شوکت احمد ڈار
کسی بھی معاشرے کی تعمیر وترقی میں ماہرین کا سب سے اہم کردار رہتا ہے ۔معاشرے کی تعمیرو تشکیل کے لئے جہاں اچھے اچھے ڈاکٹروں،انجینئروں ،تاجروں ،اور کسانوں کا ہونا ضروری ہے وہی پر معاشرے کو مکمل کرنے کے لئے علماء کا ہونا بھی نہایت ضروری ہے ۔اگر انسان کے جسم میں کوئی بیماری لاحق ہوتی ہے تو اس کا علاج وقت کا ڈاکٹر کرتا ہے ،اسی طرح اگر دین اسلام کے طریقے کار کے مخالف کو ئی عمل سرزد نظر آئے تو اس کا ازالہ سب سے پہلے امت مسلمہ کے علماء ہی کرتے ہیں ، کیونکہ رسولوں اور نبیوں کی آمدکا سلسلہ آخری نبی جناب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ منقطع ہوگیا ۔تو اﷲتعالیٰ نے انبیاء کرام ؑکے مشن کی انجام دہی کے لئے علماء کرام کی جماعت تیار فرمائی ۔علماء کرام حقیقی معنوں میں سماج و معاشرہ کی اصلاح کے اولین ذمہ دار اور انسانیت کے بقا کے اولین ضامن ہوتے ہیں ۔اﷲ تعالیٰ نے ان لوگوں کے کاندھوں پر عوام کو سیدھی راہ دکھانے کی ذمہ داری رکھی ہے اور کتاب وسنت کی توضیح و تفسیر اور دعوت و ارشاد کا فریضہ عائد کیا ہے ۔ علماء کرام کی فضیلت قران مقدس اور احادیث مبارکہ میں متعدد مقامات پر موجود ہیں ۔اﷲتعالیٰ قران حکیم میں فرماتے ہیں :’’اﷲ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں ۔‘‘ (الفاطر آیت ۲۸ ) اور ایک جگہ وضاحت کے ساتھ رب کریم نے ان کے متعلق فرمایا:’’ عالم اور جاہل بہر صورت برابر نہیں ہوسکتے ‘‘فرمایا: ’’اے نبیؐ!آپ بتائے کہ کیا علم والے اور بے علم برابر ہوسکتے ہیں‘‘ (سورہ الزمر ۹)۔علماء کرام انبیاء عظام ؑکے وارثین ہیں ۔انبیاء کرام ؑنے درہم ودینار وراثت میں نہیں چھوڑے بلکہ انہوں نے وراثت میں علم دین کو چھوڑا ہے ،جس نے اس ورثہ کو پا لیا ،اس نے حظ وافر پالیا ۔( الترمذی ، ابن ماجہ )
اس حدیث میں رسول اکرمؐ نے اس بات کی وضاحت فرمادی ہے کہ انبیاء کرامؑ نے درہم و دینارمیراث میں نہیں چھوڑے بلکہ انہوں نے علم دین کی میراث چھوڑی ہے، اور یہ علم انتہائی عظیم نعمت اور بیش بہا دولت ہے ۔اس علم میراث کے وارث امت مسلمہ کے علماء ہیں ۔ہر دور میں علماء آتے رہے اور اس عظیم پیشے کو اپناتے رہے ۔ہر عہد کے متعلقہ علماء نے اس عہد کے صورت حال کے مطابق اس عظیم میراث کو بانٹے رہے ۔موجودہ دور میں میں بھی علماء پر بہت ساری ذمہ داری عائد ہیں ۔بد قسمتی سے آج کے اس پرُ اشوب دور میں کچھ نام نہاد مولوی، جنہوں نے اپنے اس عظیم المرتبت پیشے کو بدنام کیا ،آئے روز شوشل میڈیا کے ذریعے ان کے تقاریر سننے کو ملتے ہیں ،جن میں تنقید براہ تعمیر کم لیکن تنقیدبراہ تذلیل زیادہ ہوتا ہے ۔ اکثر علماء کے پاس ابلاغ کی موثر ترین صورت مسجد کا مقدس منبراور خطبات جمعہ ہیں ،جن میں ہمہ تن گوش ہو کر شریک ہونا ہر مسلمان کا شرعی فریضہ ہے ۔اس اسٹیج پر پورے تقدس وانہماک سے ہر مسلمان سر جھکا کر دین کا پیغام سنتا ہے ۔