Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
تعلیم و ثقافت

علم اور اخلاق کا امتزاج ہی مکمل تعلیم ہے فکر و فہم

Towseef
Last updated: March 17, 2025 11:50 pm
Towseef
Share
7 Min Read
SHARE

ڈاکٹر ریاض احمد

ارسطو کا یہ قول کہ ’’دماغ کو تعلیم دینا لیکن دل کو تعلیم نہ دینا، درحقیقت کوئی تعلیم نہیں‘‘جامع اور ہمہ جہت تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ تعلیم کو صرف علمی ترقی تک محدود نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اسے کردار، اخلاقیات اور جذباتی فہم و فراست کو بھی فروغ دینا چاہیے۔ اگر اخلاقی اور جذباتی نشوونما نہ ہو تو محض علم خطرناک یا غیر مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔

محض علمی تعلیم کی حدود: 
جدید تعلیمی نظام عام طور پر تکنیکی علم، تجزیاتی مہارتوں اور ذہنی صلاحیتوں پر زور دیتے ہیں۔ طلبہ کو پیچیدہ مساوات حل کرنا، تاریخی واقعات کا تجزیہ کرنا اور سائنسی نظریات پر عبور حاصل کرنا سکھایا جاتا ہے۔ لیکن اگر تعلیم صرف ذہنی ترقی تک محدود رہے تو یہ ایسے افراد پیدا کر سکتی ہے جو علمی طور پر تو ذہین ہوں لیکن ہمدردی، اخلاقیات یا سماجی ذمہ داری سے عاری ہوں۔ ایک ذہین مگر بے اصول شخص استحصال، بددیانتی اور غیر اخلاقی رویے کا باعث بن سکتا ہے۔مثال کے طور پر، تاریخ میں ایڈولف ہٹلر اور جوزف اسٹالن جیسے رہنما انتہائی ذہین اور حکمت عملی کے ماہر تھے، لیکن ان کی اخلاقی بنیاد کمزور تھی، جس کی وجہ سے بے پناہ تباہی پھیلی۔ اس کے برعکس مہاتما گاندھی اور نیلسن منڈیلا نے علم کے ساتھ ساتھ ہمدردی اور انصاف کو بھی اپنایا اور اپنی ذہانت کو امن اور عدل کے فروغ کے لیے استعمال کیا۔
البرٹ آئن سٹائن نے کہا تھا،’’ذہنی نشوونما پیدائش سے شروع ہونی چاہیے اور موت تک جاری رہنی چاہیے، لیکن حکمت صرف اسکولنگ کا نتیجہ نہیں بلکہ زندگی بھر کے تجربات سے حاصل ہوتی ہے۔‘‘ یہ ظاہر کرتا ہے کہ حقیقی تعلیم صرف معلومات حاصل کرنے کا نام نہیں بلکہ اخلاقی بصیرت اور دانشمندی کا فروغ بھی ضروری ہے۔

جذباتی اور اخلاقی تعلیم کا کردار :
دل کی تعلیم کا مطلب ہمدردی، نیکی، دیانتداری اور جذباتی مضبوطی کو فروغ دینا ہے۔ یہ خصوصیات افراد کو بامعنی تعلقات بنانے، معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے اور زندگی کے چیلنجز کو سمجھداری سے نمٹنے میں مدد دیتی ہیں۔ جذباتی ذہانت، یعنی جذبات کو سمجھنے اور قابو میں رکھنے کی صلاحیت، علمی مہارت کی طرح ہی اہم ہے۔

مثال کے طور پر، دو مینیجرز کو لیجیے ،جن کے پاس برابر کی فنی مہارت ہے۔ ایک اپنے ملازمین کی فلاح و بہبود سے بے پرواہ ہے، جس کی وجہ سے کام کی جگہ کا ماحول زہر آلود ہو جاتا ہے۔ دوسرا مینیجر قابلیت کے ساتھ ہمدردی بھی رکھتا ہے، جس سے ملازمین کی حوصلہ افزائی اور باہمی تعاون بڑھتا ہے۔ دوسرا انداز دیرپا کامیابی کی ضمانت دیتا ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ قیادت میں جذباتی ذہانت کتنی ضروری ہے۔

دلائی لامہ اس بارے میں کہتے ہیں،’’جب ہم اپنے نوجوانوں کے ذہنوں کو تعلیم دے رہے ہوں تو ہمیں ان کے دلوں کی تعلیم کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ یہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ جذباتی ذہانت افراد اور معاشرے کی بہتری کے لیے کتنی اہم ہے۔
اسکولوں کو چاہیے کہ وہ اپنے نصاب میں ہمدردی، اخلاقی فیصلے، اور جذباتی فلاح و بہبود کے اسباق شامل کریں تاکہ طلبہ ہمہ جہت شخصیت کے حامل بن سکیں۔ سماجی اور جذباتی سیکھنے (SEL) جیسے پروگرام طلبہ کو اپنے جذبات کو قابو میں رکھنے، تنازعات کو حل کرنے اور ہمدردی کا مظاہرہ کرنے کی تعلیم دیتے ہیں، جو تعلیمی کارکردگی اور ذاتی نشوونما میں بہتری کا باعث بنتے ہیں۔

