عرب ریاستیں

ہر  تھوڑے دن بعد رات میں آگ برساتا ہوا دھماکا خیز راکٹ سعودی عرب میں آسمان پر نمودار ہو کر یمن کی جنگ کی یاد دلاتا ہے۔ یہ میزائل حوثی ملیشیا کی طرف سے داغے جاتے ہیں، جنہیں ۲۰۱۵ء میں یمن میں نظامِ حکومت سے الگ کردیا گیا تھا۔ یہ میزائل ایک بے ضرر شئے کی طرح سعودی صحر امیں جاگرتے ہیں، لیکن تین سال گزرنے کے بعد ان کا ملبہ یہ نشاندہی کرتا ہے کہ شاید حوثی ناقابل شکست ہیں۔ ان میزائلوں کی رفتار اور حدود بڑھ چکی ہیں اور اب یہ سعودی شہر ریاض تک میں اپنے ہدف کو نشانہ بناتے ہیں۔ حالیہ دنوںریاض میں سعودی حکام نے فوجیوں کوایک تقریب میں مختصراً ان میزائلوں کے ملبے کے بارے میں آگاہ کیا۔ یہ ’’قیام‘‘ میزائل کا ملبہ ہے، اس کے ٹکڑوں میں جگہ جگہ ویلڈنگ کے نشان موجود ہیں، جو ٹکڑوں کے کاٹے اور جوڑے جانے کو ظاہر کرتا ہے اور اس پر واضح طور پر’’شاہد بخاری صنعتی گروپ‘‘ کی مہر نظر آرہی ہے۔ یہ گروپ اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ میں شامل ہے۔ ان میزائلوں کی موجودگی سعودیہ کے اس الزام کو تقویت دیتی ہے کہ حوثی باغی اور ایران ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ اسی الزام کے تحت سعودیہ نے حوثی بندرگاہوں کو بند کیا ہوا ہے۔ایران اور اس کے اتحادی عرب ریاستوں کے گرد گھیرا تنگ کر رہے ہیں۔ عرب ریاستوں کے چار دارلحکومت بغداد، دمشق، بیروت اور صنعا کو ایران کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ جنگ سعودیہ اور اس کے اتحادیوں کے خوف کو نمایاں کر رہی ہے۔ عرب ریاستیں امریکا کی ناراضی یا امریکا کا ساتھ چھوٹ جانے سے بھی خوف زدہ ہیں۔ سعودیہ کے مطابق حوثی حزب اللہ کے بہت قریب ہیں، جب کہ حزب اللہ کی پشت پر ایران ہے۔ حزب اللہ لبنان میں بھی ایک ایسی طاقت کے طور پر کام کر رہی ہے جو اسرائیل اور شامی حکومت کے لیے خوف کا با عث ہے۔ حوثیوں کے خلاف اتحاد میں سعودیہ نے متحدہ عرب امارات سمیت مصر کو شامل کیا ہے، اس کے علاوہ خلیج تعاون تنظیم، سنی ریاستیں اور یمنی ملیشیا کو بھی شامل کیا ہے۔ اپنی اس مہم جوئی کو سعودیہ توقع سے زیادہ عرصے تک تحریک دیتا رہا ہے۔ یہ اس مسئلے کا سیاسی حل ڈھونڈ رہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے ایک وزیر کے مطابق اس مسئلے کا فوجی حل موجود نہیں ہے، لیکن حوثیوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے فوج کا خوف ضروری ہے۔اقوام متحدہ کے حملہ نہ کرنے کے حکم کے باوجود اتحادیوں نے بڑی اور آخری محفوظ حوثی بندر گاہ پر حملہ کیا۔ اس کے نتائج بہت برے ہوسکتے ہیں، اس وقت دنیا ویسے بھی انسانیت کے بدترین بحران سے گزر رہی ہے۔ مغربی ریاستیں بھی جنگ کی طوالت سے پریشان ہیں۔ جتنی جنگ طویل ہوگی، اُتنا ہی ایران سعودی عرب کو اس میں اُلجھا دے گا اور حوثی اس دوران ایران کے ایجنٹ کے طور پر کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔مشرقِ وسطیٰ کے رہنما اس بات سے پریشان ہیں کہ وہ ایران سے زیادہ وسائل رکھتے ہیں اور ان کے اتحادی بھی طاقت ور ہیں لیکن اس کے باوجود ’’پراکسی‘‘ کے کھیل میں تہران ان سے آگے ہے۔ عرب رہنما یہ سوال پوچھتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ آخر کس طرح ایران کی کرنسی کی قدر بڑھ رہی ہے جب کہ ان کی کرنسی وہیں کی وہیں موجود ہے۔ اس کا جواب بہت آسان ہے، عرب ریاستوں نے مختلف عسکری گروہوں کو پیسوں کے ذریعے استعمال کرنے کی پالیسی اپنائی ہے، جب کہ ایران نے اپنی توجہ ایک جگہ مرکوز کی ہوئی ہے، اس نے ایک عسکری گروپ قدس فورس کے نام سے تیار کیا ہوا ہے، یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے حزب اللہ۔
مشرقِ وسطیٰ کی صورت حال اچھی نہیں ہے، امریکا اب ان کا وفادار حفاظتی گارڈ نہیں رہا ہے۔ اوبامہ کے دور حکومت میں تعلقات کشیدہ رہے، اوبامہ نے مشرقِ وسطیٰ سے توجہ ہٹا کر اپنی توجہ ایشیا پر مرکوز کر دی تھی۔ عرب بہار یہ کے دوران انہوں نے صدر حسنی مبارک کو بھی تنہا چھوڑ دیا، پھر ایران کی قدامت پسند حکومت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے ایٹمی معاہدہ بھی کیا، لیکن نتائج اس کے برعکس نکلے جب داعش کے جنگجوؤ ں نے عراق اور شام میں امریکا کے ساتھ جنگ جاری رکھی۔اگرچہ کہ ٹرمپ کی انتخابی مہم اسلام مخالف تھی لیکن اس کے باوجود عرب رہنماؤں شاہ سلمان اور جنرل سیسی نے ریاض کانفرس میں اس کے ساتھ جذبہ’’ خیر سگالی ‘‘کا اظہار کیا جہاں ان سب نے ایک چمکدار گلوب کے ساتھ تصویر کھنچوائی۔ ایک عرب وزیر کے مطابق ٹرمپ اوبامہ سے ہزار درجے بہتر ہے ، وہ کسی بھی شخصیت کی طاقت سے متاثر ہوکر اسے اپنا دوست نہیں بناتا۔ٹرمپ ایران کوطاقت کی وجہ سے جگہ دینے کے بجائے اپنا دشمن سمجھتا ہے اور اس سے مقابلہ کرنے کے لیے ذہنی طور تیار ہے۔عرب ریاستوں نے ٹرمپ کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا جس کی رُوسے اس نے اوبامہ اور ایران کے درمیان ہونے والا ایٹمی معاہدہ منسوخ کردیا۔ٹرمپ نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ دوسرے ملکوں کو اب یہ سمجھنا چاہیے کہ امریکا بہت جلد شام کی جنگ سے باہر آجائے گا۔عرب رہنما ٹرمپ کے اس بیان کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ امریکا کو مشرق وسطیٰ کے تیل کی دولت نے بے انتہا لالچ میں مبتلا کردیا ہے اور یہ اس لحاظ سے امریکا کی ضرورت بھی ہے کہ وہ اپنا اسلحہ عرب ریاستوں کو ہی فرو خت کرتا ہے۔ وائٹ ہاؤس میں شاہ سلمان سے اسلحے کے لین دین کے دوران ۵۲۵ملین ڈالرکا سودا کرتے ہوئے ٹرمپ نے بیا ن دیاکہ یہ رقم تو آپ کے لیے بہت کم ہے۔۲۰۱۷ء میں امریکا اور چین کے بعد تیسرے نمبر پر سعودیہ ہے جس نے اسلحہ کی مد میں سب سے زیادہ خرچ کیا۔ اس کے باوجود سعودیہ کی فوجی صلاحیت ایک سوالیہ نشان ہے۔ کچھ عر صے پہلے یمن میں سعودیہ نے ایک فضائی حملہ کیا جس میں حوثیوں کی ہلاکت ہوئی۔ اس کی خبرہیڈلائن بنی لیکن یہ بات بھی دنیا کو پتہ ہے کہ ٹارگٹ اپنے ہدف تک نہیں پہنچ سکا تھا، سوائے چند کو چھوڑ کر اکثریت کی یہی رائے ہے کہ سعودی آرمی کو یمن میں تعینات نہ کیا جائے۔
