یاسین رشید میر
تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی اور فلاح و بہبود کا اہم ستون ہے۔ تاہم، ہمارے معاشرے میں دارالعلوم کی تعلیم کا نظام، جو زیادہ تر غریب بچوں کی دینی تعلیم پر مرکوز ہے، اکثر دنیاوی علوم کو نظر انداز کرتا ہے۔ یہ مضمون اس مسئلے پر روشنی ڈالنے اور اس کا حل پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ کیسے دینی اور دنیاوی تعلیم کو یکجا کرکے ان بچوں کا مستقبل روشن بنایا جاسکتا ہے۔اسلامی تعلیم کے مراکز، یعنی دارالعلوم، کا بنیادی مقصد دینی علوم کی تعلیم دینا ہے۔ ان اداروں کا قیام اس نیت سے ہوا تھا کہ یہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلباء اسلامی معاشرت کی خدمت کر سکیں اور دین کی ترویج میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ لیکن موجودہ دور کے تقاضے مختلف ہیں۔ صرف دینی تعلیم پر اکتفا کرنا عملی زندگی میں مشکلات پیدا کرتا ہے۔ دارالعلوم میں پڑھنے والے بچے اکثر غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والدین ان بچوں کو دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجتے ہیں تاکہ یہ بچے ایک عالم بن سکیں اور دین کی خدمت کر سکیں۔ لیکن جب یہ بچے تعلیم مکمل کرتے ہیں تو ان کے پاس دنیاوی علوم کی کمی ہوتی ہے۔ یہ کمی ان کے عملی زندگی میں مشکلات کا باعث بنتی ہے۔
اسلامی تاریخ میں ہمیں دینی اور دنیاوی تعلیم کی تقسیم کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور صحابہ کرام کی زندگیوں میں ہمیں دینی اور دنیاوی علوم کا بہترین امتزاج نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سب سے پہلی وحی میں فرمایا: ’’اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ‘‘ (سورہ العلق: 1) یعنی ’’پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا‘‘۔ یہاں پر اقرا کا مطلب ہے ’’پڑھ‘‘ یا ’’علم حاصل کرو‘‘، اور اس میں صرف دینی علم شامل نہیں بلکہ ہر قسم کا علم شامل ہے، جو دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی کے لیے ضروری ہے۔
دارالعلوم کا نصاب محدود ہوتا ہے اور دنیاوی علوم کو شامل نہیں کرتا۔ اس کی وجہ سے بچے دنیاوی معاملات سے بے خبر رہتے ہیں اور عملی زندگی میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ دارالعلوم کے نصاب میں دنیاوی علوم بھی شامل کئے جائیں۔ پیارے نبی حضرت محمدؐ کا فرمان ہے: ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔‘‘ اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ علم کی اہمیت صرف دینی علوم تک محدود نہیں بلکہ دنیاوی علوم بھی اس میں شامل ہیں۔صرف دینی تعلیم پر زور دینے سے مسلمانوں کی سوسائٹی دو حصوں میں بٹ جاتی ہے، مولوی اور غیر مولوی۔ بیشترمولوی خود کو اہم اور سب سے بڑے دیندار سمجھتے ہیں اور باقی لوگوں کو نابکار تصور کرتے ہیں۔ یہ تقسیم معاشرتی ترقی میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔
ایک بہترین مسلمان وہ ہے جو دینی اور دنیاوی دونوں علوم میں مہارت رکھتا ہو۔ اس طرح وہ معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی میدان میں بھی کامیاب ہوتا ہے اور دین کی خدمت بھی بہتر طور پر کرسکتا ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم بھی دینی چاہیے تاکہ وہ مستقبل میں کسی کے محتاج نہ رہیں اور معاشرے میں بہتر مقام حاصل کر سکیں۔اسلامی دنیا میں موجودہ تعلیمی نظام کی خامیاں اور ان کے اثرات کو سمجھنا ضروری ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں مسلمانوں کا تعلیمی معیار اور نصاب مختلف ہے، لیکن ایک بات مشترک ہے۔دنیاوی تعلیم کی کمی کی وجہ سے مسلمانوں کی ترقی میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں اور وہ عالمی سطح پر پیچھے رہ جاتے ہیں۔
دنیا کے مختلف ممالک میں کچھ ادارے دینی اور دنیاوی تعلیم کا امتزاج پیش کرتے ہیں۔ ان اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلباء نہ صرف دینی علوم میں ماہر ہوتے ہیں بلکہ دنیاوی علوم میں بھی کامیاب ہوتے ہیں۔ اس طرح کے ماڈل کو اپنانا ضروری ہے تاکہ ہمارے بچے بھی دنیا کے مختلف شعبوں میں کامیابی حاصل کر سکیں۔
حکومت اور معاشرتی تنظیموں کا کردار بھی اہم ہے۔ وہ دارالعلوم کے نظام تعلیم میں اصلاحات لا سکتے ہیں اور دنیاوی علوم کو نصاب میں شامل کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، وہ غریب بچوں کی مالی معاونت کر سکتے ہیں تاکہ وہ بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں اور معاشرتی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
اسلامی فلسفہ میں تعلیم کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں: “اور کہو: اے میرے رب! میرے علم میں اضافہ فرما۔” (سورہ طہ: 114) اس آیت سے ہمیں علم حاصل کرنے کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے، چاہے وہ دینی ہو یا دنیاوی۔اسلامی تاریخ میں بہت سے علماء نے دینی اور دنیاوی علوم میں مہارت حاصل کی اور ان کی خدمات آج بھی یاد کی جاتی ہیں۔ ابن سینا، ابن رشد، البیرونی، الخوارزمی، اور دیگر بہت سے علماء نے سائنس، فلسفہ، طب، ریاضی، اور دیگر شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ ان علماء کی زندگی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ دینی اور دنیاوی علوم کا امتزاج کیسے معاشرتی ترقی کا باعث بن سکتا ہے۔
موجودہ دور میں تعلیم کی اہمیت پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی اور عالمی اقتصادیات کے دور میں صرف دینی تعلیم پر اکتفا کرنا ناکافی ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کو جدید علوم سے بھی آراستہ کرنا ہوگا ،ہمارے معاشرے کے والدین کے لئے یہ بھی لازم ہے کہ عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق اپنے زیر تعلیم بچوں کو ٹیکنیکل تعلیم سے بھی آراستہ کرائیںتاکہ وہ ہُنر مند تعلیم و تربیت کی بنیادپر آگے بڑھیںاور روزگار کے حصول کا محتاج نہ رہیں۔جبکہ حکومت کے لئے لازم ہے کہ وہ تمام تعلیمی اداروں میں ہُنر مندانہ تعلیم و تربیت کا سلسلہ رائج کرائیں تاکہ حصول تعلیم کے دوران ہی طلباء و طالبات کو پیشہ ورانہ تعلیم کی اہلیت بھی حاصل ہوسکے اور مختلف شعبوں میں نمایاں مقام حاصل کر سکیں۔
یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ہم دارالعلوم کے نظام تعلیم میں اصلاحات کریں اور غریب بچوں کو دینی اور دنیاوی دونوں علوم سے آراستہ کریں۔ اس طرح ہم ایک مضبوط اور متوازن معاشرہ تشکیل دے سکیں گے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنے بچوں کا مستقبل بہتر بنا سکیں اور انہیں دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی حاصل ہو۔
(رابطہ۔ قاضی آباد ،ہندوارہ،9797842030)
[email protected]