تاریخ ِ اسلام
مسعود محبوب خان
اسلامی تاریخ میں خواتین کے یہ تمام زیرِ مطالعہ کردار ہمیں اس بات کی تعلیم دیتے ہیں کہ عورت صرف خاندان کی حد تک نہیں، بلکہ پورے معاشرتی نظام میں ایک فعال اور بااثر کردار ادا کر سکتی ہے۔ چاہے وہ صبر و استقامت کا نمونہ ہوں، یا علم و حکمت میں رہنمائی فراہم کرنے والی، یا میدانِ جنگ میں بہادری کا مظاہرہ کرنے والی، یہ تمام خواتین ہمارے لیے مثالی ہیں۔ ان کے عمل، قربانیاں، اور کردار آج بھی ہمارے لیے ایک روشن راہنمائی فراہم کرتے ہیں، جو ہمیں اپنی زندگیوں میں ان صفات کو اپنانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ یہ اسلامی تاریخ کی وہ خواتین ہیں جنہوں نے اپنی زندگیوں کے ذریعے نہ صرف اپنے وقت کو بہتر بنایا بلکہ امت مسلمہ کے لیے ایک مثالی نشان چھوڑا ہے۔ ان کا پیغام ہر دور میں اہمیت رکھتا ہے اور یہ ثابت کرتا ہے کہ عورتیں اپنے ایمان، عزم، اور حبِ الٰہیہ کے ذریعے کسی بھی چیلنج کا مقابلہ کر سکتی ہیں۔ یہاں عورت کی ذہنی مضبوطی اور صبر و استقامت کے جو واقعات پیش کیے جارہے ہیں، وہ نہ صرف اسلامی تاریخ کی عظیم مثالیں ہیں بلکہ عورت کے کردار اور اس کے اثرات کو سمجھنے کے لیے بہترین حوالہ بھی ہیں۔
حضرت ہاجرہؓ کا واقعہ اسلامی تاریخ میں صبر، استقامت، اور توکل کی ایک عظیم مثال ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف ان کے عظیم ایمان کی عکاسی کرتا ہے بلکہ اس حقیقت کو بھی واضح کرتا ہے کہ اللّٰہ پر کامل بھروسہ انسان کو ناممکن حالات میں بھی کامیاب کر سکتا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کے حکم پر جب حضرت ہاجرہؓ اور حضرت اسماعیلؑ کو بےآب و گیاہ وادی مکہ میں چھوڑ دیا گیا، تو حضرت ہاجرہؓ نے اللّٰہ کی رضا کو قبول کرتے ہوئے تنہائی اور بے سر و سامانی کو اپنا مقدر بنایا۔ جب پانی ختم ہوا اور حضرت اسماعیلؑ کی پیاس شدت اختیار کر گئی، تو حضرت ہاجرہؓ نے اپنی ممتا کے جذبے سے مجبور ہو کر پانی کی تلاش شروع کی۔ صفا اور مروہ کے درمیان ان کی دوڑ درحقیقت اللّٰہ پر ان کے مکمل اعتماد اور اپنی جدوجہد کا عکاس تھی۔
اللّٰہ تعالیٰ کو حضرت ہاجرہؓ کا یہ عمل اس قدر پسند آیا کہ ان کی اس قربانی کو قیامت تک کے لیے حج کا ایک لازمی رکن بنا دیا گیا۔ یہ عمل اس بات کی علامت ہے کہ قربانی اور اللّٰہ پر توکل کبھی رائیگاں نہیں جاتا، اور اللّٰہ اپنے بندوں کی کوششوں کو بہترین اجر سے نوازتا ہے۔ حضرت ہاجرہؓ کا یہ واقعہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ مشکل سے مشکل حالات میں بھی اللّٰہ کی رحمت پر یقین رکھنا چاہیے، اور اپنی کوشش اور جدوجہد کو جاری رکھنا چاہیے۔ ان کی قربانی آج بھی مسلمانوں کے لیے ایمان اور یقین کا ایک بہترین سبق ہے، ان کی اس قربانی اور عزم کو اللّٰہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لیے حج کا حصّہ بنا دیا، جسے ہر سال لاکھوں مسلمان حج کے دوران دہراتے ہیں، جو قیامت تک یاد رکھا جائے گا۔
اسی طرح حضرت خدیجہؓ کا کردار نبی اکرمؐ کے لیے تسلی اور سکون کا ذریعہ بننا اس بات کی دلیل ہے کہ عورت ایک مرد کی سب سے بڑی طاقت اور سہارا ہو سکتی ہے۔ وہ آپؐ کی اوّلین حمایتی تھیں اور مشکل وقت میں اپنی حکمت اور محبت سے آپؐ کو حوصلہ دیا، جس سے نبی اکرمؐ کو بڑی تقویت ملی۔ اسی طرح حضرت خدیجہؓ کا کردار اسلامی تاریخ میں نہایت اہم اور منفرد ہے۔ وہ نبی اکرمؐ کی پہلی زوجہ محترمہ، پہلی ایمان لانے والی اور آپؐ کی سب سے بڑی حامی و مددگار تھیں۔ ان کا وجود نبی اکرمؐ کے لیے محبت، سکون، اور حوصلے کا بے مثال ذریعہ تھا، جو مشکل ترین اوقات میں آپؐ کو طاقت فراہم کرتا رہا۔
