہ معین اور مددگار رہتے ہیں۔ ( بخاری و مسلم) ۔تب خاتون کبھی مارکیٹ کی انسپکٹر ہوتی تھی تو وہی میدان جنگ میں زخمیوں کی تیمارداری کرتے ہوئے نرس کی ذمہ داری پوری کرتی، کبھی کامیاب تاجر تو کبھی دباغت کرنے میں ماہر، کہیں وہ کاشتکاری کی ماہر تو کبھی میدان جنگ میں اپنے ہنر آزماتی تھی ۔بدقسمتی سے جہاں مغرب نے خواتین کا استحصال کیا، عورت کو کموڈٹی بنایا، وہیں مشرقی روایات نے خواتین کو عضو معطل کی صورت بخشی ۔ایک خاتون دور نبویؐ میں حاضر ہوتی ہے اور اپنے آپ کو شادی کے لئے پیش کرتی ہے لیکن آج ہمارے معاشرے میں ایسا سوچنے والی خاتون بدکردار تصور کی جاتی ہے۔مجھے اس وقت حیرت ہوتی ہے جب خواتین اپنا نام لکھنے کی بجائے ام بنت ِفلاں کے نام سے لکھتی ہیں حالانکہ دورِ نبوی میں خواتین اپنا نام ظاہر کرنے میں کوئی بُرائی نہیں سمجھتی، بلکہ صحابیات، ام المومنین اپنے ناموں سے پہچانی جاتی تھیں۔اگر کوئی خاتون اپنے نام سے سوشل میڈیا کا استعمال کریں، یا کوئی تحریر لکھیں تو عجیب معلوم ہوتا ہے۔شادی بیاہ میں دعوتی کارڈ پر لڑکے کا نام لکھا جاتا ہے وہی عورت کا نام معیوب سمجھا جاتا ہے. ۔اسلام میں عورت ہاتھ اور چہرہ کو کھول سکتی ہے،لیکن ہمارے معاشرہ میں اگر کوئی خاتون ابایا پہنتی تو وہ دین دار نہیں سمجھی جاتی ۔مشرقی روایات کے چلتے کچھ علما نے یہاں تک لکھا ہے کہ عورت جب باہر نکلے تو اس کو چاہیے کہ سوائے ایک آنکھ کے ہر چیز کا پردہ کرے۔پردہ کے نام پر استحصال کا نتیجہ یہی ہوگا کہ خواتین پردہ پہننے سے اعلان برأت کریں گی ۔دورِ نبوی میں مساجد میں خواتین آتی تھیں ،نہ صرف نماز ادا کرتی بلکہ معاشرتی سرگرمیوں میں حصہ لیتی تھیں ، خلیفہ وقت کو سوال پوچھتی ۔فتنہ کے نام پر ہم نے خواتین کو مساجد آنے سے روکا حالانکہ یہی خواتین بازار میں نظر آتی ہے۔آج بھی امت مسلمہ کے بڑے طبقہ میں یہ بات رائج ہے کہ خاتون کی کمائی حرام ہے حالانکہ دور ِنبویؐ میں خواتین روزی روٹی کماتی تھیں۔شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے ایک خاتون پیسہ کما بھی سکتی ہے۔ رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نبوت کا کام شروع کیا تو سیدہ خدیجہؓ نے اپنا پورا مال پیش کیا اور رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اس کا استعمال کرتے،حضرت عبداللہ بن مسعودؓ مالی اعتبار سے خوش حال نہ تھے ۔ اُن کی اہلیہ حضرت زینبؓ دست کاری میں ماہر تھیں، جس سے وہ اچھا خاصا کما لیتی تھیں۔ اُن کی ساری کمائی شوہر اور بچوں پر خرچ ہوجاتی تھی اور صدقہ وخیرات کے لیے کچھ نہ بچتا تھا۔ ایک بار انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر سوال کیا کہ میری ساری کمائی گھر ہی میں شوہر اور بچوں پر خرچ ہوجاتی ہے، اِس بنا پر میں دوسروں میں کچھ صدقہ نہیں کرپاتی ۔ کیا مجھے اپنے شوہر اور بچوں پر خرچ کرنے کا اجر ملے گا؟ آپؐ نے جواب دیا:
