دنیشور شرما کا منڈیٹ بجلی ٹرانسفارمر ٹھیک کرنا نہیں ؟ پارلیمانی نشست کاچنائو کیوں نہیں کرایا گیا؟
اب کریک ڈائون کو ’کیسو‘ کا نام دیا گیا، 3برسوں میں کون سا پروجیکٹ بنایا؟
جموں //نیشنل کانفرنس کے کارگزار صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے قانون ساز اسمبلی میںسرکار پر تیکھے وار کرتے ہوئے کہا کہ محبوبہ مفتی جنگجوئوں کی ہلاکت پر فخر نہ کریں بلکہ اس بات کا خلاصہ کریں کہ انکی حکومت میں اور کتنے برہان وانی پیدا ہوئے ہیں۔گورنر کے خطبہ پر بحث میں لیتے ہوئے عمر نے کہا کہ سرکار نے اگر کسی چیز کیلئے ریکارڈ قائم کئے ہیں تووہ غلط کام کے ریکارڈ ہیں ۔انہوں نے وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی سے مخاطب ہو کر کہا کہ’’ ہمیں کچھ بھی ایسا دکھائی نہیں دے رہا ہے جس کو لیکر آپ یہ دعویٰ کر سکیں کہ ان تین برسوں میں سرکار نے لوگوں کی فلاح وبہبود کیلئے کچھ کام کئے ہیں ۔
پارلیمنٹ انتخابات
انہوں نے کہا کہ سرکار کی جانب سے پہلی مرتبہ پارلیمنٹ کا الیکشن نہیں ہو پایا جبکہ الیکشن کیلئے تمام ایجنسیوں نے کہا تھا کہ کسی بھی طرح انتخابات ہونے چاہئیں لیکن سرکار سے الیکشن ہو نہیں سکے۔ انہوں نے کہا کہ 1996کے بعد یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ حریت کانفرنس اور اُن طاقتوں کے سامنے ہمیں سر جکانا پڑا جو یہ چاہتے تھے کہ یہاں انتخابات نہ ہوں اور جو ہمیشہ سے انتخابات کے خلاف رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ یہاں جب بھی انتخابات ہوئے ،اُن طاقتوں نے اُس میں خلل ڈالنے کی کوشش کی لیکن ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ حکومت نے ہاتھ اوپر کر دئے اور کہا کہ ہم یہاں انتخابات نہیں کرائیں گے اور ایسا ہی ہوا ۔انہوں نے وزیر اعلیٰ سے کہا کہ آپ کس طرح یہ کہتی ہیں کہ یہاں حالات بہتر ہیں ،آپ گورنر کے خطبے میں ٹورازم کی بات کراتی ہیں کون سا ٹورازم ،جب آپ الیکشن نہیں کرا سکیں، جب لوگوں کو ووٹ ڈالنے کا حق نہیں دلا سکیں، تو سیدھے سیدھے آپ قبول کرتی ہیں کہ یہاں حالات کافی خراب ہیں ،اگر آپ اپنی ؎ذمہ داری نبھا نہیں سکتی ہیں، تو فضول کی باتیں کیوں کی جاتی ہیں ۔ انہوں نے اس دوران بی جے پی ممبران سے مخاطب ہو کر کہا کہ اگر پارلیمنٹ کے انتخاب نہیں ہوئے تو اس گناہ میں آپ بھی برابر کے شریک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر الیکشن نہ کرانے غلطی کسی اور نے کی ہوتی تو آپ نے اُس کے پتلے پورے ملک میں جلا ئے ہوتے ۔انہوں نے کہا کہ یہ سرکار کی ناقابلت اور نااہلیت کا ثبوت ہے اور آپ اس پر خاموش ہیں ۔انہوں نے اپنے دور اقتدارکو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے 2014کے سیلاب کے دوران ریاست میں انتخابات کرائے اور ریاست آپ کے ہاتھوں میں سونپ دی ،لیکن اب حالات کیا ہیں ،وہ سب آپ کے سامنے ہیں ۔پنچایتی انتخابات کے حوالے سے عمر نے کہا کہ پنچایتی انتخابات بھی سرکار کرانا نہیں چاہتی لیکن یہ ان کی مجبوری ہے ’’پتہ نہیں آپ کر بھی پائو گے یا نہیں ،وہ آنے والے دنوں میں پتہ چلے گا ‘‘۔
