بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ جوشؔ کا پہلا مرثیہ جو ’’آواز حق ‘‘کے نام سے شائع ہوا‘ اور جس کے آخری بند میں واضح طور پر جوشؔ نے صدیوں کی تاریخ کا سلسلہ اپنے عہد کی سامراج دشمنی سے ملا دیا‘ ۱۹۱۸ء کی تخلیق ہے۔ اقبال کی شہرہ آفاق تصنیف رموزبے خودی بھی۱۹۱۸ء میں شائع ہوئی۔ یہ پہلی جنگ عظیم کے اختتام کا اور تحریک خلافت کے تقریباً آغاز کا زمانہ تھا۔ جوشؔ کا یہ بند ملاحظہ ہو جس میں وہ دعوت دیتے ہیں کہ اسلام کا نام جلّی کرنے کے لیے لازم ہے کہ ہر فرد حسین ابن علیؓ ہو ؎
اے قوم! وہی پھر ہے تباہی کا زمانہ
اسلام ہے پھر تیر حوادث کا نشانہ
کیوں چپ ہے اسی شان سے پھر چھیڑ ترانہ
تاریخ میں رہ جائے گا مردوں کا فسانہ
مٹتے ہوئے اسلام کا پھر نام جلّی ہو
لازم ہے کہ ہر فرد حسین ابن علیؓ ہو
واضح رہے کہ ’’آواز حق ‘‘کو ’’شعلہ و شبنم ‘‘میں شامل کرتے وقت جو ۱۹۳۶ء میں شائع ہوئی، جوشؔ نے اعتذار کا لہجہ اختیار کیا اور یہ نوٹ درج کیا ـ:اس نظم کو صرف اس نظر سے پڑھا جاسکتا ہے کہ یہ آج سے اٹھارہ برس پیشتر کی چیز ہے۔ (ص ۲۴۸)۔یوں تو جوش ملیح آبادی نے نو مرثیے لکھے جنہیں ضمیر اختر نقوی نے مرتب کرکے شائع کر دیا ہے (جوش ملیح آبادی کے مرثیے لکھنو ۱۹۸۱ء) لیکن آزادی سے پہلے ’’آواز حق‘‘ کے علاوہ جو ش کا صرف ایک اور مرثیہ ’’حسین ؓاور انقلاب ‘‘ملتا ہے جو ۱۹۴۱ء کی تصنیف ہے۔ اس میں انہوں نے اپنے انقلابی خیالات کا اظہار اور بھی کھل کر کیاہے اور کئی بندوں میں حسینؓ کو حریت و آزادی کے مظہر کے طور پر پیش کیا ہے۔ چالیسویں بند کی بیت ہے۔
عباس نامور کے لہو سے دُھلا ہوا
اب بھی حسینیت کا علم ہے کھلا ہوا
اس کے بعد کچھ بند ملاحظہ ہوں ؎
یہ صبح انقلاب کی جو آج کل ہے ضو
یہ جو مچل رہی ہے صبا پھٹ رہی ہے پو
یہ جو چراغ ظلم کی تھرا رہی ہے لُو
در پردہ یہ حسینؓ کے انفاس کی ہے رُو
حق کے چھڑے ہوئے ہیں جو یہ ساز دوستو
یہ بھی اسی جری کی ہے آواز دوستو
پھر حق ہے آفتاب لب بام اے حسینؓ
پھر بزم آب وگل میں ہے کہرام اے حسینؓ
پھر زندگی ہے سست و سبک گام اے حسینؓ
پھر حریت ہے مورد الزام اے حسینؓ
ذوق فساد ولولہ شر لئے ہوئے
پھر عصر نو کے شمر ہیں خنجر لئے ہوئے
مجروح پھر ہے عدل و مساوات کا شعار
اس بیسویں صدی میں ہے پھر طرفہ iiانتشار
پھر نائب یزید ہیں دنیا کے شہر یار
پھر کربلائے نو سے ہے نوع بشر دوچار
اے زندگی جلال شہ مشرقین دے
اس تازہ کربلا کو بھی عزم حسین ؓدے
آئین کشمکش سے ہے دنیا کی زیب و زین
ہرگام ایک بدر ہر ہو سانس اک حنین
بڑھتے رہو یو نہیں پے تسخیر مشرقین
سینوں میں بجلیاں ہوں زبانوں پہ یاحسینؓ
تم حیدری ہو‘ سینہ اژدر کو پھاڑ دو
اس خیبر جدید کا در بھی اُکھاڑ دو
اس مرثیہ کا خاتمہ اس بیت پر ہوا ہے ؎
دنیا تری نظیرشہادت لئے ہوئے
اب تک کھڑی ہے شمع ہدایت لئے ہوئے
عقیدتِ حسینؓ
جوشؔ کے کلام میں
فکر امروز
