تہذیب و تمدن کا تعلق براہ راست انسانی معاشرے سے ہے۔اس کے دائرے میں سیاسی و معاشی نظام،صنعت و حِرفت، ریاست وقانون ،خاندان و ملک ،ادب و آرٹ ،مذہب و سائنس، اشیائے خورد و نوش،رہن سہن،اخلاق و عادات ،رسوم و روایات،سماجی رشتے،منطق و فلسفہ، جغرافیائی اثرات وغیرہ شامل ہیں۔ایک عمدہ اور بہترین تہذیب کسی بھی ملک و قوم کی مظہر ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی فلاح و بقا کی ضامن بھی ہوتی ہے جب کہ فرسودہ یا مخرب تہذیب کی وجہ سے قومیں تنزل کی شکار ہوکراپنی تہذیبی شناخت کھو دیتی ہیں۔
علامہ اقبال تہذیب و تمدن کی باریکیوں سے گہری واقفیت رکھتے تھے۔وہ جانتے تھے کہ قوموں کے عروج و پستی کا انحصار تہذیب و تمدن پر ہوتا ہے لہٰذا انہوں نے جب مشرق و مغرب کی تہذیب کو باریک بینی کے ساتھ معیار کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کی تو انہیں فرنگی تہذیب و تمدن کے مقابلے میں مشرق کی تہذیب میں انسانی ترقی اور فکری ارتقا کی رمق زیادہ د کھائی دی۔انہیں مغربی تہذیب میں اخلاقی انحطاط، جنسی کشش ، منصوعی آرائشں و زیبائش اور فتنہ پردازی کے اثرات دکھائی دیے،جس کا برملااظہار انہوں نے اپنی شاعری میںبار بار کیا ہے۔نظم ’لینن(خدا کے حضور میں) کہتے ہیں:
رعنائی تعمیر میں، رونق میں ،صفا میں
گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کے عمارات!
ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جوا ہے
سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگ مفاجات!
یہ علم،یہ حکمت،یہ تدبر،یہ حکومت!
پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم مساوات!
بیکاری و عریانی و مے خواری و افلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات!
شرح کلیات اقبال اردو(متن ،اردو ترجمہ ،تشریح)اسرار زیدی ،نثار اکبر آباد،روشان پرنٹرس،دہلی۲،ص:۴۹۸
اسی طرح غزل’ زمانہ آیا ہے بے حجابی کا، کے دو شعر سماعت کریں:
دیار مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر ِکم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا،ناپا ئدار ہوگا
ایضاََ، ص:۱۶۹
علامہ مغربی تہذیب کی مکارانہ زندگی سے بخوبی واقف تھے کہ یہ صرف دکھاوے کی زندگی انسان کو غلام بنانے اور ملت کا شیرازہ بکھیرنے کے لیے ہے۔اس سلسلے میں وہ اہل مشرق کو شیشہ گرانِ فرنگ کی فریب کاری سے مسلسل متنبہ کرنے کی سعی کرتے رہے۔ انھوں نے جن نظموں میں فرنگی تہذیب کا پردہ فاش کیا ہے، ان میں خاص طور پر ’تہذیب حاضر‘،’افرنگ زدہ‘،مغربی تہذیب ‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔اسی طرح غزلوں میں ’اک دانش طورانی اک دانش برہانی‘، ’زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی‘،اور رباعی میں ’یورپ‘وغیرہ شامل ہیں۔