اَنْفِقِی عَلَیْہِمْ، فَاِنَّ لَکَ فِی ذٰلِکَ اَجْرُمَا اَنْفَقْتِ عَلَیْہِم (مسنداحمد۱۶۰۸۶﴾) ، غیر ضروری پابندیوں سے خاتون رُکی تو نہیں البتہ دین اسلام کے لیے وہ جزو معطل بن گئی ۔قرآن پاک میں حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹیوں کا بہترین انداز میں ذکر آیا ہے جو اپنے والد کی پیرانہ سالی کی وجہ سے جانوروں کو خود ہی چرواتی تھی ۔مشترکہ خاندانی نظام کے نام پر عورت کا استحصال کیا گیا۔نہ صرف اپنے شوہر اور بچوں کی دیکھ بھال کر نا پڑتی ہے بلکہ ساس، سسر، دیور ،نند کی بھی خدمت کرنی پڑتی ہے۔اگر کبھی شوہر بیوی کی مدد کرتا ہے تو اس کو طعنہ دیا جاتا ہے حالانکہ کائنات کے امام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل خانہ کو گھریلو کاموں میں مدد کرتے تھے،’’ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ آپؐ اپنی ازواج کے کاموں میں مدد کرتے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ تھی، کبھی گھر میں آٹا گوندھ دیتے ، گھر کی دیگر ضروریات پوری کرتے۔‘‘ (ترمذی) قرونِ اول میں خواتین واعظ و مبلغ ہی نہیں بلکہ مفسر اور محدثات بھی تھیں لیکن اگر آج کوئی خاتون ایسا کریں تو یہ عیب سمجھا جاتا ہے۔وہ خلیفہ وقت کے اجتہاد کو بھی چیلنج کرتی تھی۔ ایک مرتبہ خلیفۂ دوم حضرت عمرفاروقؓ خطاب فرمارہے تھے، حاضرین میں مرد و عورت بھی شامل تھے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: تم لوگ عورتوں کے مہر زیادہ رکھتے ہو، جب کہ نبی اکرمؐ اور اُن کے اصحاب چار سو درہم سے زیادہ مہر مقرر نہیں کرتے تھے۔ زیادہ مہر مقرر کرنا ثواب کا کام ہوتا تو وہ ضرور ایسا کرتے۔ جب حضرت عمر ؓ خطبہ سے فارغ ہوئے تو قریش کی ایک عورت نے اعتراض کیا اور کہا: اے امیر المومنین! کیا آپ نے لوگوں کو اپنی بیویوں کا مہر چار سو درہم سے زیادہ رکھنے سے منع کردیا ہے؟ عمر ؓ نے کہا: ہاں! تو عورت نے پوچھا: کیا اللہ نے اس سلسلہ میں جو کچھ نازل کیا ہے وہ آپ نے نہیں سنا؟ عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا وہ کیا؟ تو خاتون نے یہ آیت پڑھی:واتیتم احداہن قنطاراً فلا تاخذوا منہ شیئاً۔ (النساء: ۲۰)’’اور خواہ تم نے ان عورتوں میں کسی کو ڈھیر سا مال بھی دے دیا ہو تو اس میں سے کچھ نہ لو۔‘‘
یہ سن کر حضرت عمرؓ بولے تم لوگ عمر سے زیادہ فقیہ ہو اور پھر منبر پر چڑھے اور لوگوں کو مخاطب کرکے کہا: لوگو! میں نے تم کو چار سو درہم سے زیادہ مہر مقرر کرنے سے منع کیا تھا، اب جس کا جتنا جی چاہے مہر مقرر کرلے۔اسی طرح خواتین کے سفر کے بارے میں رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ وقتی فیصلہ کیا تھا کہ عورت محرم کے بغیر سفر نہ کریں لیکن اب جب سہولیات بڑھ گئی ہیں اور دوران سفر کے وہ خطرات زائل ہوچکے ہیں جو اس زمانے میں تھے، پھر بھی اکیلے سفر کرنا کوئی عیب نہیں۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف اشارہ کیا:’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے فقر و فاقہ کی شکایت کی پھر ایک اور شخص آیا اور اس نے راستوں کی بدامنی کی شکایت کی۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عدی تم نے مقام حیرہ دیکھا ہے (جو کوفہ کے پاس ایک بستی ہے. ) میں نے کہا کہ دیکھا تو نہیں البتہ اس کا نام سنا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تمہاری زندگی کچھ اور لمبی ہوئی تو تم دیکھو گے کہ ہودج میں ایک عورت اکیلی حیرہ (ایران ) سے سفر کر ے گی اور مکہ پہنچ کر کعبہ کا طواف کرے گی اور اللہ کے سوا اسے کسی کا بھی خوف نہ ہوگا۔