عبدالعزیز
’’یہ مرکز میں میرے آنے سے پہلے کی بات ہے۔ مجھے اتنا معلوم ہے کہ مستری محمد صدیق صاحب نے مولانا ابوالکلام آزاد ؒ سے ملاقات کی اور ان سے کہا :’’آپ نے بہت پہلے جس کام کو شروع کیا تھا وہ کام اب مولانا مودودیؒ کر رہے ہیں‘‘۔ مولانا آزاد نے ان کی باتیں تو جہ سے سنیں اور فرمایا ’’ یہ ٹھیک ہے جو کام میں نے شروع کیا تھا وہ اب مولانا مودودی کر رہے ہیں میں تو حالات سے مایوس ہوکر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ کام اب نہیں ہوسکتا بلکہ وہی کام ہوسکتا ہے جو اب میں کر رہا ہوں‘‘ مشاہدات از میاں طفیل محمد ؒ ۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے’’ حزب اللہ‘‘( اللہ کی جماعت) کے نام سے ایک تنظیم کی تشکیل کی تھی، وہ اس کے سربراہ تھے۔ امام الہند کہلاتے تھے۔ جو ان کی جماعت میں شامل ہوتے تھے اسے مولانا سے بیعت لیتے تھے۔ مولانا نے اپنے رسائل ’’ الہلال‘‘و’’ ابلاغ‘‘ کے ذریعے دین اسلام ( دین حق) کے غلبہ کیلئے عالم اسلام کو بیدار کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ مولانا کی تقریر و تحریر سب اسلام کیلئے وقف تھیں، بعد میں انہوں نے کانگریس کے دامن کو تھاما پھر آخری زندگی تک اسی کے ہوکر رہ گئے۔ مولانا مودودی نے مولانا ابوالکلام آزاد کے بارے میں کہا تھا ’’یہ بیسویں صدی کی (سب سے) ٹریجڈی ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد اپنے مو قف سے منحرف ہو گئے۔ اذان دیکر خود خاموش ہوگئے‘‘۔ بڑے غور سے سن رہا تھا زمانہ-’’ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے‘‘۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے حالات کو بھانپ لیا تھا کہ مسلمان ان کی آواز پر لبیک نہیں کہیں گے، لہٰذا اس پر چلنا بے سود ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے دوسرا راستہ جو اپنا یا مسلمانوں نے اس راستے کو بھی نہیں اپنایا مثلاً وہ تقسیم ہند کے سخت خلاف تھے۔ مسلمانوں نے تقسیم سے دلائل کے ساتھ نقصانات بتائے۔ مسلمانوں نے نہیں سنا۔ مسلمانوں نے ان سنی کردی جو کہتے تھے لیکن ہندستان میں اکثریت کی چلے گی، مسلمانوں کی نہیں۔ مسلمانوں کو مغلوب کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ مولانا ابوالکلام آزاد مسلمانوں کو ہجرت سے منع کرتے رہے مگر مسلمانوں نے ایک نہ سنی۔ مولانا کا غیر معمولی خطاب جو جامع مسجد دہلی سے کیا تھا وہ عدیم المثال ہے۔
علامہ اقبال اور مولانا ابوالکلام آزاد میں بہت زیادہ مماثلت ہے۔ مولانا نے اپنے قلم سے جو صور پھونکنا چاہا تھا اسے جب مسلمانوں نے نہیں سنا تو مولانا ابوالکلام آزاد نے دوسرا راستہ اپنایا۔ علامہ اقبال نے اپنے قلم سے اور اپنی تخلیق سے ابتدا میں قوم پرستی اور وطن پرستی کا راستہ اختیار کیا تھالیکن مغرب سے واپس آنے کے بعد انھوں نے اسلام کو اپنا اوڑھنا اور بچھونا بنالیا اور مسلمانوں کو اسی راستے پر رہنے اور اسے غالب کرنے کی نہایت اچھے اور پُر اثر انداز سے تلقین اور نصیحت کی۔ درج ذیل مضمون پاکستان کے ایک قلمکار فتح محمد ملک کا نتیجۂ فکر ہے جو پڑھنے کے لائق ہے:
علامہ محمد اقبال اور مولانا ابوالکلام آزاد عہدِ حاضر کے دوعظیم اسلام شناس ہیں۔ دین کی تفہیم و تعبیر میں ہر دو شخصیات کے ہاں گہری مماثلت بھی پائی جاتی ہے اور شدید اختلاف بھی۔ اقبال نے جہاں اپنے سیاسی فکر و عمل میں ہندستانیت سے اسلامیت کی جانب پیش قدمی کی وہاں مولانا آزاد نے اسلامیت سے ہندستانیت کی جانب مراجعت کا راستہ اختیار کیا۔ اسلامیانِ ہند کی بھاری اکثریت نے مولانا آزاد کے دکھائے ہوئے راستے پر چلنے سے انکارکر دیا اور اقبال کی جدید دینی تعبیر کو اپنا کر قائداعظم کی قیادت میں پاکستان قائم کر لیا۔ اجماع کے اس سیاسی ردّوقبول سے قطع نظر اقبال اور ابوالکلام آزاد ہر دو برصغیر کے مسلمانوں کی آنکھ کا تارا ہیں۔ دونوں کو عقیدت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ محترمہ سیدین حمید نے اپنی حالیہ کتاب Islamic “Seal on India’s Independence,Oxford,1998” میں مولانا آزاد کی حیات و خدمات پر ایک تازہ نظر ڈالتے وقت ان کی شخصیت کو اقبال کے درج ذیل شعر سے اُجاگر کیا ہے:
نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پُرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرکارواں کیلئے
لطف کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں اقبال کا یہی شعر قائداعظم محمد علی جناح کی شخصیت و کردار کا جلی عنوان ٹھہرا ہے۔ یہ سچ ہے کہ ہر دو شخصیات کے پاس ’نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز‘ کا رختِ سفر موجود تھا مگر یہ بھی سچ ہے کہ اسلامیانِ ہند نے اپنی قومی زندگی کے ایک انتہائی نازک مرحلے پر مولانا آزاد کی سیاسی قیادت پر عدمِ اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مسٹر جناح کی سیاسی قیادت پر بھرپور اعتماد کا ثبوت دیا تھا اور یوں مولانا آزاد اپنی تمام تر عظمت کے باوجود یوسفِ بے کارواں ہو کر رہ گئے تھے۔مولانا، خود اپنے کارواں سے بے نیاز ہو کر ایک مختصر مدت کیلئے متحدہ ہندستانی قومیت کے کارواں کا ہراول دستہ تو ضرور بن گئے تھے مگر بالآخر یہ حقیقت ان پر روشن ہو گئی تھی کہ ہندستانی قومیت کا کارواں بھی انھیں پیچھے چھوڑ کر کہیں دور، بہت دور، چلا گیا ہے اور وہ فقط ایک درماندہ راہ رو کی صدائے دردناک بن کر رہ گئے ہیں۔
