روبیہ مریم روبی
’’زندگی ذرا ٹھہرو‘‘ معروف ناول نگار عطیہ ربانی صاحبہ کا تحریر کردہ ناول ہےجس کی اشاعت حال ہی میں پریس فار پیس نے کی ہے۔اس ناول کا انتساب مصنفہ نے ڈاکٹر صوفی فِیلے اور کچھ ایسے حقیقی کرداروں کے نام کیا ہے،جنہوں نے زندگی میں انہیں تحریک دی ،آگے بڑھنے کا حوصلہ دیااور اپنے افکار اور تربیت سے ان کی زندگی میں علم و آگہی کی روشنی بھر دی ۔علاوہ ازیں ناول کے شروع میں ناول کی اشاعت کا پس منظر بیان کیا گیا ہے ۔مصنفہ کے بقول ایک با کردار شخصیت سے متاثر ہو کر اس ناول کی بُنیاد رکھی گئی ہے۔اس ناول کی مدد سے قاری کو مستشرقین (جو لوگ قرآن پر تنقید کرنے کی غرض سے اس بابرکت کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں)کو سمجھنے اور ان کی قرآنِ کریم کی وجہ سے بدلتی زندگی کے بارے میں سمجھنے کا موقع ملے گا۔اس لحاظ سے یہ ناول اپنے آپ میں ایک منفرد اور انوکھا ناول ہے،جسے مصنفہ نے اپنے غائر مشاہدے سے لکھا ہے۔ان کے نزدیک اس کا مرکزی خیال اسلام سے متاثر ہوتے کرداروں کے گِرد گُھومتا ہےالبتہ یہ ایک ایسا ناول ہے جو مسلم اُمّہ کو اسلام کو سمجھنے کے لیے بھرپور تحریک دے گا۔اس کتاب پر جناب اشفاق حسین نے مختصر مگر پر اثر دیباچہ لکھا ہے۔اس کے بعد ناول کا ایک نظم سے ہوتا ہے۔ جس کا خُمار پوری کتاب پر نظر آتا ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ وہی نظم پورے ناول کا تِھیم ہے تو بے جا نہیں۔یہ کچھ ایسے کرداروں کی کہانی ہےجو مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں مگر آپس میں محبت کرتے ہیں۔ایک ایسا کردار نائل بھی ہےجو مسلمان لڑکی سے سچی محبت کرتا ہے اور محبت کی خاطر اپنا مذہب بدل کر اسے حاصل کر لیتا ہے۔ جب یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ وہ مسلمان نہیں ہوا تو اس کی مسلمان بیوی اس پر حملہ کر کے اُسے شدید زخمی کر دیتی ہے۔ تقریباً دس سال کی جدائی کے بعد دوبارہ ملتے ہیں۔کیسے ملتے ہیں؟ یہ تجسس ختم کرنے کے لیے تو یہ کتاب ہی پڑھی جا سکتی ہے۔
کہانی میں تجسس اور حسین موڑ آئے ہیں،جن کا آغاز تو غم سے ہوا مگر اختتام کبھی غم اور کبھی خوشی پر۔ بس یہی نام ہے زندگی کا۔نائل ناول کا مرکزی کردار ایک مسلمان لڑکی کی محبت میں گرفتار ہےاور اس کے دوست احباب اس کو مسلمان لڑکی سے شادی نہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ وہ اکثر اپنے دل میں اُٹھنے والے سوالات کے جواب اپنی دوست سے لیتا ہے۔وہ لڑکی اس غیر مسلم کے تمام سوالوں کا جواب دلائل سے دے کر اس کا دل بھی ایمان سے بھر دیتی ہے۔ان سب سوالوں کے جواب، جن چیزوں کو لے کر وہ یا اس کے دوست اسلام پر شک کرتے تھے۔مسلمان لڑکی ہمیشہ اسلامی قوانین کی پاسداری کرتی ہے۔ غیر مسلموں کے سامنے مسلم اقدار کو بیان کرتی ہے۔ وہ ایک پکی اور سچی مسلمان خاتون ہے۔ وہ ہمیشہ اسلام کا پرچار کرتی ہے۔ یہاں مصنفہ کی طبیعت کے بہت سے رنگ واضح ہوتے ہیں۔کبھی ایک عالمِ دین کہ طرح غیر مسلموں کے سامنے ناصحانہ واعظ کرتی ہیں تو کبھی ایک ڈاکٹر کی طرح سامنے بیٹھے لوگوں کی مسیحائی کرتی ہیں۔وہ غیر مسلم، ناسمجھ اور اسلام سے عاری لوگوں کو ایسے اسلام کی تعلیم دیتی ہیں، لگتا ہے جیسے کسی اوّل جماعت کے بچے کو کلاس میں کچھ سمجھا رہی ہیں۔ مثلاً وضو کے فرائض کو بہت سلیقے اور وضاحت سے بیان کیا ہےتا کہ سامنے والے کو کوئی شک و شبہ نہ رہے۔وہ اس میں کامیاب و کامران نظر آتی ہیں۔
ناول میں دو تہذیبوں کے تصادم اور ملاپ کو بھی موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔ کچھ جلد بازی میں جذباتی فیصلے کر بیٹھتے ہیںتو اس کا خمیازہ نوجوان نسل کو بھگتنا پڑتا ہے۔مثلاً کم عمری میں شادی کرنا۔ مصنفہ نے اس سماجی قبیح روایت پر بہت ہی منفرد اور پُراثر انداز میں قلم اٹھا کر کم عمری کی شادی کے نقصان بتا دئیے ہیں۔ اسلام کی رُو سے عورتوں کے حقوق کو جس طرح سے اس کہانی میں بیان کیا گیا،گویا بات سیدھی دل میں اترتی ہے۔ مشرقی معاشرہ بِلاشبہ آزاد ہو مگر اس کے قوانین قدرت کے تابع ہیں،یعنی مشرقی باشندے کو معلوم ہے کہ میرا کوئی اور بھی حساب کتاب کرنے والا ہےمگر مغرب اس قانون سے عاری ہے۔ اس کی آزادی کا مطلب ہے کہ انسان خود مختار ہے۔جو چاہے کر سکتا ہے۔قدرت یا خدا کا تصور نہیں۔ناول میں دو تہذیبوں کا تصادم صاف نظر آ رہا ہے جو بظاہر ایک ساتھ ہیں مگر دونوں کی اقدار،روایات اور ترجیحات الگ ہیں۔
پھر مصنفہ نے تہذیبوں کے شادی سے متعلق افکار کو بھی کرداروں کے ذریعے دلچسپ اور دل موہ لینے والے انداز میں بیان کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہر بات قلب و ذہن پر نقش ہوتی جا رہی ہے، اس ناول میں مغربی ممالک میں آباد لوگوں ںسمیت ہر مسلمان کے لیے اس کتاب میں اسلام اور اسلامی اقدار سے متعلق معلومات کا ایسا ذخیرہ موجود ہے کہ جس سے آنے والی کئی نسلوں کی اچھی تربیت کی جا سکتی ہے۔مصنفہ نے اسلام کی تعلیمات کو قاری تک ایک دلچسپ طریقے اور سلیقے سے پہنچانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔اللہ تعالیٰ ان کی کاوش کو قبول فرمائے اور ان کے لیے اس ناول کو صدقہ جاریہ بنائے۔