نداسکینہ صدیقی
چین میں واقع ہاربن انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے پروفیسر چیان زینگ اور ان کے ساتھیوں نے کلائی پر باندھنے والی پٹی ایجاد کی ہے جو جسمانی حرارت سے ایک ایل ای ڈی روشن کرسکتی ہے ۔یہ کلائی پٹی تھرمو الیکٹرک جنریٹر(ٹی ای جی) اصول کے تحت کام کرتے ہوئے بجلی بناتی ہے۔ مستقبل میں یہی ٹیکنالوجی اسمارٹ واچ اور پہنے جانے والے ہلکے پھلکے آلات کو بجلی فراہم کرے گی اوراس طرح بیٹریوں کی ضرورت ختم ہوسکتی ہے۔ماہرین نے میگنیشیئم اور بسمتھ سے تیار اس پٹی کو پولی یوریتھین سے بنایا ہے اور تمام الیکٹروڈ لچک دار بنائے ہیں۔ اس طرح یہ پوری پٹی نرم اور لچک دار ہے اور انسانی کلائی پر گھما کر پہنی جاسکتی ہے۔یہ دو مقامات پر درجۂ حرارت میں تبدیلی سے برقی رو پیدا کرتی ہے، یہ پٹی بہترین حالت میں بجلی فی مربع سینٹی میٹر 20 مائیکرو واٹ بجلی تیار کرتی ہے۔جو ایک ایل ای ڈی روشن کرنے کے لیے کافی ہے۔
شکر کے دانے جتنا ’’مائیکروفلائر‘‘ ڈرون :
امریکا کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے انجینئروں نے دنیا کا سب سے مختصر ڈرون ایجاد کر چکا ہے جو شکر کے دانے جتنا چھوٹا ہے اور ہوا کے زور سے اُڑایا جا سکتاہے۔’’مائیکروفلائر‘‘ نامی اس ڈرون کی جسامت ایک ملی میٹر سے بھی کم ہے جب کہ اس کی تین پنکھڑیاں اسے اُڑنے میں مدد دیتی ہیں۔ اس کے درمیانی حصے میں مائیکروچپ سمیت وہ تمام آلات ہیں جو اسے توانائی ذخیرہ کرنے، ارد گرد ماحول کے بارے میں جاننے میں مدد دیتے ہیں۔ اس مائیکروفلائر ڈرون کی ننھی منی پنکھڑیاں گھمانے کےلیے کوئی موٹر نصب نہیں کی گئی ہے بلکہ یہ ہوا کے دوش پر دُور دُور تک بکھر جانے والے بیجوں کی طرح ہوا میں اُڑتا ہے۔یہ ٹیکنالوجی عام استعمال کے آلات سے لے کر طبّی تشخیص اور ماحول پر نظر رکھنے تک، متعدد مقاصد میں ہمارے کام آرہی ہے۔
فائیو جی نظام سے بجلی بنانے والے کارڈ :
جار جیا ٹک کے ماہرین نے ایک ایسا کارڈ تیار کیا ہے جو فائیو جی کی مدد سے بجلی تیار کر تاہے ۔یہ فائیو جی ٹاور سے خارج ہونے والی شعاع سے براہ راست بجلی بنا سکتا ہے ۔ یہ کارڈ فائیو جی ٹاور سے 180 میٹر یا 600 فٹ کی دوری پر 6 مائیکروواٹ بجلی کھینچ لیتا ہے۔ یہ دنیا کا پہلا تھری ڈی، کارڈ نما ریکٹیفائنگ اینٹینا ہے جو فائیوجی ٹاور سے بجلی کشید کرسکتا ہے۔ نظری طور پر وائرلیس مواصلاتی نظاموں میں بہت توانائی پیدا ہوتی ہے ۔
لیکن زیادہ توانائی کے لیے بڑی جسامت والے ریکٹیفائنگ اینٹینا درکار ہوتے ہیں، پھر اینٹیاؤں کا رخ بھی اس جانب کرنا ہوتا ہے جہاں سے ریڈی ایشن پھوٹ رہی ہوتی ہیں،تاہم اس ایجاد سے کروڑوں اسمارٹ فون اور چھوٹے آلات میں بیٹریاں نکال کر انہیں اسمارٹ سٹی یا اسمارٹ زراعت میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔
پانی پر اُڑنے والی کشتی :
تین ممالک کے ماہرین نے مشتر کہ طور پر ایک ایسی جدید بادبانی کشتی ڈیزائن کی ہے جو پانی پر تقریباً اُڑتے ہوئے ،تیز رفتاری سے آگے بڑھ سکتی ہے ۔اس کشتی کو ’’پرسیکو ایف 70 ہائپربوٹ‘‘ کا نام دیا گیا ہے، پرسیکو میرین، کارکیک ڈیزائن پارٹنرز اور پینن فارینا ناٹیکا کے اشتراک سے ڈیزائن کی گئی ہے ،جس کی لمبائی 70 فٹ ہے۔یہ تفریحی مقاصد کے علاوہ بادبانی کشتیوں کی ریس میں بھی استعمال ہوسکے گی۔ اس پر لمبے بادبان نصب ہیں جنہیں ضرورت پڑنے پر کھولا اور بند کیا جاسکتا ہے۔ بادبان (فوائلز) کھولے جانے پر یہ صرف 10 ناٹ (18.5 کلومیٹر فی گھنٹہ) کی رفتار سے چلنے والی ہوا پر ’’فل فلائٹ موڈ‘‘ میں آجائے گی۔ اس موڈ میں ’’ہائپربوٹ‘‘ کا بہت معمولی حصہ پانی کو چھو رہا ہوگا، یعنی یہ پانی پر اُڑتی ہوئی محسوس ہوگی۔
