سرینگر //مشترکہ مزاحمتی قیادت سید علی گیلانی، میرواعظ عمر فاروق اور محمد یٰسین ملک کا ایک اجلاس جمعرات بعد نماز مغرب حیدرپورہ میں منعقد ہوا جس میں ریاست جموں کشمیر کی گھمبیر صورتحال، خاص کر خواتین کی چوٹیاں کاٹنے اور اسٹیٹ سبجیکٹ لاء کو ختم کرنے پر تفصیلی غور وخوض ہوا۔ اجلاس میں ریاست جموں کشمیر میں بھارت کی افواج اور ریاستی حکومت کی طرف سے جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالی، قتل وغارت اور لاقانونیت کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی گئی، جبکہ خواتین کی چوٹیاں کاٹنے کے گھناؤنے جرائم کے خلاف سنیچر 21؍اکتوبرء کو ریاست گیر ہڑتال کی اپیل کرتے ہوئے حریت پسند عوام کو اس روز سِول کرفو نافذ کرنے کا ناگزیر فیصلہ کیا ہے۔ مزاحمتی قیادت نے سنیچر کو سِول کرفیو نافذ کرنے کے لیے تاجر برادری، ٹرانسپورٹ سے وابستہ شعبے اور عام لوگوں کو بطور احتجاج اپنی کاروباری سرگرمیاں معطل کرے۔مزاحمتی قائدین نے عورت ذات کو نشانہ بنانے کی بھارت کے فوجی منصوبہ سازی کا حصہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ کپواڑہ، پہلگام ویگر واقعات چشم کُشا ہیں کہ اس گھناؤنے کام کے لئے تربیت یافتہ افراد کو استعمال کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کی چوٹیاں کاٹنے پر مقامی پولیس کی چشم پوشی اور انتظامیہ کی پر اسرار خاموشی کی وجہ سے ان غیر اخلاقی حرکات میں ملوث افراد جری بنتے جارہے ہیں، جسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کیا جاسکتا اور ایسے بے غیرت حملوں سے ہمارے اجتماعی صبر کا امتحان لیا جارہا ہے۔ مزاحمتی قیادت نے خواتین پر حملوں کے وقت گھر میں موجود مرد حضرات پر حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ حملے اب خطرناک صورتحال اختیار کرچکے ہیں اور اگر ان پر فوری طور روک نہیں لگائی گئی اس سے انسانی زندگیوں کے ضیاں پر بھی منتج ہوسکتا ہے۔ مزاحمتی قیادت نے واضح کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اپنے مطلوبہ فرد کو بغیر کسی دیر کے راتوں رات پکڑنے کا دعویٰ کرتی آتی ہے لیکن ناک کے نیچے صنف نازک پر ہورہے شرمناک واقعات سے چشم پوشی کو کیا ان کی نااہلیت یا ان کی مجرمانہ خاموشی تصور کی جائے گی؟مزاحمتی قیادت نے اپیل کی ہے کہ اگر کسی جگہ پر کسی مشکوک شخص کو لوگ پکڑ لیں گے تو اسے فوراً اپنے علاقہ کی مسجد کمیٹی یا ذمہ دار افراد کے حوالے کیا جائے، لیکن خود سے کسی کو کوئی سزا نہ دیں۔