اس کے علاوہ انہوں نے فرنگی ایجادات کی کثافتوں اور کارخانوں سے نکلنے والے زہریلے مادّوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔ ان کا میلانِ طبع مشرق کی پرُ بہار اور فطرت پسند زندگی کی طرف تھا۔جہاں سادگی ،ملنساری،انسانی دردمندی اور ادب و احترام کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔علاوہ ازیں علامہ مشرق کی یکجہتی اور مشترکہ خاندانی نظام کو بھی ترقی کا زینہ سمجھتے تھے۔اس حوالے سے اردو ادب کے قد آور نقاد اور اقبال شناس آل احمد سرور کا اقتباس ملاحظہ فرمائیں: ’’ اقبال کو مغربی تہذیب سے شکایت ہی یہ ہے کہ اس نے افرنگ کو مشینوں کے دھویں سے سیہ پوش کردیا ہے۔اس نے روح کو خوبیدہ اور بدن کو بیدار کیا ہے،اس نے انسان کو مشین کا محکوم بنا دیا،اس نے تدبرّ کی فسوں کاری سے سرمایہ دارانہ تمدّن کو مستحکم کیا ہے،اس نے عقل کی پرستش کرکے اس عقلیت کو جنم دیا ہے جو روح کی پکار نہیں سنتی۔۔۔‘‘آل احمد سرور،تنقید کیا ہے،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی،۲۰۱۱،ص:۱۸۸
انہوں نے نظم ’لینن(خدا کے حضور میں)‘ مغربی استعماری منصوبوں سے لوگوں کو اس طرح روشناس کیا ہے:
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
فساد ِقلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب
کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف
چہروں پہ جو سرخی نظر آتی ہے سرشام
یا غازہ ہے یا ساغر و مینا کی کرامات
ایضاََ،ص: ۴۹۸
۲۔مناظر فطرت:
علامہ اقبال نے اپنے قلم سے فطرت کی منظر کشی اور حنا بندی اس طرح کی ہے کہ قاری داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ان کی شاعری میں فطرت کا عکس جا بجا بکھرا نظر آتا ہے۔بانگ ِ درا کی پہلی نظم ’ ہمالہ‘ سے لے کر ارمغان ِ حجاز کی آخری نظم ’حضرت انسان ‘ تک انھوں نے جس جولانی کی منظر کشی کی ہے وہ قابل داد اورلائق صد تحسین ہیں۔ انہوں نے نازک خیالی کے ساتھ دنیا وما فیہا کی ان گنت چیزوں کو ایک خاص فنکارانہ انداز سے شاعری میںپرونے کی کوشش کی ہے،جن میں خاص طور پر کوہسار و سبزہ زار،دشت و دریا،شبنم و موتی،شمع و پروانہ،مہرو ماہ،گل و بلبل،لالہ و صحرا،چیونٹی و عقاب وغیرہ قابل ذکر ہیں۔علامہ ان چیزوں کو ایک خاص پس منظر کے ساتھ پیش کرتے ہیں تاکہ موضوع میں فنی ندرت اور اثر انگیزی پیدا ہو۔مثلاََ’نظم ’ ہمالہ‘کا پورا منظر نامہ فطرت نگاری سے سرشار ہے مگر اس کے پہلو بہ پہلو شاعرنے حب الوطنی کے جذبے کو ابھارنے کی کوشش کی ہے:
امتحان دیدۂ ظاہر میں کوہستاں ہے تو
پاسبان اپنا ہے تو ،دیوارِ ہندوستاں ہے تو
مطلع اول فلک جس کا ہو،وہ دیواں ہے تو
سوئے خلوت گاہ دل دامن کش انساں ہے تو
برف نے باندھی ہے دستار فضلیت تیرے سر
خندہ زن ہے جو کلاہ مہرعالم تاب پر
ایضاََ،ص:۱۴
پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار
اودے اودے،نیلے نیلے،پیلے پیلے پیرہن
برگ گل پر رکھ گئی شبنم کا موتی باد صبا
۱ور چمکاتی ہے اس موتی کو سورج کی کرن
ایضاََ،ص:۴۰۱
نظم ’ساقی نامہ‘ میں آبشاروں کی مسلسل روانی اور دلکش منظر کے پس پردہ انہوں نے فلسفۂ زندگی ،جہد و بقا،اور اسرارِ خودی کے فلسفے کو سمجھانے کی سعی کی اور یہی ایک فن کار کی بڑی خوبی ہوتی ہے کہ وہ دقیق فلسفے کو مادی تمثالوں کے وسیلے سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہے۔ نمونہ ملاحظہ فرمائیں:
وہ جوئے کہستاں اچکتی ہوئی
اٹکتی لچکتی سرکتی ہوئی
اچھلتی پھسلتی سنبھلتی ہوئی
بڑے پیچ کھا کر نکلتی ہوئی
رکے جب تو سل چیر دیتی ہے یہ!