سعودی آ رمی کی بہ نسبت متحدہ عرب اَمارات کی فوج ایک بہترین فوج ہے۔ نیٹو کے ساتھ اتحاد کے بعد افغان جنگ کے دوران اس کی کارکردگی میں اضافہ ہوا ہے۔ یمن میں سعودی آرمی کے ساتھ اَمارات کی فوج کی کارکردگی معیاری ہے۔ اَمارات نے یمن میں’’ادین‘‘ کے علاقے کو حوثیوں اور مکالہ کے جنگجوؤں(القاعدہ کا گروپ) سے واپس لیا۔قطر کی طرح اَمارات نے بھی ملٹری کے اصول متعارف کرائے ہیں۔جیمس ماٹس کے مطابق امارات کی فوج امریکا کا خفیہ دفاع کرتی ہے، اسی لیے اس نے امارات کی فوج کو ’لٹل اسپارٹا‘ کے نام سے پکارا۔ متحدہ عرب امارات کے نائب وزیر خارجہ کے مطابق امریکا کی حکمت عملی عرب ریاستوں میں سرایت کرچکی ہےْ انہوں نے مزید کہا کہ ہم اب مشترکہ مفادات کے دور میں رہ رہے ہیں، ہمیں ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرنا چاہیے اور امریکا پر یہ ثابت کرنا چاہیے کہ ہم اس کے اتحادی بن سکتے ہیں۔اَمارات یمن کی جنگ بڑھانا چاہتا ہے، اگرامارات اس میں کامیاب نہ ہوا تو وہ شمالی علیحدگی پسندوں کے ساتھ اتحاد کرے گا۔ یہ اتحاد یمن کی جلاوطن حکومت کے غصے کو ہوا دے گا کیونکہ شمالی علیحدگی پسندوں سے اَمارات کا اتحادان کے اقتدار میں شمولیت کی طرف ایک اشارہ ہے۔ اسی دوران متحدہ عرب امارات صومالیہ اور پنٹ لینڈ میں ٹوٹے راستوں کو جوڑنے کے لیے بندرگاہ تیار کررہا ہے۔
متحدہ عرب اَمارات کے مقاصد ابھی واضح نہیں ہیں۔ ایشیا، یورپ اور افریقہ کو تجارت کے لیے جوڑ نے والی بندرگاہ باب المندیپ پر سکیورٹی کے حوالے سے اَمارات کافی محتاط ہے۔ پوری دنیا میں مختلف بندرگاہیں خرید کر دبئی پورٹ ورلڈ اور جبل علی پورٹ (دارلمندیپ سے گزرنے والی پورٹ) کی توسیع کر رہا ہے لیکن یمن اور صومالیہ میں غربت اور کشیدگی پھیلانے کے ساتھ ساتھ بندرگاہوں پر سرمایہ کاری حیران کن ہے۔ہوسکتا ہے کہ یہ دبئی کی ایک چال ہو جس میں وہ افریقہ کے آس پاس کی تمام بندرگاہوں پر کنٹرول حاصل کر کے، آنے والے دنوں میں افریقہ کے اندر اپنا اثر و رسوخ قائم کرے گا اور یمن کے ساحل پر قائم بندرگاہ ایک متبادل کے طور پر سامنے آئے گی جس کے ذریعے اسے دریائے ہرمز کے راستے سے نجات ملے گی اوریہ منصوبہ بندی ا س وقت بہت کام آئے گی، جب کبھی مستقبل میں ایران سے جنگ چھڑے گی۔جس طرح سے عرب اپنی دولت کو چھپا کر رکھتے ہیں بالکل اسی طرح روس کے معاملے میں ان کا رویہ مخفی ہے۔ روس کی شام میں مداخلت، بشارالاسد کی حمایت اور شیعہ فورس کی فضائی مدد پر عرب ریاستیں خاموش ہیں اور اس سے کہیں آگے سعودیہ روس کی قربت حاصل کرنے کے لیے اس کی خوشامد میں لگا ہو اہے۔ روس کے ساتھ اسلحے کی خریداری، دفاعی صنعتی معاہدے، ۲۰۱۶ء کے معاہدے کے مطابق تیل کی پیداوار میں کمی کر کے خام مال کی قیمت میں اضافے جیسے کام سعودیہ ترجیحی بنیادوں پر کر رہا ہے۔ سب سے حیرت ناک بات یہ ہے کہ عرب ریاستیں اپنے پرانے دشمن اسرائیل سے سفارتی تعلقات بہتر کر رہی ہیں۔ سعودی حکومت نےاب یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ اسرائیل کے پاس’’ اپنی ریاست کا حق‘‘ موجود ہے، بحرین کے مطابق اسرائیل ایران کی مخالفت میں دفاعی پالیسی کے لیے حق بجانب ہے۔ اس صورت حال میں یہ سوال بنتا ہے کہ عرب اور اسرائیلی رہنماؤں نے کب سےا علانیہ ملاقاتیں شروع کی ہیں؟
نوٹ : یہ تجزیاتی رپورٹEconomistکے شمارے جون ۲۹؍ ۲۰۱۸میںشائع ہوا۔