مر سلہ: حسین احمد علائی
کشمیر یونیورسٹی
بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ جوشؔ کا پہلا مرثیہ جو ’’آواز حق ‘‘کے نام سے شائع ہوا‘ اور جس کے آخری بند میں واضح طور پر جوشؔ نے صدیوں کی تاریخ کا سلسلہ اپنے عہد کی سامراج دشمنی سے ملا دیا‘ ۱۹۱۸ء کی تخلیق ہے۔ اقبال کی شہرہ آفاق تصنیف رموزبے خودی بھی۱۹۱۸ء میں شائع ہوئی۔ یہ پہلی جنگ عظیم کے اختتام کا اور تحریک خلافت کے تقریباً آغاز کا زمانہ تھا۔ جوشؔ کا یہ بند ملاحظہ ہو جس میں وہ دعوت دیتے ہیں کہ اسلام کا نام جلّی کرنے کے لیے لازم ہے کہ ہر فرد حسین ابن علیؓ ہو ؎
اے قوم! وہی پھر ہے تباہی کا زمانہ
اسلام ہے پھر تیر حوادث کا نشانہ
کیوں چپ ہے اسی شان سے پھر چھیڑ ترانہ
تاریخ میں رہ جائے گا مردوں کا فسانہ
مٹتے ہوئے اسلام کا پھر نام جلّی ہو
لازم ہے کہ ہر فرد حسین ابن علیؓ ہو
واضح رہے کہ ’’آواز حق ‘‘کو ’’شعلہ و شبنم ‘‘میں شامل کرتے وقت جو ۱۹۳۶ء میں شائع ہوئی، جوشؔ نے اعتذار کا لہجہ اختیار کیا اور یہ نوٹ درج کیا ـ:اس نظم کو صرف اس نظر سے پڑھا جاسکتا ہے کہ یہ آج سے اٹھارہ برس پیشتر کی چیز ہے۔ (ص ۲۴۸)۔یوں تو جوش ملیح آبادی نے نو مرثیے لکھے جنہیں ضمیر اختر نقوی نے مرتب کرکے شائع کر دیا ہے (جوش ملیح آبادی کے مرثیے لکھنو ۱۹۸۱ء) لیکن آزادی سے پہلے ’’آواز حق‘‘ کے علاوہ جو ش کا صرف ایک اور مرثیہ ’’حسین ؓاور انقلاب ‘‘ملتا ہے جو ۱۹۴۱ء کی تصنیف ہے۔ اس میں انہوں نے اپنے انقلابی خیالات کا اظہار اور بھی کھل کر کیاہے اور کئی بندوں میں حسینؓ کو حریت و آزادی کے مظہر کے طور پر پیش کیا ہے۔ چالیسویں بند کی بیت ہے۔
عباس نامور کے لہو سے دُھلا ہوا
اب بھی حسینیت کا علم ہے کھلا ہوا
اس کے بعد کچھ بند ملاحظہ ہوں ؎
یہ صبح انقلاب کی جو آج کل ہے ضو
یہ جو مچل رہی ہے صبا پھٹ رہی ہے پو
یہ جو چراغ ظلم کی تھرا رہی ہے لُو
در پردہ یہ حسینؓ کے انفاس کی ہے رُو
حق کے چھڑے ہوئے ہیں جو یہ ساز دوستو
یہ بھی اسی جری کی ہے آواز دوستو
پھر حق ہے آفتاب لب بام اے حسینؓ
پھر بزم آب وگل میں ہے کہرام اے حسینؓ
پھر زندگی ہے سست و سبک گام اے حسینؓ
پھر حریت ہے مورد الزام اے حسینؓ
ذوق فساد ولولہ شر لئے ہوئے
پھر عصر نو کے شمر ہیں خنجر لئے ہوئے
مجروح پھر ہے عدل و مساوات کا شعار
اس بیسویں صدی میں ہے پھر طرفہ iiانتشار
پھر نائب یزید ہیں دنیا کے شہر یار
پھر کربلائے نو سے ہے نوع بشر دوچار
اے زندگی جلال شہ مشرقین دے
اس تازہ کربلا کو بھی عزم حسین ؓدے
آئین کشمکش سے ہے دنیا کی زیب و زین
ہرگام ایک بدر ہر ہو سانس اک حنین
بڑھتے رہو یو نہیں پے تسخیر مشرقین
سینوں میں بجلیاں ہوں زبانوں پہ یاحسینؓ
تم حیدری ہو‘ سینہ اژدر کو پھاڑ دو
اس خیبر جدید کا در بھی اُکھاڑ دو
اس مرثیہ کا خاتمہ اس بیت پر ہوا ہے ؎
دنیا تری نظیرشہادت لئے ہوئے
اب تک کھڑی ہے شمع ہدایت لئے ہوئے