پہاڑوں کے دل چیر دیتی ہے یہ!
ذرا دیکھ اے ساقیِ لالہ فام
سناتی ہے یہ زندگی کا پیام!
ایضاََ: ص: ۵۲۳
مختصر طور پر جن نظموں میں علامہ نے فطرت کی عکاسی کی ہے، ان میں ہمالہ،گل رنگین،ابر کوہسار،گل پژمردہ،انسان اور بزم قدرت،صبح کا ستارہ،چاند اور تارے،پھول،لالہ صحرا،شعاع امید وغیرہ شامل ہیں۔ان نظموں کا مطالعہ کرتے وقت سارا منظر آنکھوں کے سامنے ایک فلم کی طرح رقص کناں ہو نے لگتا ہے۔
۳۔سیاست و جمہوریت:
علامہ اقبال عالمی ِ سیاست کے منظر نامے سے گہری واقفیت رکھتے تھے اور اس کا اظہار انہوں نے اپنی بیشتر غزلوں اورنظموں میں تفصیل کے ساتھ کیا ہے۔ابتدا میں گرچہ انہوں نے جمہوریت اور وطن پرستی کا نعرہ بلند کیامگر بعد میں جب وہ اس کی تہہ میں اتر ے تووہ اس نتیجے پر پہنچے کہ وطنی پرستی اورسیاسی و معاشی غلامی کی زنجیریں انسان کو مجرم اور وحشی بنا دیتی ہیں،جس کی مثال عصر حاضر میں برما،فلسطین،بھارت اور دیگر ممالک میںواضح اور صاف طور پردکھائی دیتی ہے۔لہٰذا یہی وجہ ہے کہ علامہ نے زندگی کی آخری سانس تک سیاسی مکاریوں،جمہوریت کی منفقانہ روشوں اور آمرانہ طرز حکومت کا پردہ فاش کرنے کی کوشش کی۔ نظم’ سلطنت ‘کے منفرد شعر ملاحظہ فرمائیں:
آ بتائوں تجھ کو رمز آیہء ان الملوک
سلطنت اقوام غالب کی ہے اک جادو گری
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری
آگے فرماتے ہیں :
دیو استبداد جمہوری قبا پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
ایضاََ:۳۰۶
علامہ کی سیاسی شاعری کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو یہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ جمہوریت اور سیاست کا راگ الاپنے والوں نے استحصال اور جبر کی بے شمار قوتوں کو جنم دیا اور ریاست،مذہب ،سیاست اور معیشت کے نام پر سماج کو مختلف طبقوں میں بانٹ دیاہے۔ دوسری طرف جاگیرداروں اورساہوکاروں کی مسندوں پر نام نہاد اور چاپلوس حکمراں براجمان ہوگئے ہیں، جن کی زیر سرپرستی غریب اور مزدورعوام غیر انسانی مشقت کو برداشت کرنے کے باوجود بھی دو وقت کی روٹی سے محروم رہتے ہیں۔اس حوالے سے ان کی شاعری میں احتجاج اور مزاحمت کے رویے بھی سامنے آئے ۔انہوں نے علی الاعلان اور بلاخوف و خطر نسلی تعصب،قومیت ،کلیسا اور سلطنت کو’ خواجگی ‘کے تراشیدہ مسکرات سے تعبیر کیا ہے۔
کارخانے کا ہے مالک مردک ناکارہ کار
عیش کا پتلا ہے،محنت ہے اسے ناسازگار
حکم حق ہے لیس الانسان الا ما سعی
کھائے کیوں مزدور کی محنت کا پھل سرمایہ دار
ایضاََ:۳۵۵
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات
ایضاََ،ص: ۳۰۷