ملی ٹنسی
عمر نے کہا یہاں دعویٰ اُن باتوں پر کئے جاتے ہیں جن پر افسوس ہونا چاہئے ۔انہوں نے کہا کہ سرکار کو اس بات کا فخر ہوتا ہے کہ ہم نے 2سو سے زیادہ ملی ٹنٹ مارے ہیں ’’یہ کوئی فخر کی بات ہے ،ملی ٹنٹ بنے اور تب ہی آپ مجبور ہوئے انہیں مارنے کیلئے، اور بنے بھی آپ کے دور اقتدارمیں، اگر پچھلے سالوں کے مقابلے میں اس سال زیادہ ملی ٹنٹ مرے، وہ اس لئے مرے کیونکہ زیادہ ملی ٹنٹ بنے ‘‘۔ انہوں نے ایوان کو بتایا کہ کل کی خبر ہے کہ علیٰ گڑھ کا ایک سکالر بھی حزب میں شمولت کر گیا ،’’یہ کر گیا نہیں کر گیا کن حالات میں گیا ،اس پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں، اب دیکھتے ہیں اس سے کیا ہوتا ہے‘‘۔ انہوں نے انتہائی جذباتی لہجے میں کہا’’ کشمیر نوجوان فدائین، یہ ہم کبھی سنتے نہیں تھے ،پہلے پاکستان ، افغانستان اور باقی جگہوں سے، اب کشمیر کے فدائین بھی مارے جا رہے ہیں‘‘ ۔انہوں نے کہا کہ ڈی جی دعویٰ کرتا ہے کہ بہت اچھا ہوا کہ ہم نے200سے زیادہ ملی ٹنٹ مارے ،پی ڈی پی ترجمان اعلیٰ کہتا ہے کہ اگر ہم نے اُن کی موت پر ہمدردی جتائی تو کوئی بری بات ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایک کو خوش کرنے کیلئے مارتے ہو اور دوسرے کو خوش کرنے کیلئے ہمدردی بھی جتلاتے ہو اور یہی آپ کی اصلیت ہے ،پہلے آپ لوگوں کو گن سے حملہ کرتے ہو پھر اُن کو روزگار کے آڈر تھما دیتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ہماری سیکورٹی فورسز کو آئی ای ڈی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ آج سرکار کریک ڈائو ن کرتی ہے لیکن اُس کو کریک ڈائو ن کا اس لئے نہیں بولتے کیونکہ لوگوں کو بُرا لگے گا آپ اُس کو’ سرچ ‘کہتے ہوئے’ کیسو‘ کہتے ہو ۔انہوں نے کہا کہ جس چیز کو لوگ بھول چکے تھے اُس کو پھر سے آپ نے زندہ کیا ۔انہوں نے سرکار سے کہا کہ جب آپ نے کرسی سنبھالی تب اور آج کے حالات کو دیکھیں اور پھر مشاہدہ کریں کہ تب حالات کیا تھے اور آج کیا ہیں، پھر آپ کو معلوم ہو گا آپ کہاں پہنچے ہیں ۔انہوں نے ایوان میں بیٹھے حزب اقتدار اراکین سے کہا کہ آپ نے ایک دن مجھ سے کہا تھا برہان وانی کو پیدا کرنے میں میرا رول ہے اگر آپ نے کہا تو ٹھیک ہے ،لیکن آپ نے کبھی یہ سوچھا کہ آپ نے اس ڈیڑھ برس میں کتنے برہان وانی پیدا کئے ۔مجھ پر اگر ایک کا الزام ہے تو پھر آپ پر کتنوں کا ہے اس کا احساس آپ کو ہونا چاہئے ۔
دینشور شرما