پہلی وحی کے نزول کے بعد جب نبی اکرمؐ کو بشری جذبات کے تحت کچھ گھبراہٹ محسوس ہوئی، تو حضرت خدیجہؓ نے اپنے حکمت بھرے الفاظ اور محبت سے آپؐ کو تسلی دی۔ انہوں نے فرمایا: ’’اللّٰہ کی قسم! اللّٰہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا، کیونکہ آپ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں، کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، ناداروں کو کماتے ہیں، مہمانوں کی میزبانی کرتے ہیں اور حق کی مدد کرتے ہیں۔‘‘ یہ الفاظ نہ صرف نبی اکرمؐ کے دل کو سکون اور اطمینان دینے کا سبب بنے بلکہ ان میں حضرت خدیجہؓ کی بصیرت اور آپؐ کے مشن پر غیر متزلزل یقین کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔
حضرت خدیجہؓ نے اپنی دولت، وقت، اور محبت کو نبی اکرمؐ کے مشن کی تکمیل کے لیے وقف کر دیا۔ انہوں نے ہر آزمائش میں آپؐ کا ساتھ دیا، چاہے وہ قریش کی مخالفت ہو یا شعبِ ابی طالب میں مشکل دن۔ ان کی شخصیت اس بات کا عملی نمونہ ہے کہ ایک عورت اپنی محبت، فہم، اور قربانی سے کس طرح اپنے شوہر اور ایک عظیم مقصد کو سہارا دے سکتی ہے۔ حضرت خدیجہؓ کا کردار آج کے دور میں عورت کے لیے ایک مثالی نمونہ ہے، جو یہ ثابت کرتا ہے کہ عورت نہ صرف ایک خاندان بلکہ پورے معاشرے کی تعمیر میں مرکزی کردار ادا کر سکتی ہے، بشرطیکہ وہ اپنے ایمان، حکمت، اور محبت کو صحیح سمت میں استعمال کرے۔
حضرت ام سلمہؓ کی حکمت اور بصیرت کا مظاہرہ صلح حدیبیہ کے موقع پر نہایت شاندار انداز میں سامنے آیا، جس نے اسلامی تاریخ میں ایک اہم موڑ کی شکل دی۔ اس واقعے نے یہ ثابت کیا کہ عورت کی دانشمندی اور معاملہ فہمی نہ صرف ایک خاندان بلکہ پوری امت کے لیے رہنما ثابت ہو سکتی ہے۔ صلح حدیبیہ کے معاہدے کی شرائط بظاہر مسلمانوں کے حق میں ناموافق معلوم ہو رہی تھیں، جس کی وجہ سے صحابۂ کرامؓ کے جذبات مجروح ہوئے۔ وہ شدید افسردہ اور پریشان تھے کہ کفار مکہ کے ساتھ ایسا معاہدہ کیوں کیا جا رہا ہے۔ اس صورت حال میں نبی اکرمؐ نے صحابۂ کرامؓ کو حکم دیا کہ وہ قربانی کے جانور ذبح کریں اور حلق کروائیں، لیکن جذباتی کیفیت کے باعث کسی نے فوراً عمل نہ کیا۔
اس نازک موقع پر حضرت ام سلمہؓ نے نبی اکرمؐ کو نہایت حکمت بھرے مشورے سے نوازا۔ انہوں نے عرض کیا: ’’یا رسول اللّٰہؐ! آپ خود قربانی کریں اور حلق کروائیں۔ جب صحابہ آپ کو ایسا کرتے دیکھیں گے تو وہ بھی فوراً آپ کی پیروی کریں گے۔‘‘ نبی اکرمؐ نے ان کے مشورے پر عمل کیا، اور جیسا کہ حضرت ام سلمہؓ نے پیش گوئی کی تھی، تمام صحابۂ کرامؓ نے بھی فوراً آپؐ کی اتباع کی۔ اس حکیمانہ اقدام نے مسلمانوں کے جذبات کو سنبھالا اور انہیں نظم و ضبط کے ساتھ آگے بڑھنے کی ترغیب دی۔
حضرت ام سلمہؓ کا یہ مشورہ ان کی گہری بصیرت، حکمت، اور حالات کو سمجھنے کی غیر معمولی صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ عورت مردوں کے لیے ایک بہترین مشیر، رہنما، اور ناصح ہو سکتی ہے، بشرطیکہ اس کی رائے کو اہمیت دی جائے اور اس پر اعتماد کیا جائے۔ ان کی یہ دانشمندی آج بھی خواتین کے لیے ایک مثال ہے کہ وہ اپنے علم اور بصیرت سے ہر مشکل موقع پر مؤثر کردار ادا کر سکتی ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عورت کی حکمت اور معاملہ فہمی مردوں کے لیے رہنما ثابت ہو سکتی ہے۔(جاری)
رابطہ۔09422724040
[email protected]