محمداشرف بن سلام
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی تخلیق فرمائی اور انکی ہدایت و راہنمائی کےلئے انبیاءو رسل علیہ الصلوة والسلام معبوث فرمائے جنہوں نے انسانیت کو اللہ وحدہ لاشریک کی بارگاہ میں سرنگوں کیا اور انکے ظاہر و باطن کی آلود گیوں سے پاک فرمایا ۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے خاتم النبینؐ ؐکو تمام انسانیت کےلئے رحمت بناکر معبوث فرمایا۔ انبیائے کرام ؑ ؑکے بعد صحابہ کرامؓ اور اولیا ئے کرامؒ نے خلق خدا کی رہنمائی کی اور انکی اصلاح نفس کے کام سرانجام دیتے رہے ۔ان حضرات محترم کا اللہ کی ذات پر مکمل بھروسہ تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بڑی سے بڑی طاقتیں ان کی زبان کو حق گوئی اور ان کی ذات کو حق کی حمایت سے نہ روک سکیں۔
تاریخ سے معلوم ہوتاہے صوفیائے کرام کا جوپہلا طبقہ وجود میں آیا ،اُس کے سرخیل حضرت حسن بصری ؓ ہیں جبکہ حضرت ابراہیم بن ادھم ؓاورحضرت فضیل بن عیاض ؓ خاص طور پر قابل ذکرہیں۔ اگرچہ یہ بزرگ زیادہ تر وقت یادالٰہی ، استغفاراور مخلوق خدا کا رشتہ ان کے خالق ومالک کے ساتھ جوڑنے میں صرف کرتے، پھر بھی جب موقعہ ملتاتو حاکم وقت کو انکی غلطیوں پر ٹوکتے تھے۔پھر دوسرا طبقہ حضرت بایزید بسطامیؒ، حضرت جنیدبغدادیؒ اور حضرت شیخ فریدالدین عطار ؒ کا ہے۔ اس طرح دسویں صدی عیسوی میں تصوف نے باقاعدہ ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی ۔ گیارہویں صدی عیسوی میں حضرت داتاگنج بخشؒ اور دیگر صوفیاءنے تصوف کو موضوع بناکر گراں قدر کتابیں تصانیف کیں ۔ حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی ؒ نے بعد میں رشدوہدایت کا سلسلہ جاری رکھ کرعلمِ تصوف میں بے مثل اضافہ کیا ۔صوفیاءکرام دین کی خدمت میں ہمہ تن مصروف رہے اور یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔ برصغیر میں بھی ان گنت صوفیائے کرام ،علماءدین ،مقبول اور ہردلعزیز مفکرِ اسلام پیدا ہوئے۔
وادیٔ کشمیر میں حضرت امیر کبیر میر سید علی ہمدانی ؒ تشریف لائے، تواُنہوںنے اللہ کی وحدانیت اور کلمتہ الحق کے لئے کشمیر میں ایسے ثمر دار اشجار اور شیرین باغ لگائے، جن کی مہک اور مٹھاس سے یہاں لوگ ہمیشہ مستفید ہوتے رہیں گے۔وادی کشمیر بھی عرصہ دراز سے اولیا ئے کرام ، صوفیوں اور صاحبِ دلوں کا مسکن رہا ہے۔ ان صوفیائے کرام میں حضرت میر سیدشاہ قاسم حقانی ؒ کا نام بھی شامل ہے، جنہوں نے راہِ حق سے بھٹکے ہوئے لوگوں کو حق کی شناخت کرائی اور ربِ حقیقی کی بارگاہ میں جھکایا اور کشمیر میں رہنے واے لوگوں پر اپنے گہرے اثرات چھوڑے۔ یہی اللہ رب العزت کے نیک و صالح بندے ہوتے ہیں جن کا ایمان کمال انتہا کو پہنچا ہوتاہے۔یہ اصحاب عشق رسولؐ پر کھرے اُترتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے ایمان کو مضبوط اور صاف وشفاف رکھتاہے اور ان کی روحانی طاقت و توانائی میں اضافہ فرماتاہے اور انہیں اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے۔