‘‘(بخاری) بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ کہ ہمیں دیکھنا ہے کہ سفر محفوظ ہے یا نہیں ،اگر ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔ اب تو لوگوں کے سوچ میں تھوڑی تبدیلی آئی ہے لیکن پہلے اگر کوئی خاتون گاڑی ڈرائیو کرتی تو لوگ اس عورت کو عجیب نظروں سے دیکھتے ،حالانکہ دور ِرسالت میں بخاری مسلم حدیث ملتی ہے کہ ازواج المطہرات اور ازواج الصحابہ اونٹ چلاتی تھیں۔کچھ لوگ یہاں تک کہتے ہیں کہ عورت کی آواز کا بھی پردہ ہے، حالانکہ دورِ نبویؐ میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ہماری ماں سیدہ عائشہؓ مردوں کو بھی پڑھاتی تھی ،اسی طرح شرم و حیا کے نام پر بہت سے امور ہیں جنہیں ڈِسکس کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے، حالانکہ وہ مسائل قرآن کریم میں کھل کر بیان کیے گئے ہیں، اختلاط کے بارے میں اسلام کا موقف یہ ہے کہ ایک مرد ایک خاتون کے ساتھ تنہائی میں نہ بیٹھے۔اس کے برعکس اگر کسی جگہ بہت ساری خواتین ہوں اور بہت مرد اور وہ دور دور بھی ہوں تو ایسا اختلاط میں نہیں آتا۔آج بھی ہمارے معاشرہ میں بیوی سے مشورہ کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔صلح حدیبیہ کے موقع پر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے باوجود حضراتِ صحابہؓ میں سے کسی نے نہ قربانی کی اورنہ بال منڈوائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس صورت حال سے کافی پریشان ہوئے۔خیمہ میں آکر اپنی اہلیہ حضرت ام سلمہؓ سے اس سلسلے میں مشورہ کیا۔ انھوں نے یہ مشورہ دیا کہ یا رسول اللہؐ ! آپ باہر تشریف لے جائیے، اپنی قربانی ذبح کیجیے، بال منڈالیجیے اورواپس آجائیے۔ آپؐ نے ایسا ہی کیا۔یہ دیکھ کر حضراتِ صحابہؓ بھی بادل ناخواستہ اُٹھ کھڑے ہوئے، قربانی کی اورپھر بال منڈوائے۔ (صحیح البخاری)طلاق یافتہ یا جس کا شوہر فوت ہوا ہو ،خاتون کے اگر بچے ہوں تو اس کی دوسری شادی ہمارے معاشرے میں معیوب سمجھی جاتی ہے، سسرال کی طرف سے مختلف بہانے کیے جاتے ہیں کہ وہ دوسری شادی نہ کرے، معاشرہ میں مطلقہ کا نکاح کرنا انتہائی مشکل بن گیا ہے، حالانکہ اسلام میں اس کی تلقین کی گئی تھی۔ مشکاۃ شریف کی روایت میں ہے :حضرت علی ؓراوی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’علی ! تین باتوں کے کرنے میں دیر نہ کیا کرنا۔ ایک تو نماز ادا کرنے میں جب کہ وقت ہو جائے، دوسرے جنازے میں جب تیار ہوجائے اور تیسری بے خاوند عورت کے نکاح میں، جب کہ اس کا کفو (یعنی ہم قوم مرد) مل جائے‘‘۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم دین کے نام پر مشرقی رسومات کی قید سے اپنے معاشرہ کو آزاد کریں تاکہ خواتین کو ایسا محسوس ہو کہ ہم بھی معاشرے کی تعمیر میں اپنا رول ادا کر سکتی ہیں۔یہ دین آیا ہی ہے اس لیے کہ بندے کو رسومات ِبد سے آزاد کرے،تنگدستی ختم ہوں، آسانیاں رواج پائیں ، جب ایسا ہوگا تو خواتین اسلامی معاشرے سے خوف محسوس نہیں کریں گی۔