مسعود محبوب خان
حضرت آسیہؓ، جو فرعون جیسے جابر حکمران کی بیوی تھیں، نے اللّٰہ کے دین پر ایمان لانے کے بعد اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے بے مثال قربانی دی۔ فرعون نے انہیں اپنے عقیدے سے باز رکھنے کے لیے شدید اذیت دی، لیکن وہ اپنے ایمان پر ثابت قدم رہیں۔ ان کی دعائیں اور صبر اسلامی تاریخ میں ایمان کی مضبوطی کی اعلیٰ مثال ہیں۔ قرآن میں ان کا ذکر ہوا: ’’اے میرے ربّ! میرے لیے جنّت میں اپنے پاس ایک گھر بنا دے اور مجھے فرعون اور اس کے عمل سے نجات دے۔‘‘ (سورۃ التحریم: 11)۔ حضرت آسیہؓ کا واقعہ اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ عورت اپنے ایمان کی قوت سے ہر جابر اور ظالم قوت کا مقابلہ کر سکتی ہے۔
حضرت نسیبہ بنت کعبؓ ان خواتین میں شامل تھیں جو نبی اکرمؐ کے ساتھ میدانِ جنگ میں شریک ہوئیں۔ جنگِ احد کے موقع پر جب مسلمانوں کے قدم ڈگمگا رہے تھے اور دشمن کا دباؤ بڑھ رہا تھا، تو حضرت نسیبہؓ نبی اکرمؐ کے دفاع کے لیے آگے بڑھیں۔ انہوں نے تلوار اور تیر کا استعمال کرتے ہوئے دشمنوں کا مقابلہ کیا اور اپنے جسم پر شدّید زخم کھائے، لیکن اپنی جگہ سے پیچھے نہ ہٹیں۔ نبی اکرمؐ نے ان کے بارے میں فرمایا:’’جنگِ احد میں نسیبہ جہاں بھی جاتی تھیں، دائیں یا بائیں، میں انہیں اپنے دفاع میں لڑتے دیکھتا تھا۔‘‘
حضرت صفیہؓ نبی اکرمؐ کی پھوپھی تھیں اور جنگِ خندق کے دوران مدینہ کے قلعے کی حفاظت پر مامور خواتین کے ساتھ موجود تھیں۔ جب دشمن کا ایک جاسوس قلعے کے قریب پہنچا، تو حضرت صفیہؓ نے خود بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس دشمن کو قتل کر دیا تاکہ دوسرے دشمن حوصلہ نہ کر سکیں۔ ان کا یہ عمل اس بات کا ثبوت ہے کہ عورت جنگی حکمت عملی اور دلیری میں بھی کسی سے کم نہیں۔
نبی اکرمؐ کی بیٹیوں حضرت رقیہؓ اور حضرت زینبؓ نے اسلام کی خاطر بے پناہ مصائب برداشت کیے۔ حضرت رقیہؓ اپنے شوہر حضرت عثمان غنیؓ کے ساتھ ہجرتِ حبشہ کے دوران مشکل حالات سے گزریں۔ حضرت زینبؓ کو مکہ میں اپنے شوہر کے ظلم کا سامنا کرنا پڑا، لیکن وہ ثابت قدم رہیں اور نبی اکرمؐ کے پیغام کو اپنائے رکھا۔ ان کی قربانیاں خواتین کی استقامت اور دین کی خدمت کے لیے ایثار کا عملی نمونہ ہیں۔
حضرت فاطمہؓ الزہراء نبی اکرمؐ کی سب سے محبوب بیٹی تھیں۔ انہوں نے نبی اکرمؐ کے ساتھ مکہ کے مشکل ترین حالات میں صبر و ہمت کا مظاہرہ کیا۔ قریش کے ظلم و ستم کے دوران وہ ہمیشہ اپنے والد کے ساتھ کھڑی رہیں اور ان کی خدمت کرتی رہیں۔ شعب ابی طالب کے دوران شدید مشکلات اور بھوک کے باوجود وہ دین کے کام میں معاونت کرتی رہیں۔
حضرت عائشہؓ صدیقہ نہ صرف نبی اکرمؐ کی زوجہ محترمہ تھیں بلکہ اسلامی تاریخ کی ایک عظیم معلمہ بھی تھیں۔ ان کے ذریعے ہزاروں احادیث ہم تک پہنچیں، اور ان کا علمی کردار بعد کے ادوار میں امت مسلمہ کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوا۔ حضرت عائشہؓ کی علمی بصیرت اور حکمت کا اعتراف صحابۂ کرامؓ اور تابعین نے کیا۔ وہ خواتین کے لیے ایک ایسی مثال ہیں جو علم کے میدان میں اپنی قابلیت کے ذریعے امت کی رہنمائی کر سکتی ہیں۔
حضرت خنساءؓجو عرب کی مشہور شاعرہ تھیں، اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے دین کے لیے اپنے چار بیٹوں کو جہاد میں بھیجا۔ ان سب کی شہادت کے بعد انہوں نے صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا: ’’الحمدللّٰہ! میں نے اپنے بیٹوں کو اللّٰہ کے راستے میں قربان کیا۔‘‘حضرت خنساءؓ جن کا اصل نام تماضر بنت عمرو تھا، عرب کی ایک مشہور شاعرہ اور بہادر خاتون تھیں۔ اسلام قبول کرنے سے پہلے ان کی شاعری میں اپنے بھائی صخر کی موت پر مرثیہ گوئی کا رنگ غالب تھا، لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد ان کی شخصیت اور مقصدِ حیات میں انقلابی تبدیلی آئی۔ حضرت خنساءؓ نے اپنی چار بیٹوں کی تربیت اس انداز میں کی کہ وہ دینِ اسلام کے سچے سپاہی بن گئے۔ جب جنگِ قادسیہ کا موقع آیا تو حضرت خنساءؓ نے اپنے بیٹوں کو جہاد کے لیے تیار کیا اور روانگی سے پہلے ان سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’میرے بیٹو! تم نے اپنی پوری زندگی اللّٰہ کی اطاعت میں گزاری ہے، اب جب کہ اسلام کو تمہاری ضرورت ہے، تمہارا فرض ہے کہ دین کے دفاع میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرو۔‘‘حضرت خنساءؓ کے یہ چاروں بیٹے جنگِ قادسیہ میں شہید ہوگئے۔ ان کی شہادت کی خبر سن کر حضرت خنساءؓ نے صبر اور ایمان کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا: ’’الحمدللّٰہ! جس نے مجھے چار بیٹوں کی قربانی کا شرف عطا کیا اور مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن وہ میرے لیے جنت کے دروازے کھولیں گے۔‘‘ حضرت خنساءؓ کی یہ قربانی اسلامی تاریخ میں صبر و استقامت کی ایک روشن مثال ہے۔ انہوں نے اپنے ایمان کی مضبوطی اور اسلام سے محبت کا وہ مظاہرہ کیا جو رہتی دنیا تک خواتین کے لیے ایک مشعلِ راہ ہے۔ ان کا یہ کردار اس بات کی دلیل ہے کہ ایک ماں اپنے ایمان اور مقصد کے لیے کس طرح اپنی اولاد کی تربیت کر کے دین کی خدمت میں پیش کر سکتی ہے۔
یہ تمام مثالیں اسلامی تاریخ میں خوبصورتی سے عورت کے عظیم کردار، ذہانت، قربانی، حکمت اور ایمان کو اجاگر کرتے ہیں۔ یہ خواتین دین کی خدمت، خاندان کی حمایت اور معاشرتی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے آج کے دور کی خواتین کے لیے بہترین نمونہ ہیں۔ حضرت ہاجرہؓ کی ریگستان میں صبر و استقامت، حضرت خدیجہؓ کا نبی اکرمؐ کے لیے سکون و اطمینان کا باعث بننا، اور حضرت ام سلمہؓ کی صلح حدیبیہ میں بصیرت سے بھرپور مشورہ، وغیرہ،یہ تمام مثالیں عورت کی غیر معمولی صلاحیتوں اور کردار کی عظمت کو ظاہر کرتی ہیں۔
اسلام نے عورت کو ایک عظیم مرتبہ عطا کیا ہے، جسے دنیا کی کسی اور تہذیب یا مذہب نے نہیں دیا۔ اسے ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کے طور پر عزت و تکریم دی گئی اور معاشرتی ترقی میں برابر کا حصّہ دار بنایا گیا۔ نبی اکرمؐ نے عورتوں کے حقوق کے تحفّظ کے لیے واضح ہدایات دیں اور ان کی عزت و مقام کو بلند کیا۔ آج ہمیں ضرورت ہے کہ ہم ان عظیم خواتین کے کردار کو اپنی زندگیوں میں شامل کریں اور عورتوں کو ان کے حقیقی حقوق اور مقام دیں۔ اگر ہم ان کی قربانیوں اور حکمت کو اپنے رویوں کا حصّہ بنا لیں، تو ہم نہ صرف اپنے خاندان بلکہ پورے معاشرے کو مثبت اور کامیاب بنا سکتے ہیں۔ عورت کا مقام اس کی ذہانت، ایثار، اور حکمت میں ہے اور اسے اسی نظر سے دیکھنا چاہیے نہ کہ کسی کمزوری کے تناظر میں۔ اس کا احترام اور اس کی صلاحیتوں کا اعتراف ہماری معاشرتی ترقی کی ضمانت ہے۔
عورت کی ذہنی مضبوطی اور صبر و استقامت کے یہ واقعات نہ صرف اسلامی تاریخ کی عظیم مثالیں ہیں بلکہ ان کی روشنی میں عورت کے کردار اور اس کے اثرات کو سمجھنے کے لیے بہترین حوالہ بھی فراہم کرتے ہیں۔ یہ سب عورت کی عظمت اور اس کے معاشرتی کردار کی گواہی دیتے ہیں۔ یہ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ عورت صرف جسمانی کمزوری کی بنا پر کمتر نہیں بلکہ اس کی ذہنی مضبوطی، قربانی اور حکمت کسی بھی بڑے چیلنج کا سامنا کرنے اور مشکل حالات کو سنوارنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ان خواتین نے نہ صرف اپنے کردار سے اپنی ذات کو بلند کیا بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ بن گئیں۔ان مثالوں سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی تاریخ میں عورت کو ہمیشہ عزت، وقار اور مساوی حیثیت دی گئی۔ اسلام نے عورت کو وہ مقام دیا جس میں اس کی ذہنی، روحانی، اور سماجی طاقتوں کا اعتراف کیا گیا ہے۔ امت مسلمہ کی غیور و خوددار عفت مآب خواتین کو چاہیے کہ ان عظیم خواتین کے کردار کو اپنی زندگیوں میں عملی طور پر اپنائیں اور ان کی قربانیوں اور استقامت کو اپنی سماجی اقدار کا حصّہ بنائیں۔ عورت کے کردار کا صحیح ادراک ہی ایک مضبوط اور ترقی یافتہ معاشرے کی بنیاد ہے۔
رابطہ۔09422724040
[email protected]