محمدمعین الدین
اسلام سے پہلے ہی اپنے پاکیزہ اخلاق کی وجہ سے’’طاہرہ‘‘کالقب پانے والی اورسیرتِ تیمی کے مطابق’’ سیدہ نسا قریش‘‘کاعظیم لقب رکھنے والی عرب کی ملکہ،ام المومنین حضرت سیدہ خدیجتہ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شان کاعالم یہ ہے کہ آپؓ،محبوب خداحضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں کھاناپیش کرنے کے لئے جلوہ گرہورہی ہیں اورآپ کی آمدسے پہلے حضرت جبریل امین بحکمِ خدا،بارگاہِ مصطفیٰؐ میں حاضرہوتے ہیں اورعرض کرتے ہیں،یارسول اللہ ؐ، یہ خدیجہ ؓآپؐکے پاس ایک برتن لے کرآرہی ہیں،اس میں سالن ہے،یاکھانایاکوئی مشروب،یہ جب آپؐکے پاس آئیں توآپؐاللّٰہ تعالیٰ عزوجل کی طرف سے اورمیری طرف سے ان کوسلام کہیں اوران کوجنّت میں ایسے گھرکی بشارت دیں، جس میں موتیوں کے محل ہیں اورجس میں کوئی شوروغوغااوررنج وملال نہیں ہوگا۔واہ واہ کیاشانِ اقدس ہے ام المومنین ملیکتہ العرب حضرت سیدہ خدیجتہ الکبریٰ ؓکی کہ کائنات کاخالق ومالک بھی آپؓ کوسلام بھیج رہاہے اورحضرت جبرائیلؑ بھی امام الانبیاؐکی بارگاہِ اقدس میں عرب کی ملکہ کی بارگاہ میں اپنے سلام کے لئے عرض کررہے ہیں۔
اے ملیکتہ العرب حضرت خدیجہ السلام
سارے نبیوں کاہے آقاتیرا دولہا السلام
ام المومنین حضرت سیدہ خدیجتہ الکبرٰی ؓوہ پہلی خاتون ہیں جنہیں قرآن مجید کی روسےسب سے پہلے اُم المومنین ہونے کا شرف حاصل ہوا،اس کے علاوہ ذاتی طور پرقرآن مجید میں آپ کے ایثار وقربانی کاتذکرہ موجود ہے۔پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ؐسے شادی سے پہلےحضرت خدیجہ ؓ بہت بڑے کاروبارکی مالکہ تھیں،آپ کے عظیم کاروانِ تجارت میں ہزاروں اونٹ تھے،جن کے ذریعے شام ،یمن،مصر وغیرہ کی طرف برابر آپکا سامان ِتجارت جاتا رہتاتھا۔شادی کے بعد آپ نے سارا مال اور ساری دولت حضور نبی کریم ؐکےقدموں میں ڈال دی تاکہ اسلام کی نشوونما کے کا م آسکے۔اُم المومنین حضرت خدیجتہ الکبریٰؓ انتہائی بافضیلت خاتون تھیں۔آپ کےوالدماجدخویلد ابن اسداور والدہ کا نام فاطمہ بنت زائدہ تھا۔ان دونوں کا سلسلہ نسب آگے جاکر حضور نبی کریمؐ کے سلسلہ نسب سے مل جاتا ہے،اور اس طرح آپ کی ذات گرامی حسب نسب کے اعتبار سے اس لائق تھی کہ زینت خانہ پیغمبر مصطفیٰؐ بن سکے۔آپکی ولادتِ باسعادت سال قبل ازعام الفیل اور 56سال قبل از ہجرت نبوی ؐہوئی۔آپ نے 56سال کی عمر میں وفات پائی اور مکہ کے مشہور قبرستان جنت المعلیٰ میں سپرد لحد ہوئیں۔حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حضرت جبرائیل آکر عرض گزار ہوئے،یارسول اللہ ؐیہ خدیجہ ہیں جوایک برتن لے کر آرہی ہیں،جس میں سالن اور کھانےپینے کی چیزیں ہیں،جب یہ آپکےپاس آئیں،تو انہیں ان کے ربّ کااور میرا سلام کہیےاور انہیں جنت میں موتیوں کے محل کی بشارت دے دیجئے۔جس میں نہ کوئی شورہوگا نہ کوئی تکلیف ہوگی۔یہ حدیث متفق علیہ ہے(الحدیث رقم2:اخرجہ البخاری فی الصحیح 9831\3)حضرت علیؓ سے روایت ہےکہ حضور نبی کریمؐ نے فرمایا:اپنے زمانے کی سب سے بہترین عورت مریم ہیں اور اس طرح اپنے زمانے کی سب سے بہترین عورت حضرت خدیجہ ہیں۔یہ حدیث متفقہ علیہ ہے۔اسی طرح حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور نبی کریم ؐنےزمین پر چار خطوط کھینچےاور دریافت فرمایا کہ تم جانتے ہوکہ یہ کیا ہے؟صحابہ کرامؓ نے عرض کیاکہ اللہ اور اُس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں،آپ ؐنے فرمایاکہ یہ جنت کی بہترین عورتیں ہیں،جو کہ حضرت خدیجہ بنت خویلد،حضرت فاطمہ بنت محمد،آسیہ بنت مزاحم زوجہ فرعون اور حضرت مریم بن عمران ہیں۔دس رمضان المبارک اُم المومنین حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ عنہا کایوم وفات ہے۔