اتنا بڑا سٹیج اور ایسا مقدس پلیٹ فارم کسی بڑے حکمران کو بھی میسر نہیں ۔یہ خالق کائنات کے گھر میں ،خالق کی پیش کردہ رہنمائی کا نظام ہے ،ان خطباء کا استدلال کا محور اﷲ کاقران اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہوتا ہے ۔جو اہم ومقدس ترین استدلال ہے ۔لیکن کشمیر کے کچھ نام نہاد علماء کی صورت حال الگ ہی ہے ،جو یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ کس مقام پر کھڑے ہوکر امت مسلمہ کو بکھیرنے میں لگے ہیں ،شاہد انہیں معلوم نہیں کہ ممبررسولؐ کا تقدس کیا ہے ۔ مولوی عبدالغنی بٹ کس کو یاد نہ ہوگا جس نے ممبر رسولؐپر مو سیقی کا آلہ یعنی مٹکے کو پیش کیا،جو کہ سراسر شریعت مطہرہ میں ناجائز ہے۔ اس کے ردعمل میں تمام مکاتیب فکر کے علماء نے اظہار تشویش کیا اوریہ تلقین کی کہ موجودہ صورت حال کو مد نظر رکھ کر علماء معاشرے کی اصلاح پر زور دے اور ممبر رسولؐکا تقدس برقرار رکھیں، اور بھی کچھ نام نہاد خطیب ہر روز کسی نہ کسی فتنہ پرور بات کا اظہارکر کے شوشل میڈیا پر لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں، وہ اس زعم میں ہیں کہ وہ یہ کہہ کر عوام کو اپنی علمی گہرائی باور کرانے کی کوشش کررہےہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسے افراد دین کی روح سے ناآشنا اور نابلد ہے ۔اس قسم کے بیانات سے دین کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا بلکہ آپسی نفرتوں میں تقویت ملے گی۔ شوشل میڈیا کے حوالے سے اس قسم کے ویڈیوز آئے روز دیکھنے کو ملتے ہیں ۔اس سلسلے میں تمام مکاتیب فکر کے سربراہوں کو یہ ادباًگذارش کی جاتی ہے کہ وہ اس کے متعلق اپنے مکتب فکر کے علماء سے مخاطب ہو کر اس بات پر زور دیںکہ اس وقت امت کے جو حالات ہیں، ان پر اپنے تقاریر کا موضوع منتخب کریں۔ان موضوعات سے اجتناب کرنے کی ضرورت ہے جن سے اس امت مسلمہ کا شیرازہ بکھیرنے کا اندیشہ ہو۔ سب اس بات سے واقف ہیں کہ پچھلے مہینے میں ٹنگمرگ کی ایک لڑکی مرتد ہو کر کسی غیر مسلم لڑکے سے شادی کی ۔کیا یہ ہمارے لئے کسی المیہ سے کم نہیں کہ ہمارے سامنے ہماری ایک بیٹی نے اپنے لئے جہنم کا انتخاب کیا ۔دراصل موجودہ دور میں ہمارے نوجوان نسل دین سے بھاگ کر مغربی تہذیب و تمدن کے شکار ہوتی نظر آرہی ہے۔علماء نئی نسل کو دین کی اہمیت اور مغرب کی زوال پذیر تہذیب سے آشنا کریں اور اگر کوئی شخص کسی غلط نظرئیے سے متاثر ہوتا نظر آئے تو حکمت و دانائی اور نرمی و شفقت سے اسکی غلط فہمی کی اصلاح کی جائے ۔ان کے دلوں میں ایمان کی قدر و عظمت اور اہمیت بٹھائی جائے ،اُن کوحالات کا مقابلہ کرنے قابل بنایا جائےاور ان کے ذہن و دماغ میں ایمان کی برتری اور اسلام کی عظمت کا سکہ بٹھایا جائے ،ان کے شکوک وشبہات کو علمی انداز میں دور کیا جائے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا ابتدائی دور مکہ مکرمہ کا اس بات کی طرف رہبری کرتا ہے ۔