ہارون ابن رشید
انسانیت کی فلاح و بہبود علم کے بغیر ممکن نہیں۔ زندگی کی سہولتیں علم کے بغیر ممکن نہیں تو ہمارا تصور علم بھی انہی مادی کامیابیوں کے حصول تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ آج ہم سائنس اور عصری علوم کے حصول کو ہی علم سمجھتے ہیں، اگر کوئی حق بات کو دیکھتے ہوئے بھی کوئی انکار کر دے تو جاہل نہیں ۔ شرابی ،زانی ،واری اور قاتل بھی جاہل نہیں اگر اس کے ہاتھ میں ڈگری موجود ہے۔اگر ہمارے ہاں جہالت ہے تو وہ مدارس دینیہ کے اندر موجود ہے۔ علم کے مقابلے میں جہالت کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ علم جاننے کو کہتے ہیں لہٰذا جہالت کا مطلب ہوا نہ جاننا ۔ عمومی طور پر جو شخص پڑھنا لکھنا نہ جانتا ہو یا جس نے مروجہ مروجہ طریقے کے مطابق سکول سے تعلیم حاصل نہ کی ہو،ا سے جاہل تصور کیا جاتا ہے لیکن اسلام نے ہمیں جہالت کا ایک واضح تصور دیا ہے۔ اسلام میں حق بات ماننے سے انکار کر دینا جہالت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک نے کئی مقامات پر کفار مکہ کو توحید کے واضح دلائل دینے کے بعد فرمایا کیا تم عقل نہیں رکھتے۔ کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتے۔ کیا تم غور و فکر سے کام نہیں لیتے ۔ اگر ہم قرآن کے دیے ہوئے اس تصور جہالت کو پیش نظر رکھیں گے تو بڑے دلچسپ حقائق ہمارے سامنے آئیں گے ۔ اس زمانے میں لوگ صرف یہ نہیں کہ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے ،بہت سے لوگ پڑھنا لکھنا جانتے تھے ان کے حافظے بھی بلا کے تھے زبان دانی پر انہیں فخر تھا ،شاعری اور خطابت کا ملکہ رکھتے تھے۔ کسی کا جو کلام پسند آجاتا اسے کعبہ کی دیوار کے ساتھ لٹکا دیتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود وہ جاہل تھے کیوں کہ ان میں جاہلانہ عادات پائی جاتی تھیں۔ وہ دنیا کی سب سے بڑی حقیقت یعنی توحید کا انکار کرتے تھے۔ شراب پیتے تھے، رقص و سرود کی محفلیں سجاتے تھے، جوا کھیلتے تھے، عورتوں پر ظلم کرتے تھے، غریبوں ،یتیموں اور مسکینوں کا حق مارتے تھے۔ قبائلی اور خاندانی تعصب ان میں موجود تھا۔ بدکاری کا دور دورہ تھا۔ اس طرح کی اور بہت سی بری عادات ان میں موجود تھیں جس وجہ سے ان کے زمانہ کو زمانہ جاہلیت سے تعبیر کیا گیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جہالت صرف ذہنی نہیں ہوتی بلکہ عملی بھی ہوتی ہے۔
جس شخص میں یہ بری عادات پائی جاتی ہے وہ جاہل ہی ہوگا۔ جو لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ دنیاوی تعلیم کے لیے تو ہم نے سکول بنائے ،کالج کھولے ،یونیورسٹیاں تعمیر کیں لیکن دینی تعلیم کا چونکہ کوئی بند و بست نہیں، لہٰذا اس کے لیے مدارس قائم ہوں جہاں قرآن و سنت پڑھائے جائیں۔ جن لوگوں نے مذہبی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ۔ جو لوگ بچے کے کان میں اذان دینے سے لے کر میت کو دفنانے تک ہمارے کام آتے ہیں۔ جن کے بغیر ہماری شادی نکاح نہیں بن سکتی جن کے بغیر ہم نماز جنازہ ادا نہیں کر سکتے، جن کے بغیر ہمیں قرآن پڑھانے والا کوئی نہیں ملتا، جن کے بغیر ہماری مسجدیں ایک دن نہیں چل سکتیں، جن کے بغیر ہمیں شرعی مسائل بتانے والا کوئی نہیں اور حقیقت تو یہ ہے کہ جن کے بغیر ہم خود ہاتھ اٹھا کر دعا بھی نہیں مانگ سکتے، ہم نے جہالت کا سارا ملبہ انہیں پہ پھینک دیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے ہم وہ علم حاصل کرنے کی کوشش کریں جو جہالت اور تعصب سے پاک ہو ۔ جس سے ہمارا معاشرہ کی تعمیر بہتر ہو سکے ۔