ڈاکٹر ریاض احمد
ارسطو کا یہ قول کہ ’’دماغ کو تعلیم دینا لیکن دل کو تعلیم نہ دینا، درحقیقت کوئی تعلیم نہیں‘‘جامع اور ہمہ جہت تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ تعلیم کو صرف علمی ترقی تک محدود نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اسے کردار، اخلاقیات اور جذباتی فہم و فراست کو بھی فروغ دینا چاہیے۔ اگر اخلاقی اور جذباتی نشوونما نہ ہو تو محض علم خطرناک یا غیر مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔
محض علمی تعلیم کی حدود:
جدید تعلیمی نظام عام طور پر تکنیکی علم، تجزیاتی مہارتوں اور ذہنی صلاحیتوں پر زور دیتے ہیں۔ طلبہ کو پیچیدہ مساوات حل کرنا، تاریخی واقعات کا تجزیہ کرنا اور سائنسی نظریات پر عبور حاصل کرنا سکھایا جاتا ہے۔ لیکن اگر تعلیم صرف ذہنی ترقی تک محدود رہے تو یہ ایسے افراد پیدا کر سکتی ہے جو علمی طور پر تو ذہین ہوں لیکن ہمدردی، اخلاقیات یا سماجی ذمہ داری سے عاری ہوں۔ ایک ذہین مگر بے اصول شخص استحصال، بددیانتی اور غیر اخلاقی رویے کا باعث بن سکتا ہے۔مثال کے طور پر، تاریخ میں ایڈولف ہٹلر اور جوزف اسٹالن جیسے رہنما انتہائی ذہین اور حکمت عملی کے ماہر تھے، لیکن ان کی اخلاقی بنیاد کمزور تھی، جس کی وجہ سے بے پناہ تباہی پھیلی۔ اس کے برعکس مہاتما گاندھی اور نیلسن منڈیلا نے علم کے ساتھ ساتھ ہمدردی اور انصاف کو بھی اپنایا اور اپنی ذہانت کو امن اور عدل کے فروغ کے لیے استعمال کیا۔
البرٹ آئن سٹائن نے کہا تھا،’’ذہنی نشوونما پیدائش سے شروع ہونی چاہیے اور موت تک جاری رہنی چاہیے، لیکن حکمت صرف اسکولنگ کا نتیجہ نہیں بلکہ زندگی بھر کے تجربات سے حاصل ہوتی ہے۔‘‘ یہ ظاہر کرتا ہے کہ حقیقی تعلیم صرف معلومات حاصل کرنے کا نام نہیں بلکہ اخلاقی بصیرت اور دانشمندی کا فروغ بھی ضروری ہے۔
جذباتی اور اخلاقی تعلیم کا کردار :
دل کی تعلیم کا مطلب ہمدردی، نیکی، دیانتداری اور جذباتی مضبوطی کو فروغ دینا ہے۔ یہ خصوصیات افراد کو بامعنی تعلقات بنانے، معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے اور زندگی کے چیلنجز کو سمجھداری سے نمٹنے میں مدد دیتی ہیں۔ جذباتی ذہانت، یعنی جذبات کو سمجھنے اور قابو میں رکھنے کی صلاحیت، علمی مہارت کی طرح ہی اہم ہے۔
مثال کے طور پر، دو مینیجرز کو لیجیے ،جن کے پاس برابر کی فنی مہارت ہے۔ ایک اپنے ملازمین کی فلاح و بہبود سے بے پرواہ ہے، جس کی وجہ سے کام کی جگہ کا ماحول زہر آلود ہو جاتا ہے۔ دوسرا مینیجر قابلیت کے ساتھ ہمدردی بھی رکھتا ہے، جس سے ملازمین کی حوصلہ افزائی اور باہمی تعاون بڑھتا ہے۔ دوسرا انداز دیرپا کامیابی کی ضمانت دیتا ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ قیادت میں جذباتی ذہانت کتنی ضروری ہے۔