اﷲکے نبی ؐ نے اپنے صحابہ کرام کو کیسے دین پر مضبوط کیا اور ان کو کس طرح دین پر جمے رہنے کی تلقین فرمائی ۔ہمارے علماء کی بھی یہ ذمہ دارری ہے کہ وہ لوگوں کو عمل کی طرف راغب کریں ۔کیونکہ ہر قوم کی تباہی کا سبب ان کے بے عملی کا نتیجہ تھا ۔جب قوموں میں بد عملی ،بد خلقی ،غفلت ،بے راہ روی اجتماعی طور پر گھر کرجاتی ہے،تو تباہی و بربادی اس کا مقدر بن جاتی ہے، تاریخ نے ایسے کئی مناظر دیکھے بھی ہیں ۔قران کریم نے بھی مختلف قوموں کی تباہی کاذکر کیا ہے ،جن میں اخلاقی خرابیاں اجتماعی طور پر گھر کر گئی تھیں ۔ہر عالم پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے تقاریر و خطبات میں، قوم کو بے عملی کے عتاب اور بنا عمل کے کسی امید پر قائم رہنے کے نقصانات سے آگاہ کریں ۔حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی قوم کی تباہی اسی صورت میں ہوتی ہے جب وہ نیک اعمال سے منہ پھیر کر صرف آرزو اور اُمید کی دنیا میں گھومتی رہتی ہے ،جو شخص لاکھوں روپے کمانے کی تمنا رکھتا ہو،لیکن اس کیلئے محنت کرنے کو تیار نہیں، وہ کبھی ایک روپیہ بھی نہیں کما سکتا ہے ۔جو قوم ترقی کرنے کی خواہشمند ہو، لیکن اپنی بد عملیاں ،کام چوریاں اور خیانتیں چھوڑنے کو تیار نہیں، وہ کبھی ترقی کی شاہراہ پر قدم نہیں رکھ سکتی ۔یونہی جو لوگ اطاعت الٰہی اور اتباع رسولؐ کے قریب بھی نہ آئیں اور اپنی نسبتوں پر پھولتے پھریں، وہ احمقوں کی دنیا کے ہی باسی ہیں اور افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہمارے ہاں ایسے ہی لوگوں کی کثرت ہے ۔ علماء کو چاہئے کہ زیادہ تر خوف خدا، قبر کی تیاری ،آخرت کی فکر ،بارگاہِ الٰہی میں جواب دہی پر زیادہ زور دیں ۔اگر علماء بھی وعظ و نصیحت کے بجائے بازاری مقریرین کا اندازہ اختیار کرلیں،لغویات و واہیات ،بیہودہ گوئی اور بیکار باتوں سے دل بہلانا شروع کردیں جو عموماً ہر سُو دکھائی اور سُنائی دیتا ہے، تو لوگ غلط فہمی میں ہی مبتلا رہ جائیں گے کہ کوئی بات نہیں ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں، رحمت ِخدا وندی ہمارے لئےشاملِ حال رہے گی ،تو قوم کا حال غافلین سے بد تر ہو جائے گا۔ظاہر ہے جب عام آدمی مجلس ِوعظ میں ایسی خرافات سُنے گا، لازماً ویسی ہی صفات اس میں پیدا ہوں گی ،آخرت کے خطرات سے ڈرنا تو درکنار ،اُس کے دل سے آخرت کا خیال بھی نکل جائے گا ،پھر اُسے جو کچھ بھی کہا جائے وہ یہی کہتا رہے گا، اﷲعزوجل بڑا رحیم و کریم ہے ،میرے گناہوں سے اس کا کیا بگڑتا ہے؟ اور اس کی جنت کوئی تنگ و تاریک معمولی سی کوٹھری تھوڑی ہے بلکہ وہ تو زمین و آسمان سے بھی زیادہ وسیع وکشادہ ہے، وہاں تو کروڑوں انسان بہ آسانی سماجائیں گے تو مجھ جیسے گناہگار سے اﷲتعالیٰ کا تنگ آجانا خدا کی رحمت سے بعید ہے ۔ایسی ایسی لغویات اس کے دل ودماغ پر مسلط ہو جاتی ہیں ۔
[email protected]