حضرت خدیجہ ؓ،حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی زوجہ محترمہ تھیں۔حضورؐکا حضرت خدیجہ ؓکے ساتھ محبت کا یہ عالم تھاکہ اُن کی زندگی کے دوران آپؐ نے دوسرا نکاح نہیں فرمایا تھا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ عنہاکے بارے میں فرماتے ہیں،کہ ان سے بہتر مجھے کوئی بیوی نہیں ملی۔کیونکہ انہوں نے ایمان لاکر اُس وقت میرا ساتھ دیاجب کفار نے مجھ پر ظلم وستم کی حد کررکھی تھی۔انہوں نے اُس وقت میری مالی مددکی جب دوسروں نے مجھے اس سے محروم کررکھا تھا۔اس کے علاوہ اُن سے مجھے اللہ پاک نے اولاد کی نعمت سے سرفراز فرمایا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکی حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت تھی لیکن کیا آپ کے علم میں ہے کہ حضرت خدیجہ ؓکی نماز جنازہ کیوں نہیں پڑھائی گئی تھی کیونکہ اُس وقت نماز جنازہ سمیت پانچ وقت کی نماز فرض ہی نہیں ہوئی تھی۔اسی طرح رمضان ہونے کی وجہ سے کوئی فرد روزے سے نہ تھاکیونکہ اس وقت روزے بھی فرض نہیں ہوئے تھے۔اسی سال حضورؐکے محبوب چچاابوطالب اس دنیا سے پردہ فرما گئے تھےاور دو عظیم صدموں نےحضورصلی اللہ علیہ وسلم کوبہت مغموم کردیا، اسی وجہ سے اس سال کو عام الحزن یعنی غم کا سال کہا جاتاہے۔ حضرت سیدہ خدیجتہ الکبریٰ ؓکی وفات مدینہ کی ہجرت اور نماز فرض ہونے سے قبل اُسی سال ہوئی جب حضرت ابوطالب کی وفات ہوئی۔روایات میں آتاہےکہ انہیں جنت میں موتیوں سے تیارکردہ گھر ملےگا۔حضور نبی کریم ؐخود ان نکی قبر میں اترےاور اپنی سب سے غم گسارشریکِ حیات کودائمی اجل کے سپرد کیا۔آپ ؐکی حضرت خدیجہ ؓسےچھ اولادیں پیداہوئیں۔دوصاحبزادے جو بچپن میں انتقال کرگئےاورچارصاحبزادیاں پیدا ہوئیں۔حضرت قاسم بن محمد،آپؐکے سب سے بڑے بیٹے تھے،انہی کے نام پر آپکی کنیت ابوالقاسم تھی،ان کے بعد حضرت زینب بنت محمدؐ،آپکی سب سے بڑی صاحبزادی تھیں۔ان کے بعد حضرت عبداللہ بن محمدؐنے بہت کم عمرپائی چونکہ زمانہ نبوت میں پیداہوئے،اسی لیے طیب وطاہر کے لقب سے مشہورتھے۔ان کے بعد حضرت رقیہ بنت محمدؐ،ان کے بعد حضرت کلثوم بنت محمدؐاور آخر میں سیدہ کائنات حضرت فاطمہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا پیدا ہوئیں۔ان سب کی پیدائش میں ایک ایک سال کافرق تھا۔(آپؐ کے ایک صاحبزادے حضرتِ ابراہیم ؓ، آپ ؐ کی’’ام ولد‘‘ماریہ قبطیہ کے بطن سے پیداہوئے، جن کابچپن میں انتقال ہوا)حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ عنہااپنی اولاد کو بہت چاہتی تھیں کیونکہ یہ مالی طور پر مستحکم تھیں، اسی لیے عقبہ کی لونڈی سلمیٰ کو بچوں کی پرورش پر مقرر کیا،وہ ان کو کھلاتی اور دودھ پلاتی تھیں۔ازواج مطہرات میں حضرت خدیجہ ؓکوبعض خصوصیات حاصل ہیں، وہ آپؐ کی پہلی بیوی ہیں، جب وہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں توان کی عمر چالیس برس کے قریب تھی لیکن حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی زندگی میں دوسری شادی نہیں کی۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ ام المومنین حضرت سیدہ خدیجتہ الکبرٰیؓکے صدقے ہمیں حضور نبی کریم ؐکی شفاعت نصیب فرمائے۔آمین
<[email protected]>
���������������
عرب کی ملکہ۔ ام المؤمنین سیدہ خدیجتہ الکبریٰ ؓ