حضرت شاہِ قاسم حقانی ؒاپنے زمانے کے شیخ الاسلام تھے اور ان کے ہاں شہر کے لوگوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ ان کے نور سے زمانہ منور تھا۔ ا س زمانے میں کفر اوراندھیرا ختم ہوگیا۔ حضرت شاہ قاسم حقانی ؒ کے جدا مجد حضرت میر شمس الدین شامیؒ کے متعلق پیر حسن کھویہامی ؒؒ تاریخ حسن میں رقم طراز ہیں کہ شاہ حقانی میر شمس الدین شامی ؒ کی اولاد میں سے تھے جو حضرت امیر کبیر میر سید ہمدانی ؒ کے ساتھ کشمیر آکر یہاں ہی سکونت پذیر ہوگئے ،شاہ صاحب ؒ کو کچھ لوگ مُلاقاسم اور کچھ لوگ حاجی قاسم کہتے تھے۔ علم وہنر دونوں میں عجیب مہارت رکھتے تھے ۔‘‘
حضرت شاہ قاسم حقانی ؒ کے زمانے میں میر محمد خلیفہ ؒ سماع اور وجد میں سرمست رہتے تھے۔ شاہ صاحب ؒ ان سے اس بارے میں پوچھ تاچھ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے اور کہتے تھے کہ اُن کے ہرمرید کو ایک ایک سو دُرے ماروں گا۔ انہی ایام میں حضرت شیخ یعقوب صرفی ؒ اکبر آباد میں تھے ۔ خلیفہ کو وہاں ہی سے لکھا کہ ملا قاسم ؒ آپ سے باز پرسی کا ارادہ رکھتے ہیں۔انشاءاللہ قید میں ایسا پھنس جائے گا کہ دوسروں کو عبرت ہوگی۔ایک دن میر محمد خلیفہؒ نے محفل سماع منعقد کی ،ملاقاسم ؒ غصے میں مجلس میں گئے۔جونہی خلیفہ کے چہرے پر نظر پڑی توخلیفہ نے شیخ یوسف شوقی کو اشارہ کیا،اس نے شعر ترنم کے ساتھ پڑھنا شروع کیا: ’’ خنجر کشیدہ برسر قتلم شتاب چیست۔ خود کشتہ میشو یم وترا اضطراب چیست‘‘ یعنی میرے قتل کےلئے خنجر نکالنے میں جلدی کرنے کی کیا ضرورت ہے ہم خود ہی قتل ہوجائیں گے ،تجھے کس بات کی بے چینی ہے؟ پھر شیخ یوسف نے یہ بیت پڑھنی شروع کی: اے گرفتار وصالش تابہ کے گردی بروں۔ اندر آتا گویمت اسرار راز دروں۔ یعنی اس کا وصل چاہنے والے کب تک باہر پھرتے رہیںگے ۔اندر چلے آؤ تاکہ تمہیں چھپے ہوئے بھیدوں سے واقف کردیا جائے۔
حضرت شاہ قاسم حقانی ؒ ان عظیم المرتب بزرگوں میںسے تھے۔ جنہوں نے اپنی پوری زندگی راہ حق میں صَرف کی۔آپؒ عظیم صوفی بزرگ اور روحانی شخصیت کے مالک تھے۔ ساری زندگی مخلوق ِخدا کی خدمت میں گذاری اور انہیں صرا ط مستقیم پر گامزن کر تے رہے ۔ وہ علم و عمل کے پیکر اور سچے عاشق رسولؐتھے۔ حضرت جنید بغدادی ؒ کا بڑے واضح الفاظ میں اعلان ہے کہ اس راہ کو وہی پاسکتا ہے جو کتاب اللہ کو داہنے ہاتھ میں اور سنت رسولؐ کو بائیں ہاتھ میں لئے ہوئے ہو،اور ان دونوں چراغوں کی روشنی میں راہِ سلوک طے کرے تاکہ گمراہی اور بدعت کی تاریکی میں نہ گرے۔ یہ وہ علم ہے جس کے ذریعہ سے نفس کے تزکیہ ،اخلاق کی صفائی اور باطن وظاہر کی تعمیر (کے اسباب وطرائق) کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔نیز اس سے نفس کی اصلاح ،معرفت ورضائے خداوندی کاحصول ہوتاہے۔اس تعریف سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ تصوف ایک مقدس علم ہے جوسالک کووصول الی اللہ جیسی عظیم نعمت سے نوازتاہے۔اس علم کے بنیادی اصول توقرآن وسنت سے مستنبط ہیں۔