انہوں نے سیاست کے نام پر انسانوں کو غلام بنانے کے رویے پر شدید غم و غصہ کا اظہار کیا ہے اور بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری کے مسائل کو بھی پیش کیا ہے۔اس کے علاوہ اجتماعیت ،جمہوریت اور انسانیت کے نام پر طاقتور ملکوں کے وحشیانہ پن کا بھی احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔اس حوالے سے ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں:’’اقبال ابتدا ہی سے اقتصادیات کے موضوع میں دلچسپی رکھتے تھے،کیوں کہ برصغیر میں غربت و افلاس کا خاتمہ کیے بغیر کسی قسم کے بھی نئے ہندو یا مسلم معاشرے کا قیام ممکن نہ تھا۔ان کی اردو میں پہلی نثری تصنیف’’علم الاقتصاد‘‘ انہیں حقائق سے متاثر ہوکر لکھی گئی۔‘‘ ڈاکٹر جاوید اقبال ،زندہ رود،علمی اکیڈیمی نئی دہلی-2۲۰۱۴،ص:۳۱۹
اور اس کے علاوہ علامہ اس بات سے بھی اچھی طرح آگاہ تھے کہ بنیادی تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے پسماندہ طبقے کی سوچ پراگندہ ہوجاتی ہے اور نتیجتاََ ان کے خیالات میں اتنی وسعت نہیں رہتی کہ وہ سرمایہ رادی کی حیلہ گری کو جان سکیں۔لہٰذا وہ کہتے ہیں:
اس دور میں تعلیم ہے امراض ملت کی دوا
ہے خون فاسد کے لیے تعلیم مثل نشتر
یا
اس جنون سے تجھے تعلیم نے بیگانہ کیا
جو یہ کہتا تھا خرد سے کہ بہانے نہ تراش
انہوں نے اپنی شاعری میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ غلامی و محکومی کی زنجیریں انسان کی خودی کی تکمیل میں رکاوٹ بن جاتی ہے اور اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو پنپنے کا موقع نہیں دیتی ۔اس حوالے سے گرچہ انہوں نے ہر شعری مجموعے میں اس پر ضرب لگادی مگر ’ارمغان حجاز‘ کے مجموعے میں ان کا لہجہ ذیادہ سخت ہوتا ہے اور اس فلسفے کو سمجھانے کے لیے انہوں نے ڈرامائی انداز اختیار کیا جو ان کی بیدار مغزی اور فنی پختگی کا ثبوت ہے۔ اس مجموعے کی نظم ’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘ میں انہوں نے غریبوںکے جو مسائل و معاملات بیان کیے ہیں وہیں مسائل آج بھی ان کو درپیش ہیں۔مذکورہ نظم میں ابلیس کے جواب میں پہلا مشیر کہتا ہے:
اس میں کیا شک ہے کہ محکم ہے یہ ابلیسی نظام
پختہ تر اس سے ہوئے خوئے غلامی میں عوام
ہے ازل سے ان غریبوں کے مقدر میں سجود
ان کی فطرت کا تقاضا ہے نماز بے قیام
آرزو اول تو پیدا ہو نہیں سکتی کہیں
ہو کہیں پیدا تو مرجاتی ہے یا رہتی ہے خام
یہ ہماری سعیِ پیہم کی کرامت ہے کہ آج
صوفی و ملاّ ملوکیت کے بندے ہیں تمام
ایضاََ،ص:۸۲۴
انہوں نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ ذات پات کے بھید بھائو نے نہ صرف سماج کی بنیادی اکائی کو منتشر و متزل کردیا بلکہ انسان کو انسان کا دشمن بنا دینے کے علاوہ فسادات،ہجرت ،نوآباد کاری جیسے مسائل کو جنم بھی دیا ہے۔علاوہ ازیں انہوںنے ان تمام عوامل کو صفحۂ قرطاس پر لانے کی کاوش کی جو ایک خوشحال سماج کی تعمیر و تشکیل میں معاون ہوسکتے ہیں۔
ابھی تک آدمی صدِ زبوں شہر یاری ہے
قیامت ہے کہ انسان نوعِ انسان کا شکاری ہے
المختصر جن نظموں میں علامہ نے سیاست و جمہوریت کی زبوں حالی کوقلم بند کیا ہیں ان میں ’وطنیت ‘،’دین اور سیاست‘،’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘،مزید برآں غزلوں میں بھی اس کی شبیہ کو نہایت پرُتاثیر پیرائے میں پیش کرنے کی سعی کی۔
۴۔تصور انسان:
علامہ اقبال کی شاعری کا مرکزی موضوع انسان اور کائنات ہے۔انہوں نے نوعِ انسان کی عظمت کو مذہب اور فلسفے کے آئینے میں مختلف زاویوں سے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی۔ان کا ایقان ہے کہ انسان کے دست تصرف میں قدرت کی تخلیق کردہ ہر شے ہے اوروہ تسخیر کائنات ، خلیفہ فی الارض، مسجود ملائکہ ،شاہین شہ لولاک اور قدرت کا رازدان بھی ہے ۔لہٰذ انہوںنے اس نوعِ انسان کی رفعتوں کو مطمع نظر رکھتے ہوئے اپنی شاعری میں مرکزی اہمیت دی اور اسے منتہائے کمال تک پہنچنے کے اسرار و رموز کے ساتھ ساتھ خود شناشی و خوداری،عزتِ نفس ، جہد و عمل اورمقصد حیات کا احساس دلانے کی بھرپور سعی کی۔فرماتے ہیں:
ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل یہ گھٹائیں
یہ گنبد ِ افلاک یہ خاموش فضائیں
یہ کوہ یہ صحرا یہ سمندر یہ ہوائیں
تھیں پیش نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں
خورشید جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں
آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہنر میں
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ علامہ کی شاعری میں تصور انسان کو کلیدی اہمیت حاصل ہے ۔ جس کی صدائے بازگشت ان کے ہر شعری مجموعے کلام میں دیکھنے کو ملتی ہے ۔ نظم ’انسان اور بزم قدرت ‘کے علاوہ’ انسان‘،’ حضرت انسان‘،’ایک نوجوان کے لیے‘،’روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ‘،’چاند اور ستارے‘،وغیرہ قابل ذکر ہیں۔اسی طرح غزلوں میں ’نہ تو زمین کے لیے نہ آسماںکے لیے‘، ’متاعِ بے بہا ہے دردِو سوزِ آرزومندی‘،ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں‘،’ کھو نہ جا اسی شام و سحر میں اے صاحب ہوش‘،اور رباعی میں ’جوانوں کو میری آہ سحر دے‘ وغیرہ شامل ہیں۔
الحاصل!مذکورہ بالا روشنی کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے مختصر طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ علامہ کی شاعری میں سماجیات کا ایک وسیع تر فکری نظام ابھر کرسامنے آتا ہے اور یہ عکاسی انہوں نے بغیر کسی ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا کیے بغیر سر انجام دے دینے کی سعی کی ۔فدوی اپنے مقالے کوپروفیسرنور الحسن نقوی کے ان الفاط کے ساتھ اختتام کرنا چاہتا ہے،لکھتے ہیں:
’’ اقبال کا عقیدہ تھا کہ ’’ قومیں شعرا کی رستگیری سے پیدا ہوتی ہیں۔‘‘ ۔۔۔ وہ شاعر بھی ہیں اور ایک مخصوس فلسفے اور ایک خاص نظامِ فکر کے علمبردار بھی لیکن ان میں شاعری کی صلاحیت خداداد تھی جسے انہوں نے اپنے خون جگر سے نکھارا۔فلسفے کی تحصیل انھوں نے مطالعے اور غورفکر سے کی تھی اور ان کا فلسفہ اس عہد کے حالات کی پیداوار تھا چناچہ ان کے یہاں اصل چیز ہے شاعری اور فلسفہ ثانوی۔‘‘پروفیسر نور الحسن نقوی ،اقبال فن اور فلسفہ،ایجوکیشنل بک ہائوس، علی گڑھ۲۰۱۰،ص:۱۱۴
رابطہ۔ریسرچ سکالر ،شعبہ اردو سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر
موبائل نمبر۔7780936355