تعلیم کا حقیقی مقصد:
حقیقی تعلیم کا مقصد افراد کو معاشرے کے لیے مثبت کردار ادا کرنے کے لیے تیار کرنا ہے۔ تعلیم کو صرف سوچنے کے طریقے سکھانے تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس میں ایمانداری سے عمل کرنے کی بھی تربیت دی جانی چاہیے۔ ایک تعلیم یافتہ شخص وہ نہیں جو صرف تعلیمی میدان میں کامیاب ہو، بلکہ وہ ہے جو دانشمندی، ہمدردی اور دوسروں کے لیے احساس ذمہ داری رکھتا ہو۔ اگر علمی اور اخلاقی تعلیم کو یکجا کیا جائے تو ہم ایسے افراد تیار کر سکتے ہیں جو اپنے علم کو معاشرے کی بہتری کے لیے استعمال کریں۔مثال کے طور پر وہ ڈاکٹرز جو طبی مہارت کے ساتھ ساتھ ہمدردی بھی رکھتے ہیں، وہ مریضوں کو بہتر علاج فراہم کرتے ہیں۔ ایک ایسا معالج جو صرف تشخیص کرے اور دوائیں تجویز کرے لیکن مریض کی جذباتی کیفیت کو نظر انداز کرے، وہ علاج کے ایک اہم پہلو کو نظرانداز کر رہا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ایک ڈاکٹر جو مریض کی بات توجہ سے سنتا ہے، ہمدردی کا مظاہرہ کرتا ہے اور حوصلہ دیتا ہے، وہ نہ صرف علاج کے نتائج کو بہتر بناتا ہے بلکہ مریضوں کے اعتماد کو بھی جیت لیتا ہے۔

مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے کہا تھا، ’’ذہانت کے ساتھ کردار کا ہونا ہی حقیقی تعلیم کا مقصد ہے۔‘‘ یہ بیان اس بات کو اُجاگر کرتا ہے کہ ایک منصفانہ معاشرے کے لیے علمی ترقی اور اخلاقی نشوونما دونوں ضروری ہیں۔

نتیجہ :ارسطو کے الفاظ آج بھی نہایت اہمیت رکھتے ہیں۔ ایک حقیقی تعلیم یافتہ فرد محض معلومات کا ذخیرہ رکھنے والا نہیں، بلکہ ایک باکردار انسان بھی ہوتا ہے۔ اسکولوں، والدین اور معاشرے کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ذہن اور دل دونوں کی نشوونما ضروری ہے تاکہ تعلیم اپنے حقیقی مقصد کو حاصل کر سکے۔یعنی صرف ذہین افراد پیدا کرنا نہیں، بلکہ اچھے انسان پیدا کرنا۔ اگر ہم علمی اور جذباتی دونوں پہلوؤں کو پروان چڑھائیں تو ہم ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں جہاں علم انسانیت کی خدمت کے لیے استعمال ہو، نہ کہ محض ذاتی مفادات کے لیے۔
[email protected]

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
پولیس نے اندھے قتل کا معاملہ24 گھنٹوں میں حل کرلیا | شوہر نے بیوی کے ناجائز تعلقات کا بدلہ لینے کیلئے مل کر قتل کیا
خطہ چناب
کشتواڑ کے جنگلات میں تیسرے روز بھی ملی ٹینٹ مخالف آپریشن جاری ڈرون اور سونگھنے والے کتوں کی مدد سے محاصرے کو مزید مضبوط کیا گیا : پولیس
خطہ چناب
کتاب۔’’فضلائے جموں و کشمیر کی تصنیفی خدمات‘‘ تبصرہ
کالم
ڈاکٹر شادؔاب ذکی کی ’’ثنائے ربّ کریم‘‘ تبصرہ
کالم

Related

تعلیم و ثقافتکالم

! سادگی برائے تازگی میری بات

June 23, 2025
تعلیم و ثقافتکالم

کیا ہم وقت کی قدر کرتے ہیں؟ | وقت کی قدر زندگی کی قدر ہے غور طلب

June 23, 2025
تعلیم و ثقافتکالم

ہر زمانے میں پنپنے کے اندازسیکھو! | دورِ حاضر سائنس اور ٹیکنالوجی کا ہے نقطۂ نظر

June 23, 2025
تعلیم و ثقافتکالم

گرمیوں کی تعطیلات کا مثبت استعمال فکر وفہم

June 23, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?