حضرت شاہ قاسم حقانیؒ قلندرانہ طرزِ حیات اور عارفانہ اندازِ فکر کی شہرت دوردور تک پھیل گئی تھی ، اُس دور کے بڑے بڑے علماو فقراءآپؒ کی زیارت کےلئے آتے تھے ۔آپؒکی دعا کی تاثیرکا چرچا ہرطرف پھیل گیا ،ہر وقت ایک حجمِ غفیر آپ ؒسے دعائیں لینے کےلئے موجود ہوتاتھا ۔حضرت شاہ قاسم حقانی ؒ ایسے باکمال بزرگ تھے جنکی بات بات میں علم و فرقان کی حلاوت تھی ،جنکی ہر حرکت میں تعبد کی شان جلوہ گر تھی، جنکے ہر عمل میں عزیمت اور حسن کاری کا بانکپن نمایاں تھا ۔الغرض اس مردِ قلندر کی حیات طیبہ ایمان و ایقان ، علم و عرفان ، مجاہدات و مراقبات عشق و مستی اور خلوص و وفا کا ایسا حسین و جمیل مرقع تھی کہ دل بے اختیار مائل ہوتا، احترام و عقیدت کے جذبات خود بہ خود ابھرتے اور انکی عظمت کے نقوش گہرے سے گہرے ہوتے چلے جاتے ۔گویا آپؒ ؒانسانیت ، تصوف اور کردار وعمل کے وہ عظیم المرتب ہستی تھی،جو تقریباً چار سو برس گذرنے کے بعد بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے ۔حضرت شاہ قاسم حقانی ؒ کے وصال کے واقعات ا ن کے مراتب کے غماز ہیں ۔اگر شب وصال اپنے خلفاءسے ا ن کے آخری خطاب (تفصیل کےلئے لطایف الحقانی یا بزم حقانی ) کو دیکھا جائے تو ایک طرف ان میں وصائح ونصائح ہیں تو دوسری جانب انوار و تحبلیات کی باراں سے ایسا سماں بندھ گیا کہ حاضرین کے بقول’’حجاب غائب ہوگئے‘‘ بعد از وصال مرقد مبارک سے عین فرمود کے مطابق آیت (نشانی) کے طور پر نر سل ایسا ا ُگا کہ وہ مقام ہی حضرت شاہؒ کے ساتھ نسبت کے طورپر ’’نرپیر آستان‘‘ اور پھر’’ نرپرستان‘‘ معروف و مشہور ہوگیا۔
آسمان تصوف کے درخشدہ آفتاب ،اسلام کے جان نثار مبلغ اور اعلیٰ رتبے کے رہنما،شریعت ، طریقت ومعرفت کے رہبر حضرت شاہ قاسم حقانی ؒ29 ماہ رجب مطابق 1551ءکو تولد ہوئے اور 29ربیع الثانی 1033 ہجری کشمیری 29پھاگن ،میں اپنے مالک حقیقی سے جاملے ۔ آپؒ نرپرستان فتح کدل سری نگر میں مدفون ہیں۔ جہاں ان کا آستانہ عالیہ موجود ہے ،جو آج تک اپنے زندہ جاوید کردار سے راہ حق کی سمت رہبری کرتا رہا ہے اور آئند بھی کرتا رہے گا۔انشاءاللہ۔
حضرت شاہ قاسم حقانی رحمتہ اللہ علیہ یو م وصال ہر برس 29پھاگن کو منایا جاتا ہے۔اس برس آپ ؒ کا عرس مبارک 29 پھاگن یعنی 20 فروری کو 2023 کو ہےاور اس دن شام کو خاندان حقانی پرواقع سوبگ بڈگام میںتقریب انجام دی جاتی ہے۔
حضرت علمدار کشمیرؒ کے اشعار پر اختتام کرتا ہوں۔ ترجمہ : نیک لوگوں کی صحبت اختیارکر لے، اور اُن سے محبت رکھ لے۔یہ وہی لوگ ہیں جو ہر وقت قبلہ روہوتے ہیں ،یعنی ہرقدم خدائے کعبہ کے حکم کے تحت اُٹھاتے ہیں ۔ نیک لوگوں کی صحبت دِل کو نورانی اور بُروں کی صحبت دِل کو سیاہ بناتی ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں توحید و سنت رسول رحمتؐ کےساتھ ساتھ صالحین واولیاءکاملین کی اتباع کی توفیق عنایت فرمائے۔آمین
( رابطہ۔ 9419500008)
[email protected]>