قیصر محمود عراقی
حصول علم وہ بنیادی فریضہ ہے جو کسی بھی انسان کے لئے لازم ہے۔ جامع علم سے بہرہ مند ہونے سےہی دینی اموراور دُنیاوی معاملات سے متعلق کسی بھی شخص کی کامرانیوں کا آغاز ہوجاتا ہے جبکہ اہم موضوعات کے حوالے سے لاعلمی کا شکار رہنا سخت نقصانات کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ علم انسان کو بہترین زندگی گذارنے کیلئے ایک مضبوط اور پائیدار بنیاد فراہم کرتا ہے، علم کی کوئی حد نہیں ہوتی ۔ اگر انسان کا جذبہ صادق ہے تو اسے علوم وفنون میں مہارت حاصل کرنے سے دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی بلکہ یہ کہنا بجا ہے کہ اگر حصول کی لگن سچی ہے تو آدمی راہ میں لگے درختوں اور فضائوں میں اُڑنے والے پر ندوں سے بھی علم حاصل کرسکتا ہے۔بشرطیکہ مستقل مزاجی سے آگے بڑھیں۔ علم انسان کو سمجھدار بناتا ہے لیکن مشاہدے اور تجربے سے ثابت ہے کہ بہت ممکن ہے ایک آدمی علم رکھتا ہو ، لیکن دانشمند نہ ہو ۔ دراصل یہ معاملہ زبان کے استعمال سے تعلق رکھتا ہے، کثرت کلام میں مبتلا رہنا ، لایعنی گفتگوکرنا اور غیر ضروری تبصروں میں وقت لگانا علم کے بڑے حصے اور اس کے اثرات کو ضائع کردیتا ہے اور انسان پختہ سمجھ بوجھ کا حامل نہیں بن پاتا۔ کسی بھی انسان کے رتبے کا اندازہ اس کی کثرت علم سے نہیں ہوتا بلکہ یہ دیکھنا چاہئے کہ وہ فتنہ انگیز باتوں سے کس طرح اپنا دامن بچاتا ہے۔ علم حاصل کرنے سے انسان کیلئے ذمہ داریوں کی ادائیگی کی راہ کھلتی ہے اور عمل کرنے سے اس کا مقام ومرتبہ بلند ہوتا ہے۔ حصول علم درحقیقت ایک کل وقتی اور ہمہ جہتی کام ہے ، سچا طالب علم سیکھنے کیلئے ہر وقت تیار رہتا ہے، کتاب وقلم کے ساتھ مضبوط تعلق اسے ہر دم متحرک رکھتا ہے ۔ حصول علم کی لگاتار کوششوں سے اس کے دل ودماغ علم کے نور سے منور رہتے ہیں، وہ جانتا ہے کہ گناہوں اور لغویات کو چھوڑ دینے اور خوف خداوندی کی راہ اپنا لینے سے علم کی بنیادیں انتہائی مستحکم ہوجاتی ہیں۔ جن لوگوں کو علم کی حقیقی لگن ہوتی ہے، وہ کبھی بوڑھے نہیں ہوتے اور روح کی تازگی وتوانائی انہیں ہمیشہ جوان رکھتی ہے، گو کہ پختہ عمر میں انسان کی دلچسپیاں اور سرگرمیاں مختلف طرز کی ہوتی ہیںاور اس کی ذمہ داریوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوجاتا ہے، لیکن اس کی ذہنی صلاحیتیں بچپن اور نوجوانی کے مقابلے میں بہت زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔ عام مشاہدہ ہے کہ بہت سے بزرگ حضرات کافی صلاحیت رکھتے ہیںاور ان کی یادداشت میں بھی کوئی فرق نہیں آتا ، صحت اچھی ہو اور دل ودماغ یکسو ہوں تو انسان مرتے دم تک حصول علم کا سلسلہ جاری رکھ سکتا ہے ۔ مطالعہ ، مشاہدہ اور تجربہ عام زندگی میں سیکھنے کے ذرائع ہیں ، لیکن جو لوگ مطالعے میں مہارت اور پختگی رکھتے ہیںوہی مشاہدے اور تجربے سے بہ آسانی درست نتائج اخذ کرپاتے ہیں۔ جو علم صرف اپنی ذات تک محدود رہے ،اس کے اثرات دیر پا نہیں ہوتے۔ علم حاصل کرنا ، اس پر عمل کرنا اور اس کی بھرپور اشاعت کرنا علم کو لازوال بنادیتا ہے۔ علم کا پانا اگرچہ بہت بڑا عمل ہے لیکن یہ منزل نہیں ہے، اس سے راستوں کی نشاندہی ضرورہوتی ہے۔ یقینا ًاچھی کتابوں کا مطالعہ دل کو زندہ رکھنے کیلئے کافی ہے، اکثراوقات خیالات کی جنگ میں کتابیں ہی ہتھیار ثابت ہوئی ہیں، اہل علم اور اہل ذوق کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا کسی بھی طالب علم کی زندگی کو علم کی لَو سے جگمگا دیتا ہے۔ عقل کی باتیں سیکھنے کیلئے سفید بالوں کاانتظار کرنے کے بجائے سفید بال والوں کی باتیں غور سےسُنی جائیں۔ ایک دانشمند کا قول ہے کہ کسی باعمل عالم کے ساتھ چند لمحوں کا تبادلہ خیال دس سال کے مطالعے سے بڑھ کر ہے۔ دولت سے انسان کی ضروریات پوری ہوتی ہیں جبکہ علم انسان کو دنیا کی ضرورت بنادیتا ہے، عمل کی بزرگی عبادت کی بزرگی سے بھی بڑھ کر ہے، کیونکہ عبادت انسان اپنے ذاتی اجر وثواب کی خاطر کرتا ہے جبکہ علم کی بدولت ساری انسانیت فیض یاب ہوتی ہے۔ علم کے بے حد وحساب پھیلے ہوئے اثرات گواہی دیتے ہیں کہ علم زندگی کی ایک مضبوط بنیاد ہے۔ علم انبیا کی میراث ہے، یہ کسی کی جاگیر نہیںہے۔ علم میں استحکام اور ذہانت کا عروج جدوجہد سے وابستہ ہے، کیونکہ ذہانت ایک ایسا انمول پودا ہے جو محنت کے بغیر نہیں پھلتا پھولتا ۔ علم قدرت کا قیمتی ترین انعام ہے جو قسمت والوں کو ملتا ہے، انسان جس چیز کو تلاش نہیں کرتا وہ چیز اسے نہیں مل پاتی ، علم کی بیش بہا دولت کا حاصل ہوجانا ادب اور احترام پر منحصر ہے۔ سچے طالب علم کیلئے علم سے متعلق ہر ایک بات انتہائی اہمیت کی حامل بن جاتی ہے۔ یہ قول ہمیں رہنمائی فراہم کرتا ہے کہ کتابوں کو زمیں پر نہ گرنے دیا کرو،کیونکہ کتابیں انسان کو آسمان تک لے جاتی ہیں ۔ یقینا ًاساتذہ کرام سے محبت رکھنا اور ان کی فرمانبرداری اختیار کرنا حصولِ علم کی قوی اساس ہے۔ کتاب وقلم سے نسبت رکھنے والے ہی علمی فضائل کے حقدار بن پاتے ہیں۔ انسان جس بڑے مقصد سے تعلق رکھتا ہے اس تعلق کے اثرات اس کی پوری زندگی پر محسوس کئے جاسکتے ہیں۔ سچا طالب علم کسی بھی موڑ پرعلم وادب اور تعلیم وتدریس سے بے نیاز نہیں ہوتااور اس کی غیر معمولی لگن ہی اس کی زبردست کامیابی کا اعلان ہوتی ہے۔ علم حاصل کرنا ایک اعتبار سے صبر آزما کام ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حصول علم کا جذبہ دراصل ایک مزاج ہے، علم کا پیار جس شخص کے دل میں موجزن ہوجائے ، وہ سیکھے بنا بے چین رہتا ہے اور اس کی طلب ہی اسے لذت فراہم کرتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ انسان کی صلاحیتیں ہمیشہ بڑھتی ہیں اور ترقی کا سفر ہمہ وقت جاری رہتا ہے۔ جاننے کیلئے کسی ایک ذریعے پر انحصار اور اکتفاکرنا مناسب نہیں ہے۔ دانا طالب علم تمام دستیاب اسباب ووسائل بروئے کار لاتے ہوئے تیز رفتاری کے ساتھ قدموں کو بتدریج بڑھاتا ہے اور یہی تسلسل روز افزوں اسے علمی مہارت کا اہل بنادیتا ہے۔
رابطہ۔6291697668