بجلی بنانے والا سب سے چھوٹا ٹربائن :
چند سال قبل سائنس دانوں نے بجلی کے بحران کو کم کرنے کے لیے دنیا کا سب سے چھوٹا ہوائی ٹربائن تیار کیا ہے ،جس کا وزن صرف تین پونڈ ہے اور وہ 8 سے 28 میل فی گھنٹے ہوا سے گھوم کر بجلی تیار کرسکتا ہے۔اسے بیگ میں رکھنے اور کھول کر تیار کرنے میں دو سے تین منٹ لگتے ہیں۔ اس ونڈ ٹربائن کو’’شائن‘‘ کا نام دیا گیا ہے اور اسے ماحول دوست اور مؤثر ہوائی چارجر بھی کہا جاسکتا ہے۔اگر آپ پہاڑوں پر جارہے ہیں، سمندر کنارے ہیں یا کسی میدان میں ہیں، شائن معمولی تیز ہوا سے بھی بجلی بناسکتا ہے جو آپ کی ضروریات کے لیے کافی ہوتی ہے۔ مجموعی طور پر یہ 40 واٹ کا ٹربائن ہے اور اس میں 12000 ایم اے ایچ کی مضبوط بیٹری نصب ہے جو اسمارٹ فون، کیمروں، روشنیوں اور دیگر چھوٹے آلات کو چلاسکتی ہے۔ اس کی خا ص بات یہ ہےکہ اس سے کوئی شور نہیں ہوتا اور صرف 50 ڈیسی بیل آواز پیدا ہوتی ہے۔ اگر کسی جگہ درجہ ٔحرارت 40 درجے سینٹی گریڈ ہو تب بھی اس کا برقی نظام اور ڈیزائن قائم رہتا ہے۔
ایجادات کی دنیا میں چھانے والے روبوٹس:
جاپانی کمپنی کاواسا نے کورونا کا ٹیسٹ کرنے والا روبوٹ تیار کیا ہے جو مریض کی ناک اور حلق سے نمونے لیتا ہےاور 80منٹ میں نتیجہ بتا دیتا ہے۔ یہ سسٹم 16 گھنٹوں میں 2 ہزار نمونوں کی پراسیسنگ کر سکتا ہے۔ان روبوٹس کی خاص بات یہ ہے کہ انہیں ٹرکوں پر لاد کر کھیل کے میدانوں، تھیم پارکوں اور دوسرے عوامی مقامات پر پہنچایا جا سکتا ہے جہاں کم وقت میں بڑی تعداد میں کورونا ٹیسٹ کرنا ممکن ہوگا۔
کھیت سے فالتو پودے تلف کرنے والا روبوٹ :
کاربن روبوٹکس نامی کمپنی نے ایک ایسا روبوٹ تیار کیا ہے جو قیمتی فصلوں پر اُگنے والی خود روجھاڑیاں کو ایک گھنٹے میں اکھا ڑ پھینکتا ہے۔ یہ جھاڑیاں فصلوں کے لیے نقصان دہ ہوتی ہیں ۔یہ روبوٹ بلند معیاری کمپیوٹر وژن اور طاقتور لیزر کی مدد سے فصلوں کا بغور جائزہ لیتے ہوئے ایک گھنٹے میں ہزاروں سے ایک لاکھ تک جھاڑیاں صاف کرسکتا ہے جو ایک مؤثر ویڈ کنٹرول فراہم کرتا ہے۔چار پہیوں والا یہ روبوٹس جی پی ایس، کمپیوٹر وژن اور لیزر کی مدد سے کام کرتا ہے۔ اس میں اعلیٰ معیار کے کیمرے لگے ہیں اور کلاؤڈ سپر کمپیوٹر کی مدد سے تصاویر میں سے مضر بوٹیوں کو پہچانا جاتا ہے۔یہ روبوٹ 24 گھنٹے ڈیزل پر کام کرسکتا ہے اور ایک دن میں 15 سے 20 ایکڑ زمین صاف کرسکتا ہے۔
ریتیلی مٹی کے نیچے سفر کرنے والا روبوٹ:
یونیو رسٹی آف کیلی فورنیا اور جارجیا ٹیک نے مشتر کہ طور پر ایک روبوٹ تیار کیا جو خشکی ،سمندر اور ہوا میں غیر معمولی خدمات انجام دیتا ہے ۔اس کے اگلے سرے سے اسےآگے بڑھانے والا مٹیریل باہر نکلتا رہتا ہے۔ اس کے بعد مٹی میں غوطہ لگانے کے لیے وہ اپنے منہ سے ہوا کی بوچھاڑ خارج کرکے مٹی کو ہٹاتا ہے اور اپنا راستہ بناتے ہوئے آگے بڑھتا رہتا ہے، یہ نیا روبوٹ مٹی میں گھسنے کی غیرمعمولی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کی نوک پر ایک نوزل ہے ،جس سے زوردار ہوا خارج ہوتی رہتی ہے اور مٹی کے ہٹاؤ سے راستہ بنتا رہتا ہے۔ یہ روبوٹ بالکل عمودی انداز میں کسی ڈرل مشین کی طرح ریت میں داخل ہوسکتا ہے۔ لیکن ریت کے اندر مکمل چھپ جانے کے بعد بھی وہ ہوا پھینکتا رہتا ہے ،جس سے ریت کی رگڑ کم ہوتی جاتی ہے۔