ڈاکٹر آزاد احمد شاہ
اتحاد بین المسلمین کی اہمیت و ضرورت ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ دنیا کے سارے مسلمان چاہے وہ کسی علاقہ میں رہتے ہوں اور کسی نسل سے تعلق رکھتے ہوں، کوئی زبان بولتے ہوں، ایمانی رشتہ اخوت سے بندھے ہوئے ہیں۔ ان کا یہ باہمی تعلق خودتراشیدہ نہیں بلکہ جس خدا ئے واحد پر ایمان رکھتے ہیں اور جس رسولؐ کی امت ہیں،اس نے انہیں ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے ’’انما المؤمنون اخوۃ (سورہ حجرات) فرمانِ رسالت نے اس حقیقت کو بایں الفاظ مؤکد فرمایا ہے۔ المؤمن اخو المومن اور اس کے تقاضوں کی وضاحت میں فرمایا : المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ اس سلسلہ کی صریح نصوص بکثرت ہیں جو ملت اسلامیہ کی حیثیت اور مسلمانوں کے باہمی تعلق کو واضح کرتی ہیں۔ مسلمانوں کا ایمانی رشتہ دوسرے تمام رشتوں سے زیادہ محکم اور معتبر ہے۔ اگر چہ خدا کی شریعت خاندانی رشتوں اور دیگر انسانی تعلقات کے احترام کی تعلیم اور تاکید بھی فرماتی ہے۔ اس نے نہ صرف یہ کہ ان تعلقات اور رشتوں کو برقرار رکھا ہے بلکہ ان کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے بہت سے حقوق بھی متعین کئے ہیں۔ مثلاً پڑوسی (مسلم ہوں یا غیر مسلم) کے حقوق کو بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ عام انسانوں کے ساتھ حسن سلوک اور ہمدردی و خیر خواہی سے پیش آنے کو نہ صرف مباح بلکہ مستحسن قرار دیا ہے۔ مگر یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ ایمانی اخوت کے مد مقابل کسی کو فوقیت نہیں دی ہے۔ اس رشتہ کے ٹوٹنے سے بہت سے دوسرے رشتے بھی مجروح و متاثر ہو جاتے ہیں۔ مثلاً شوہر یا بیوی میں سے کوئی دائرہ ایمان سے نکل جائے تو زوجیت کا تعلق بھی ٹوٹ جاتا ہے۔ دوستی دشمنی میں اور تعلق اجنبیت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ایک مسلمان بیٹا مشرک و کافر والدین کے ساتھ عام حالات میں حسن سلوک کا مکلف ہے۔ لیکن اگر اسی حالت میں وہ دنیا سے رخصت ہو جائیں تو اُن کی مغفرت کے لئے دعا بھی نہیں کر سکتا۔ جبکہ ایک اجنبی مسلمان بھائی جس سے اس کا کوئی دور دور کا تعلق بھی نہ ہو، اس کی تیمارداری، عیادت، تعزیت اور مغفرت کے لئے دعا کرنا اس کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ مسلمانوں کے تحفظ کی ذمہ داری بھی دوسرے مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے۔ اگر کسی علاقہ میں مسلمانوں پر ظلم ہوتا ہے تو اس کے قریب تر رہنے والے مسلمانوں پر ان کی حمایت و امداد لازم ہے، اگر وہ اس کی استطاعت نہ رکھتے ہوں تو اُن کے قریب تر رہنے والے دوسرے مسلمانوں کا یہ ذمہ ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ یہ سلسلہ مشرق سے لیکر مغرب تک اور شمال سے جنوب تک دراز ہوتاچلا جاتا ہے۔
امّتِ مسلمہ کا اتحاد شیطانی قوتوں کی راہ میں سب سے بڑی مزاحم قوت رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور کے فرعونوں نے مسلمانوں کی وحدت کو ختم کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے۔آج بھی مغربی استعمار کی اولین ترجیح یہی ہے کہ مسلمانوں کو رنگ و نسل ، زبان اور علاقہ کے علاحدہ علاحدہ دائروں میں تقسیم کر دیا جائے، بلکہ جاہلانہ عصبیتوں کے تنگ خانوں میںجس قدر بھی بانٹا جا سکے بانٹ دیا جائے۔ گذشتہ دو صدیوں سے امت محمدیؐ کے وجود پر پے در پے حملے ہوتے رہے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ ان پر سرسری نظر ڈالتے ہی اس حقیقت کو با ٓسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ عناصر اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر ملت اسلامیہ متحد رہے گی تو ایک ایسی ناقابل شکست طاقت ہے جس کا مد مقابل اسے زیر نہیں کر سکتا۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمہ پر انہوں نے فتح یاب ہونے کے بعد بھی ضروری سمجھا کہ برائے نام خلافت (خلافت عثمانیہ) بھی باقی نہ رہے ۔ چنانچہ ترک ناداں کے ہاتھوں خلافت کی بوسیدہ قبا بھی تار تار کرا دی گئی۔ اس پربھی انہیں چین نہیں آیا اور انہوں نے عیارانہ منصوبہ بندی کے تحت کام شروع کر دیا جس کے نتیجہ میں مسلمان کبھی بھی امت کے قالب میں نہ ڈھل سکیں ۔ چنانچہ مسلم دنیا میں تقسیم در تقسیم اور شکست و ریخت کا مسلسل عمل جاری رہا۔ جسے پُرفریب الفاظ کے پردوں میں چھپایا جاتا ہے۔ نہ صرف یہ کہ یہ عمل جاری ہے بلکہ اس کو تیز سے تیز تر کر دیا گیا ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران برطانیہ کی طرف سے اعلانیہ یہ یقین دہانی کرائی جاتی تھی کہ ترکی ہم سے بر سر جنگ ہے اور بحیثیت فریق ہمارا دشمن ہے مگر ہمیں مسلمانوں کے خلیفہ اور منصب خلافت سے کوئی دشمنی نہیں اور آج حال یہ ہے کہ خلافت کا احیاء تو دور کی بات ہے، منصب خلافت کا تصور بھی محال بنا دیا گیا ہے۔
اگر چہ اتحاد ملت کی راہ کا سب سے بڑا پتھر عالمی استعمار ہے،مگر اس سے یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں ہے کہ ہمارے داخل میں کوئی خرابی یا کمزوری ایسی نہیں ہے جو ہمارے انتشار کا سبب نہ ہو بلکہ یوں کہا جا ئے تو زیادہ صحیح ہوگا کہ ہماری داخلی خرابیاں اور کمزوریاں ہی سب سے بڑھکر ہمیں متحد نہیں ہونے دے رہی ہیں۔ ملی وحدت کی ضرورت و اہمیت کو سمجھنے والوں اور اس کے لئے جدو جہد کرنے والوں کو پوری سنجیدگی اور گہرائی کے ساتھ ان سب پہلوؤں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ کوئی بڑامقصد محض تمناؤں کے ذریعہ حاصل نہیں ہو سکتا اور کوئی بڑی خرابی صرف سطحی کوششوں دور کی جاسکتی۔
عوامی سطح پر دیکھا جائے تو سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ مسلمانوں کا اسلام سے تعلق روایتی انداز کا ہوتا جا رہا ہے۔ وہ جس دین کو مانتے ہیں اس کو جاننے اور سمجھنے کی ضرورت بہت کم محسوس کرتے ہیں۔ وہ توحید خداوندی کے قائل ہیں مگر اس کی حقیقت اور تقاضوں سے پوری طرح واقف نہیں ہیں ۔وہ اطاعت خداوندی کا اقرار کرتے ہیں مگر غیر اللہ کی اطاعت و حاکمیت کی پیوندکاری بھی کرتے رہتے ہیں۔ عقیدۂ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں مگر دنیا پرستی کا مرض گھن کی طرح ان کے ایمان بالآخرت کو کھائے جا رہا ہے۔ دنیا پرستوں کے اقدار و معیار مسلمانوں کی معاشرت و معیشت پر چھائے چلے جا رہے ہیں ۔ اس طرح ان کی حالت بیک وقت دو کشتیوں کے سواروں جیسی ہو کر رہ گئی ہے ۔ وہ جس کتاب ہدایت کے امین و پاسبان ہیں اسی کی مخالف سمت چلے جا رہے ہیں اور انہیں احساس بھی نہیں ہوتا کہ سمت سفر کی یہ تبدیلی کس برے انجام تک پہنچاکر رہےگی۔ وہ جس رسولؐ کی عزت و ناموس کے تحفظ پر آج بھی جان لٹانے کا جذبہ رکھتے ہیں، اس کے اسوۂ حسنہ کی پیروی چند مراسم عبودیت اور چند معاشرتی علامات کے علاوہ اور کہاں ہو رہی ہے ؟ اس طرح کے سوالوں کا کوئی تسلی بخش جواب ان کے معاملات اور معمولات میں نہیں ملتا۔ ایک جامع شریعت رکھنے والی ملت کی گردن میں دشمنان دین کی تقلید اور تہذیب کا پھندا کتنا تنگ ہوتا جا رہا ہے، اس کا احساس بھی اب برائے نام ہی رہ گیا ہے۔ چنانچہ وہ اتحاد ملت کے خواہاں ہونے کے باوجود اس زہر کو نوش جان کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے جو اُن کے ملی وجود ہی کو ختم کرنے والا ہے۔ ان میں سے بہت کم لوگ اس راز سے واقف ہیں کہ اگر وہ اپنے فرض منصبی سے ناواقف و ناآشنا رہیں گے تو کوئی راہ ایسی نہیں ،جس پر چل کر وہ سربلند اور سرخ رو ہو سکیں ۔ یعنی اپنی ملت کو دوسری قوموں پر قیاس کرکے خود کو منظم کرنے والی مسلمان قوم نہ تو خودآشنا ہو سکتی اور نہ خدا آشنا۔ مسلمانوں کے اتحاد کی بنیاد اُن کے قومی مسائل ومشکلات نہیں بن سکتے، بلکہ جس مقام پر انہیں فائز کیا گیا اور جس خیر امت کا منصب انہیں عطا فرمایا گیا اس کی ادائیگی ہی انہیں تائید خداوندی کا حقدار بنا سکتی ہے اوراعتصام بحبل اللہ ہی انہیں تفریق و انتشار سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔
(موصوف ایک معروف اسلامک اسکالر اور ماہر تعلیم ہیں)
<[email protected]>