پروفیسر خالد اقبال جیلانی
تاریخ کے اوراق الٹیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جب ذہنِ انسانی عالمِ طفولیت میں تھا تو اُسے چھوٹے چھوٹے معاملات کے فیصلوں کے لئے بھی خارجی امداد کی ضرورت پڑتی اور وہ دو قدم پر بھی آسرے کے بغیر نہیں چل سکتا تھا جس طرح بچہ جب پہلے چلنا سیکھتا ہے تو اسے کسی انگلی پکڑنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اگر وہ ہل جائے تو چار قدم چل لیتا ہے، نہ ہلے تو لڑ کھڑا کر گر پڑتا ہے۔ بچہ بڑا ہو جائے تو خود چل سکتا ہے، مگر صرف گھر کی چار دیواری میں یا ماں باپ کے سامنے، جوانی میں یہ صورت بھی بدل جاتی ہے۔ اب اگر اُسے کوئی سہارادے ، یا اس پر قید لگائے تو وہ اسے اپنی توہین سمجھتا ہے، مگر پھر بھی ضرورت ہوتی ہے کہ دنیا کی وسیع و عریض شاہراہوں پر نشانِ راہ موجود ہوں جو بتا سکیں کہ راستہ کدھر جاتا ہے۔ اب اگر راہرو کی آنکھوں میں بینائی ہے تو وہ منزل مقصود تک ضرور پہنچ جاتا ہے۔
جس طرح جسمانی طور پر یہ قانونِ فطرت ہے ذہنی ، قلبی اور روحانی طور پر بھی یہی اصول فطرت کار فرما ہے، ابتداء میں انسان کی اجتماعی زندگی کے لئے خالقِ کا ئنات و رب العالمین نے یہ اصول بنایا کہ ۔’’ اے نوع انسانی! جب تمہارے پاس تم ہی میں سے رسول آئیں جو میری آیات سنائیں تو تم میں سے جو کوئی تقویٰ اور اصلاح اختیار کرے تو اسے کسی قسم کا خوف اور غم نہیں ہوگا۔‘(سورۂ اعراف 35)
اس اصولِ فطرت کے مطابق ہر قریہ ، ہر بستی ، ہر قوم اور ہر عہد میں انسانوں کے پاس رسول آتے رہے، ایک رسول آتاا ور جب تک وہ اپنی قوم یا قبیلے میں رہتا ، لوگ اُس کی رہنمائی اور ہدایتِ خداوندی کی روشنی میں چلتے رہتے جوں ہی وہ نبی دنیا سے رخصت ہوتا ،وہ پھر گمراہی کے اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارنے لگتے۔ ابتداء میں زندگی کی مصروفیات بھی مختصر تھیں ۔ چھوٹی چھوٹی اقوام پر مشتمل آبادیاں تھیں ۔ اس لئے اُن کی ہدایت کا دائرہ ٔ اثر بھی اسی وسعت کے مطابق محدود اور مقید رہتا تھا۔
ایک نبی کا دور ختم ہوتا تو دوسرا نبی آجاتا۔ اس کا ذکر قرآن پاک میں یوں ہوا ہے۔ ’’ اور پہلے لوگوں میں ہم نے بہت سے رسول بھیجے۔‘‘ (سورۂ زخرفـ 6:) مزید فرمایا کہ ’’پھر ہم نے اپنے رسول پے در پے بھیجے ‘‘۔ (سورۂ مومنون42:) ہر قوم اور ہر زمانے میں نبی آئے اور پے در پے آئے۔ اس کے ساتھ ہی آسمانی ہدایت کو حالات کے مطابق تبدیل کیا گیا۔ ہوتا یوں رہا کہ ایک رسول کی تشریف آوری کے بعد کچھ وقت تک اس کی تعلیمات اپنی اصلی شکل میں باقی رہتیں۔
پھر اس میں اپنی طرف سے تبدیلیاں کر لی جاتیں ۔ کچھ لوگ خود ساختہ باتیں اللہ کی طرف منسوب کر دیتے ۔ دوسری طرف زندگی کی ضروریات بھی بڑھتی جاتیں اور حالات کے مطابق تبدیلی کا تقاضا پیدا ہو جاتا۔قرآن کریم نے کئی جگہ اس تبدیلی اور نئی ہدایات کے نافذ ہونے کا ذکر کیا ہے۔ سورۃ البقرہ میں فرمایا :’’ہم اپنے احکام میں سے جو کچھ بھی منسوخ کرد یتے یا بھلا دیتے ہیں تو اس کی جگہ اُس سے بہتریا اُس جیسا حکم پھر نازل کر دیتے ہیں۔
کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘اسی طرح سورۃ الحج میں بھی ارشاد فرمایا: ’’ اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا اور نہ نبی کہ جب اس نے احکام الہٰی کی تلاوت کی تو (وحی کے دشمن) شیطان نے اس کی تلاوت کردہ وحی میں کچھ ملاوٹ کر دی، لہٰذا اللہ دوسرا رسول بھیج کر اُس کی اس آمیزش کو مٹاتا رہا اور اپنے احکام کو محکم کرتا رہا۔اللہ سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے‘‘۔
انسانیت کے سفرِ حیات میں آخر ارتقاء کی وہ منزل آپہنچی، جب انسان کا ذہن بھی ارتقائی مراحل سے گزر کر بالغ ہو گیا۔ اب ضرورت تھی کہ شاہراہِ زندگی کے نشانات واضح کر دیئے جائیں۔ اُن کی حفاظت کا پورا پورا انتظام کر دیا جائے۔ قوموں ، قبیلوں ، بستیوں اور جماعتوں کو الگ الگ ہدایت دینے کے بجائے اللہ تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوبھیجا اور فرمایا: ’’ ہم نے آپ کو تمام بنی نوع انسان کے لئے رسول بنا کر بھیجا ‘‘(سورۂ نساء)ایک اور مقام پر فرمایا کہ ’’اور ہم نے آپ کو تمام نوع انسانی کے لئے بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ‘‘۔ (سورۂ سبا18:)
رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت قیامت تک آنے والی روئے زمین کی ہر قوم اور ہر انسانی طبقہ کی طرف ہوئی۔ کالے، گورے، عرب و عجم، ترک تاتار، چینی ،ہندی ،رومی اور حبشی سب کے لیے آپ کی دعوت عام ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا بھر کے لئے آخری نبی و رسول ہیں ،اب قیامت تک کوئی نبی و رسول نہیں آئے گا اور ہدایتِ آسمانی، وحی کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا گیا ، جو صحیفۂ آسمانی یعنی قرآن کریم آپ کو عطا کیا گیا ،وہ سابقہ آسمانی صحیفوں کا ناسخ ہونے کے ساتھ ساتھ تمام امور میں ہر طرح سے جامع و مانع ہے، نہ صرف اپنے عہد کے لئے بلکہ تمام آنے والے زمانوں اور قوموں کے لئے بھی۔
اسی لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کے سلسلے میں اللہ نے واضح و صریح حکم صادر فرما دیا ’’اسی لئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کے سلسلے میں امتِ محمدیہ کا یہ بنیادی عقیدہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اللہ تعالیٰ نے سلسلہ نبوت و رسالت ختم فرما دیا۔ اب ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ عقیدہ ختم نبوت بھی عقیدہ رسالت ہی کا ایک جُز ہے۔ اگر کوئی شخص تمام عقائد ِ اسلام پر سچے دل سے ایمان رکھتا ہے، لیکن عقیدۂ ختم نبوت کو نہیں مانتا تو وہ مومن ہو ہی نہیں سکتا۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ دین کو مکمل کر کے سلسلۂ نبوت کو ختم کر دیا گیا۔ قرآن ، حدیث ، اجماع صحابہ، اجماع امت سے یہی ثابت ہے اور عقل بھی اسی کو درست تسلیم کرتی ہے۔ قرآن کریم نے بڑی صراحت سے بیان کیا ’’ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبیین ہیں ‘‘ ۔ چنانچہ فرمایا۔ ’’(لوگو! )محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، مگر یہ کہ وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔‘‘ (سورۂ احزاب 40: )
عقلی طور پر بھی تمام دلائل و براہین سے یہی نتیجہ اخذ کیا گیا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کے بعد زمین پر انسانی ہدایت کے لئے کوئی ایسی ضرورت باقی ہی نہیں رہی کہ جس میں کسی نبی کے آنے کی ضرورت یا گنجائش ہو۔ عقیدہ ٔختم نبوت پر صرف ایمان ہی نہیں ،بلکہ عقیدۂ ختم نبوت امت کے ایمان کی جان ہے۔