دلائی لامہ اس بارے میں کہتے ہیں،’’جب ہم اپنے نوجوانوں کے ذہنوں کو تعلیم دے رہے ہوں تو ہمیں ان کے دلوں کی تعلیم کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ یہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ جذباتی ذہانت افراد اور معاشرے کی بہتری کے لیے کتنی اہم ہے۔
اسکولوں کو چاہیے کہ وہ اپنے نصاب میں ہمدردی، اخلاقی فیصلے، اور جذباتی فلاح و بہبود کے اسباق شامل کریں تاکہ طلبہ ہمہ جہت شخصیت کے حامل بن سکیں۔ سماجی اور جذباتی سیکھنے (SEL) جیسے پروگرام طلبہ کو اپنے جذبات کو قابو میں رکھنے، تنازعات کو حل کرنے اور ہمدردی کا مظاہرہ کرنے کی تعلیم دیتے ہیں، جو تعلیمی کارکردگی اور ذاتی نشوونما میں بہتری کا باعث بنتے ہیں۔
تعلیم کا حقیقی مقصد:
حقیقی تعلیم کا مقصد افراد کو معاشرے کے لیے مثبت کردار ادا کرنے کے لیے تیار کرنا ہے۔ تعلیم کو صرف سوچنے کے طریقے سکھانے تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس میں ایمانداری سے عمل کرنے کی بھی تربیت دی جانی چاہیے۔ ایک تعلیم یافتہ شخص وہ نہیں جو صرف تعلیمی میدان میں کامیاب ہو، بلکہ وہ ہے جو دانشمندی، ہمدردی اور دوسروں کے لیے احساس ذمہ داری رکھتا ہو۔ اگر علمی اور اخلاقی تعلیم کو یکجا کیا جائے تو ہم ایسے افراد تیار کر سکتے ہیں جو اپنے علم کو معاشرے کی بہتری کے لیے استعمال کریں۔مثال کے طور پر وہ ڈاکٹرز جو طبی مہارت کے ساتھ ساتھ ہمدردی بھی رکھتے ہیں، وہ مریضوں کو بہتر علاج فراہم کرتے ہیں۔ ایک ایسا معالج جو صرف تشخیص کرے اور دوائیں تجویز کرے لیکن مریض کی جذباتی کیفیت کو نظر انداز کرے، وہ علاج کے ایک اہم پہلو کو نظرانداز کر رہا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ایک ڈاکٹر جو مریض کی بات توجہ سے سنتا ہے، ہمدردی کا مظاہرہ کرتا ہے اور حوصلہ دیتا ہے، وہ نہ صرف علاج کے نتائج کو بہتر بناتا ہے بلکہ مریضوں کے اعتماد کو بھی جیت لیتا ہے۔
مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے کہا تھا، ’’ذہانت کے ساتھ کردار کا ہونا ہی حقیقی تعلیم کا مقصد ہے۔‘‘ یہ بیان اس بات کو اُجاگر کرتا ہے کہ ایک منصفانہ معاشرے کے لیے علمی ترقی اور اخلاقی نشوونما دونوں ضروری ہیں۔
نتیجہ :ارسطو کے الفاظ آج بھی نہایت اہمیت رکھتے ہیں۔ ایک حقیقی تعلیم یافتہ فرد محض معلومات کا ذخیرہ رکھنے والا نہیں، بلکہ ایک باکردار انسان بھی ہوتا ہے۔ اسکولوں، والدین اور معاشرے کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ذہن اور دل دونوں کی نشوونما ضروری ہے تاکہ تعلیم اپنے حقیقی مقصد کو حاصل کر سکے۔یعنی صرف ذہین افراد پیدا کرنا نہیں، بلکہ اچھے انسان پیدا کرنا۔ اگر ہم علمی اور جذباتی دونوں پہلوؤں کو پروان چڑھائیں تو ہم ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں جہاں علم انسانیت کی خدمت کے لیے استعمال ہو، نہ کہ محض ذاتی مفادات کے لیے۔
[email protected]