عمر نے کہا کہ پیس ،ہیلنگ ٹیچ ،گولی سے نہیں بولی سے ،یہ باتیں ہم نے سنی۔ وزیر اعظم صاحب نے جب لال قلہ سے 15اگست کو تقریر کرتے ہوئے کہا کہ کشمیریوں کو گالی نہیں ،گلے لگانے کی ضرورت ہے، ہم نے سوچا ایک نئی شروعات ہو گی ۔ہم انتظار کرتے گئے ،کچھ اچھا ہو گا ۔پھر ایک دن اچانک مرکز نے اعلان کیا اور بات چیت کیلئے نمائندہ دنیشور شرما کشمیر بھیجا۔ انہوں نے کہا پہلے تو ہم یہ سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ شرما کا اصل درجہ کیا ہے، ان کا نام جب آیا تو پھر کنفیوژن ہی کنفیوژن پیدا ہوئی ،آپ نے اُس کو مزاکراتکار کا درجہ دیا ، جب پی ایم او آفس میں منسٹر آف سٹیٹ سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ مزاکراتکار نہیں بلکہ نمائندہ ہیں ۔انہوں نے وزیر اعلیٰ سے کہا کہ آپ یہ واضح کریں کے اُن کا منڈیڈیٹ کیا ہے اس سے آپ کیا حاصل کر نا چاہتی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ دنیشور شرما کے متعلق ایم او ایس پی ایم آفس کہتے ہیں کہ آئین کے دائرے میں بات ہو گی،ایم او ایس ہوم کہتے ہیں کہ علیحدگی پسندوں سے بات چیت نہیں ہو گی، اپ کہتے ہیں کہ ہر کسی سے بات ہو گی اور وزیر داخلہ خود کہتے ہیں کہ دنیشور شرما لک ہیں وہ کسی سے بھی بات کرسکتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اب دنیشور شرما کون سی اپنی مرضی کے مالک ہیں وہ کیسے خود کہہ سکتے ہیں کہ میں سید علیٰ شاہ گیلانی سے بات کروں یا عمر فاروق سے یا پھر یاسین ملک سے بات کرو ں، اس کیلئے اجازت ہونی چاہئے ۔انہوں نے کہا کہ شرما کے منڈیڈیٹ میں صفائی ہونی چاہئے اور انہیں ہر ایک سے بات کرنے کی اجازت ہونی چاہئے ۔انہوں نے محبوبہ مفتی سے کہا کہ اگر شرما کو بھی اُن ہی لوگوں سے ملنا ہے جن سے آپ ملتی ہیں تو پھر بند کر دیجئے اس سلسلے کو ۔انہوں نے کہا کہ دنیشور شرما صاحب کا کام ٹرانسفارمر ٹھیک کرانا نہیں ہے اور نہ پانی فراہم کرنا ،اگر گورنر صاحب نے اپنے خطے میں اُن کا ذکر کیا ہے تو اُن کی ذمہ داری الگ ہونی چاہئے ان کا کام الگ ہونا چاہیے۔مہربانی کر کے دنیشور شرما سے کہیں کہ وہ اُن ہی لوگوں سے ملیں جن سے مسئلے حل ہو سکتے ہیں ۔
تعمیر ترقی
عمر عبداللہ نے کہا تین سال اس سرکار کو ہو گئے اور آج جو خطبہ میں گورنر کا دیکھتا ہوں اُس میں کچھ اُن چیزوں کا ذکر ہے جو انہیں وراثت میں ملی ہیں اور کچھ ہمارے اور آزاد حاصب کے دور کی ہیں ۔ انہوںنے کہا کہ خطبے میں5میڈیکل کالج کا ذکر ہوا وہ آزاد صاحب نے دئے ۔انفارمیشن کمیشن ہمارے دور میں بنا ، پبلک سروس گرنٹی ایکٹ ہمارے دور میں بنا ، ٹورازم کا ذکر ہوا وہ فاقہ کشی کے شکار ہو گئے ہیں ۔ عمر نے کہا کہ ہر نئی حکومت کو پرانی حکومت سے کچھ ایسی چیزیں وراثت میں ملتی ہیں جو پرانی حکومت نے بنائی ہوتی ہیں ۔