مولانا ابوالکلام آزاد کی فکری اور سیاسی جدوجہد بڑے واضح، متعین اور قطعی انداز میں تین الگ الگ ادوار پر مشتمل ہے۔ پہلا دور آغازِ کار سے لے کر 1920ء تک پھیلا ہوا ہے۔ دوسرا دور 1920ء سے لے کر قیامِ پاکستان تک اور تیسرا دور قیامِ پاکستان سے لے کر دمِ واپسیں تک۔ مولانا کی زندگی کے پہلے دور میں اقبال کا شمار ان کے مداحوں میں ہوتا تھا؛جبکہ دوسرے دور میں دونوں کے سیاسی فکر و عمل کے راستے الگ الگ ہو گئے تھے۔ شدید فکری اور سیاسی اختلاف کے اِس دور میں بھی ہر دو شخصیات میں سے کسی ایک نے بھی دوسرے کے خلاف کبھی لب کشائی نہیں کی۔ دونوں کے مابین عزت و احترام کی خاموش فضا ہمیشہ قائم رہی۔
مولانا آزاد نے جب 1921ء میں کلکتہ سے اپنے اخبار ’’الہلال‘‘ کی ابتداکی تو اقبال اِس قدر خوش ہوئے کہ انھوں نے ’’الہلال‘‘ کے دس خریدار بنائے۔ پھر جب ’’الہلال‘‘ برطانوی حکومت کے احتساب کی زد میں آ کر 1914ء میں بند ہو گیا اور مولانا نے اس کی جگہ ’’البلاغ‘‘ جاری کیا تو اس کے پہلے شمارے کے ٹائٹل پر اقبال کی نظم شائع کی۔ مولانا غلام رسول مہر کے بقول ’’اِس نظم کے اعتراف عظمت کیلئے یہی شہادت کافی ہے کہ ’الہلال‘ کے اڑھائی برس یا ’البلاغ‘ کے چند مہینوں اور ’الہلال‘ دورِ دوم کے چھ ماہ میں علامہ کی اس نظم کے سوا نہ تو کبھی کوئی نظم پہلے صفحے پر شائع ہوئی اور نہ ہی کبھی کسی نظم کیلئے پورا صفحہ وقف کیا گیا‘‘۔اقبال کی یہ نظم عرفی کے اِس شعر پر تمام ہوتی ہے:
نوا را تلخ تر می زن، چو ذوقِ نغمہ کمیابی
حدی را تیز تر می خواں، چو مہمل را گراں بینی
اقبال کی یہ نظم اِس بات کی شاہد ہے کہ دورِ اوّل کے ابوالکلام آزاد کے فکر و عمل کو اقبال تحسین کی نظر سے دیکھتے تھے۔ دین کی تفہیم و تعبیر میں ہر دو شخصیات کی فکری مماثلت کا اندازہ ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ میں شائع ہونے والے مولانا کے مضامین اور اقبال کی شاعری سے کیا جا سکتا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنے مضمون ’’حقیقت ِاسلام‘‘ میں بڑے دو ٹوک انداز میں اسلام کی حقیقت کو اِن الفاظ میں منکشف فرمایا ہے:’’یہی وہ اسلام ہے جس کو قرآن جہاد فی سبیل اللہ سے تعبیر کرتا ہے اور کبھی اسلام کی جگہ جہاد اور کبھی جہاد کی جگہ اسلام، کبھی مسلم کی جگہ مجاہد اور کبھی مجاہد کی جگہ مسلم بولتا ہے۔ اس لیے کہ حقیقت ِ جہاد، اپنا سب کچھ اس کیلئے قربان کر دینا ہے۔ ہر وہ کوشش و سعی جو اس کی خاطر ہو وہ جہاد ہے۔ خواہ ایثار ہو، جاں کی سعی ہو یا قربانی مال و اولاد کی جدوجہد اور یہی حقیقت ِ اسلام ہے کہ اپنا سب کچھ اس کے سپرد کر دیا جائے۔ پس جہاد اور اسلام ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں اور ایک ہی معنی کیلئے دو مترادف الفاظ ہیں۔ یعنی اسلام کے معنی جہاد ہیں اور جہاد کے معنی اسلام ہیں۔ پس کوئی ہستی مسلم ہو نہیں سکتی جب تک مجاہد نہ ہو اور کوئی مجاہد ہو نہیں سکتا جب تک مسلم نہ ہو۔ اسلام کی لذت اس بدبخت کیلئے حرام ہے جس کا ذوق ایمانی لذت جہاد سے محروم ہو اور زمین پر گو اس نے اپنا نام مسلم رکھا ہو لیکن اس کو کہہ دو کہ آسمانوں میں اس کا شمار کفر کے زمرے میں ہے۔ آج جب ایک دنیا لفظ جہاد کی دہشت سے کانپ رہی ہے جبکہ عالم مسیحی کی نظروں میں یہ لفظ عفریت، مہیب یا ایک حربہ بے امان ہے، جبکہ اسلام کے مدعیان نبوت نصف صدی سے کوشش کر رہے ہیں کہ کفر کی رضا کیلئے اہلِ اسلام کو مجبور کریں کہ وہ اس لفظ کو لغت سے نکال دیں جبکہ بظاہر انہوں نے کفر و اسلام کے درمیان ایک راضی نامہ لکھ دیا کہ اسلام لفظ جہاد کو بھلا چکا ہے۔لہٰذا کفر اپنے توحش کو بھول جائے تاہم آج کل کے ملحد مسلمین اور مفسدین کا ایک حزب الشیطان بے چین ہے کہ بس چلے تو یورپ سے درجہ تقرب و عبودیت حاصل کرنے کیلئے تحریف الکلم عن مواضعہ کے بعد سرے سے اس لفظ کو قرآن سے نکال دے تو پھر یہ کہا ہے کہ میں جہاد کو صرف ایک رکن اسلامی، ایک فرض دینی، ایک حکم شریعت بتلاتا ہوں حالانکہ میں تو صاف صاف کہتا ہوں کہ اسلام کی حقیقت ہی جہاد ہے، دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ اسلام سے اگر جہاد کو الگ کر لیا جائے تو وہ ایک ایسا لفظ ہوگا جس میں معنی نہ ہوں۔ ایک اسم ہوگا جس کا مسمیٰ نہ ہو‘‘۔
گویا ترکِ جہاد کی تلقین ترکِ اسلام کی تعلیم کے مترادف ہے۔ اس مضمون کو پڑھتے وقت مجھے اقبال کی آخری طویل نظم ’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘ بے ساختہ یاد آئی۔ اس ڈرامائی نظم کے ایک منظر میں شیطان دنیائے اسلام کے خلاف اپنی سازشوں کی کامیابی پر اطمینان کا اظہار کرتا ہے:
اس میں کیا شک ہے کہ محکم ہے یہ ابلیسی نظام
پختہ تر اس سے ہوئے خوئے غلامی میں عوام
یہ ہماری سعی پیہم کی کرامت ہے کہ آج
صوفی و مْلّا ملوکیت کے بندے ہیں تمام
کس کی نومید پہ حجت ہے یہ فرمان جدید
’’ہے جہاد اس دور میں مرد مسلماں پر حرام‘‘
جب برطانوی استعمار نے جہاد کے خلاف یہ فتویٰ خوب خوب مشتہر کیا تو اس کی تردید میں اقبال نے اپنی نظم ’’جہاد‘‘ لکھی:
فتویٰ ہے شیخ کا کہ زمانہ قلم کا ہے
دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر
لیکن جناب شیخ کو معلوم کیا نہیں؟
مسجد میں اب یہ وعظ ہے بے سود و بے اثر
تیغ و تفنگ دست مسلماں میں ہے کہاں
ہو بھی، تو دل ہیں موت کی لذت سے بے خبر
کافر کی موت سے بھی لرزتا ہو جس کا دل
کہتا ہے کون اسے کہ مسلماں کی موت پر
تعلیم اس کو چاہیے ترکِ جہاد کی
دنیا کو جس کے پنجہ خونیں سے ہو خطر
باطل کے فال و فر کی حفاظت کے واسطے
یورپ زرہ میں ڈوب گیا دوش تا کمر
ہم پوچھتے ہیں شیخ کلیسا نواز سے
مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر
حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات
اسلام کا محاسبہ، یورپ سے درگزر!
یہ تو تھا اسلام کی حقیقت کا بیاں، اب آئیے اسلام میں قومیت کے تصور کی جانب۔(جاری)
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068