جس طرح ترقی کا سفر زندگی کے دوسرے شعبوں میں جاری ہے ، اسی طرح ذرائع ابلاغ کے میدان میں بھی پوری قوت اور تیز ی کے ساتھ جاری و ساری ہے ، بلکہ اس میدان میں ٹیکنالوجی کی ترقی دوسرے شعبہ ہائے زندگی کے مقابلے میں زیادہ تیز ہے ۔چنانچہ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا نے دُور دُور تک اپنی بات پہنچانے کو آسان کردیا اور اس کی رفتار ہوا کی رفتار سے بھی بڑھ گئی ،لیکن افسوس کہ مسلمان ان تمام مرحلوں میں مسلسل پسماندگی کا شکار ہیں۔جس کے نتیجےمیںدیگر اقوام نے پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ہتھیار سےاُمّت مسلمہ کے ملی مفادات ، تہذیبی اقدار ، قومی وقار اور دینی افکارکو زبردست زک پہنچا ہے۔ادھر بیس سے پچیس سال کے درمیان ابلاغ کے ایسے ذرائع عام ہوئے ، جنہیں ’سوشل میڈیا ‘ کہا جاتا ہے ، اس میں ابھی تک حکومت یا کسی خاص گروہ کی مکمل اجارہ داری نہیں ہے۔ اس میں خاصا تنوع بھی ہے، جس میں واٹس اپ ، فیس بک ، یوٹیوب ، ٹیوٹر ، اسکائپ وغیرہ شامل ہیں۔ گویایہ ایک سمندر ہے ، جس میں ہیرے اور موتی بھی ڈالے جاسکتے ہیں اور خس و خاشاک بھی، اس میں صاف شفاف پانی بھی اُنڈیلا جاسکتا ہے اور گندہ بدبودار فُضلہ بھی، اس سے دینی ، اخلاقی اور تعلیمی نقطۂ نظر سے مفید چیزیں بھی پہنچائی جاسکتی ہیں اور انسانی و اخلاقی اقدار کو تباہ کرنے والی چیزیں بھی ۔اس کا اثر اتنا وسیع ہوچکا ہے اور زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کا نفوذ کسی طرح نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا اور گزرنے والے ہر دن کے ساتھ اس کی اہمیت بڑھتی جارہی ہے۔تاہم ہمیں اس ذریعہ ابلاغ کے مثبت اور منفی اور مفید و نقصان دہ پہلوؤں پر نظر ڈال کر تجزیہ کرنا چاہئے کہ کیا اس سلسلے میں تمام مسلمانوں اور خاص کر ملت کی نوجوان نسل اور کمسن بچوںکی صحیح معنوں میںرہنمائی ہورہی ہے؟بغور دیکھا جائے تو سوشل میڈیا بھی اب جھوٹی خبریں پھیلانے کا ایک بڑا نیٹ ورک بن گیا ہے اور اکثر بہت سی ایسی جھوٹی باتیں کسی بغیر کسی تحقیق کے اس میں ڈال دی جاتی ہیں، جوکہ کثیف ہوتی ہیںاور جنہیںآگے بڑھانے میں اسلام نے منع کیا ہے جبکہ عصر حاضر میں اس ذریعہ ابلاغ کو نفرت کی آگ لگانے اور تفرقہ پیدا کرنے کے لئے بھی بکثرت استعمال کیا جاتا ہے، اور بعض کوتا ہ اندیش خود مسلمانوں کے درمیان مسلکی اختلافات کو بڑھاوا دینے میںاپنا رول ادا کررہے ہیں،ساتھ ہی اس ذریعہ ابلاغ کا سب سے منفی پہلو فحا شیت کی اشاعت اور بے حیائی کی تبلیغ بھی ہے۔بلاشبہ اس ذریعہ ابلاغ بہت سے مثبت اور مفید پہلو بھی ہیں اور اس کا صحیح استعمال کرکے مختلف سطح پراسلامی اور انسانی نقطۂ نظر سے بہت سےاچھے کام کئے جاسکتے ہیں ۔خصوصاً تعلیم کے لئے اب یہ ایک مؤثر ذریعہ بن چکا ہے اور جیسے ایک طالب علم کلاس روم میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتا ہے ، یا اپنے ٹیوٹر کے سامنے بیٹھ کر کلاس روم کی کمی کو پورا کرتا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ کسی کو دور دراز دیہات میں بیٹھے ہوئے طالب علم کے لئے بھی اس کے ذریعے مشرق و مغرب کے ماہر ترین اساتذہ سے کسب ِفیض کرنا ممکن ہے۔ صحت و علاج کے شعبے میں بھی اس سے مدد لی جارہی ہے ،اور ماہر ترین معالجین سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ موجودہ تناظر میں ضرورت اس بات کی ہے کہ سوشل میڈیا کا اچھے مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے اور اس کی مضرتوں سے نئی نسل کو بچایا جائے ، کیوںکہ جن چیزوں میں نفع اور نقصان دونوں پہلو ہوں اور اس ذریعے کو بالکل ختم کردینا ممکن نہ ہو تو اسلامی نقطۂ نظر سے اس کے لئے یہی حکم ہے کہ اسے مفید طریقے پر استعمال کیا جائے ،اس کے استعمال میں مثبت اور تعمیری پہلوئوں کو پیش نظر رکھا جائےاور نقصان دہ پہلوؤں سے بچا جائے۔ایک ایسے وقت میں جب دنیا گلوبل ولیج کی شکل اختیا ر کرچکی ہے اور ذرائع ابلاغ کے موثر ذرائع دنیا بھر میں پیغام رسانی کے لئے عام ہوچکے ہیںتو ہمارے لئے لازم ہے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ذرائع ابلاغ کے تمام مؤثر ذرائع کو اصلاح ِ معاشرہ ،دین مبین کی دعوت و تبلیغ ،اسلامی شعائر اور اسلامی افکار و نظریات کے ٖفروغ اوردفاع کے لیے استعمال کریںاور مثبت استعمال کے ذریعے اقوام عالم میں اسلام کے بارے میں بے بنیاد شکوک و شبہات ،مغربی دنیا اور غیر مسلم حلقوں کے اٹھائے گئے بے بنیاد اعتراضات و شبہات کے مثبت اور مدلل انداز میں جوابات دیے جائیں اور یہ ثابت کیا جائے کہ دین ِ اسلام انسانیت اور فطرت کے عین مطابق مذہب ہے۔