عمر عبداللہ نے ریاستی سرکار سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ وہ بتائیں کہ ان تین برسوں میں انہوں نے ایسا کیا کام کیا ہے جو آنے والی سرکار کو وراثت میں ملے ۔انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر فاروق نے 1996کے بعد جو کام تعمیر وترقی کے کام کئے اُس کا فائدہ مفتی محمد سعید صاحب کو ملا اور جو کام مفتی محمد سعید نے کئے اُس کا فائدہ غلام نبی آزاد کو ملا ،غلام نبی آزاد صاحب نے جو کام کئے اُس کا فائدہ میں نے اٹھایا اور جو کام میں نے 2014تک کئے اس کے ربن آپ نے کاٹے ،لیکن میں آپ سے یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ نے ان تین برسوں میں ایسا کون سا کام کیا ہے جس سے آنے والی ریاستی سرکار اور وزیر اعلیٰ کو فائدہ ہو ۔انہوں نے کہا کہ ہمارے وزیر عظم مودی نے جس ٹنل کا افتتاح کیا وہ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے بنایا اور آپ کو وراثت میں ملا ، پاور پروجیکٹ میں نے تعمیر کرائے اور آپ کو وراثت میں ملے ۔ کڑہ ریلوے سٹیشن میرے دور میں بنا اور اس کا ربن وزیر اعظم نے کاٹا ۔انہوں نے کہا کہ میں آپ سے جاننا چاہتا ہو ں کہ آپ کے بعد جو حکومت بنے گی اُن کیلئے آپ وراثت میں کیا چھوڑ کر جا رہی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ میں نے سرکار میں بیٹھ کراپوزیشن کے ممبران کو طعنہ دیا تھا اور آج میں بھی اپوزیشن میں ہوں کیونکہ اُس کرسی پر بیٹھ کر ہر ایک کو گھمنڈ ہو جاتا ہے ۔
ٹریفک
عمر نے کہا کہ کہ سرکار ٹریفک کے حوالے سے بڑے بڑے دعویٰ کر رہی ہے لیکن جموں میں کوئی بھی ایسا پروجیکٹ نہیں بنا ان تین برسوں سے جس سے لگے کہ ٹریفک کنٹرول ہوا ہے، رہی بات سرینگر کی ،وہاں سب سے زیادہ رش ٹریفک کا ہوتا ہے لیکن وہاں گاڑیوں کیلئے پل ہی نہیں بلکہ پیدل چلنے والوں کیلئے پل تعمیر کئے گئے ہیں۔ ہم نے زیرو برج بنایا تھا تاکہ ٹریفک کو کنٹرول کیا جا سکے آپ کی سرکار نے اُس کو سیاحوں کی آمد ورفت کیلئے فٹ برج بنا دیا ۔کانونٹ کے سامنے آپ نے فٹ برج بنایا ،سنوار کے سامنے بھی آپ نے فٹ برج، اب بڑی مشکل سے عبداللہ برج ہی ہے جس سے ٹریفک چلتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم بھی بڑے مشکل دور سے گزرے، ہم نے آپ کو حالات ٹھیک کر کے دئے لیکن خامی آپ کی تھی کہ حالات بگڑ گئے کیونکہ آپ ہر بات کا الزام ہم پر عائد کرتی ہیں ۔انہوں نے نائب وزیر اعلیٰ سے مخاطب ہو کر کہا کہ ان سے جب پوچھا گیا کہ بجلی نہیں ہے تو انہوںنے کہا کہ 70سال کے بجلی نظام کو ٹھیک کرنا ہے، وقت لگے گا ،بھائی سرکار آپ چلا رہے ہیں، آپ کو سرکار میں تین سال ہو گئے ہیں، آپ نے کچھ نہیں کیا اگر آپ کو 70سال70سال کرنا تھا تو حکومت کیوں بنائی۔