سید مصطفیٰ احمد
آج کی دنیا میں جہاں بھی نظر دوڑائی جائےتو ہر طرف ماحول سکون رُبا دکھائی دیتا ہے۔ ہرسُو اضطراب،بے چینی اور عدم سکون کی کیفیت طاری رہتی ہے،لوگوں کے جمائوڑےسکون ِ ناآشنائی میں حزم و ملال کا اظہار کرتے ہوئے تسکین ِ قلب کی خاطرسکون پذیری کے لئے سُکھ و قرا رکی تلاش میں بھٹک رہے ہیں۔ایسے ا شخاص کا ملنا اب محال ہوگیا ہے جو اطمینان ِقلب کی لازوال دولت کی مالا مالی سے مسکون ہوں۔ ہر کوئی شخص کسی نہ کسی وجہ سے عدمِ سکون کے عالم میں آہیں بھر تا ہوا نظر آرہا ہے۔ کوئی کسی شخص کی جدائی میںغارتِ سکون کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب گیا ہے، تو کوئی کسی کے ہونے سے بے چینی کا شکار ہوچکا ہے۔کوئی روزگار کی تلاش میں دربدر کی ٹھوکریں کھانے کے بعد اضطرابیت کا مجسمہ بن گیا ہے اور کوئی دوسرا روزگار کے ذریعے پیسوں کےجبال اکٹھا کرنا چاہتا ہے۔ بیشتر لوگ دھوپ کی تپش کی وجہ سے بےسکونی کے عالم میں نالاں ہیں اور کچھ افراد سردی کی شدت سے سکون سے کوسوں دور ہیں۔اس طرح کی اَن گنت مثالیں سامنے آرہی ہیں جن سے یہ بات بالکل صاف ہوجاتی ہے کہ زندگی کی اس دوڑ میں کہیں نہ کہیں
اضطرابیت ،بے قراری ،بے چینی اور عدم سکون کے مکروہ کیڑے ہمارے اندر اپنی جگہ پختہ بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے کون سے کیڑے یا بالفاظ دیگر کونسے وجوہات ہیں جن کی وجہ سےآج کا انسان عدم سکون کے دلدل میں دُھنستا ہی چلا جارہا ہے اور جس سے نکلنے کی کوئی بھی صورت ہمیں دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ مندرجہ ذیل سطروں میں کچھ وجوہات کا مختصراً ذکر کیا جارہا ہے۔
پہلی وجہ ہے نفس پرستی:۔نفس لوامہ کے بدمست ہاتھی نے بیشتر لوگوں کی زندگیوں میں خواہشات کے اتنے لمبے اور بڑے ڈھیرے ڈالے ہیں کہ سکون جیسے لفظ کا ان کی زندگیوں میں پایا جانا لگ بھگ محال ہے۔ جب نفس پرستی کا جنون سر چڑھ کر بولتا ہے تو پھر قرار پانا دیوانوں کا خواب جیسابن جاتاہے۔اس کو کسی شاعر نے بہت خوبصورت انداز میں اس طرح بیان کیا ہے کہ ’’قرار پا نہ سکے ہم دو گھڑی کے لیے، تمام عمر ترستے رہے خوشی کے لیے‘‘ ۔دوسری وجہ ہے دیکھا دیکھی:۔ ہمارے زندگی اب دوسروں کو دیکھ ہی گزر جاتی ہیں۔ ہمارے خیالات دوسرے لوگوں کے اذہان کی اختراع ہیں۔ ہم نے بظاہر اپنی دِکھنے والی زندگیوں کو دوسرے لوگوں کی خواہشات اور خوشنودیوں پر منحصر رکھا ہے، جس کی وجہ سے بےسکونی کے تھپیڑے ہم سب کو ہر آن ایک جگہ سے اُٹھا کر دوسری جگہ پر پھینک دیتے ہیں، ظاہر ہے کہ دوسروں کے اشاروں پر چلنے والی زندگی کبھی بھی باعث سکون نہیں ہوسکتی ہے۔ تیسری وجہ ہے جہالت:۔ زندگی میں قرار اور سکون کی آخری پناہ گاہ ہے کہ انسان اندر سے باہر کی طرف جینا شروع کردے۔ اس کے برعکس جو شخص باہر سے اندر کی طرف جینا شروع کرتا ہے، وہ تباہی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اندرونی شانتی کے لیے اندر سے باہر کی طرف جینا لازمی ہے، باہر کا سکون بھی کوئی سکون ہے! دماغ، دل یا قلب اور اندر کی وسیع کائنات ہماری نظروں سے اوجھل ہے۔ اِن اعضاء کا سکون دائمی سکون کی ضمانت ہے، اس سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ جس جہالت میں ہم سب پھنس چکے ہیں،وہ ہم سب کو باہر سے اندر جینے پر مجبور کرتی ہے، اس سے ہم سب کو باہر نکلنا ہوگا۔ چوتھی اور آخری وجہ ہے موت کا ڈر:۔ موت سے کسی کو فرار نہیں۔ موت سے ڈرنا پاگل پن کی انتہا ہے۔ سب سے واضح سچ موت ہے۔ ہم کو چاہیے تھا کہ زندگی سے بھاگے اور موت کی طرف جائیں۔ اس کے بجائے ہم نے اس کے برعکس رول ادا کیا ہے۔ ہم سب موت سے بھاگ کر زندگی کی طرف آرہے ہیں لیکن اس سے سکون میسر ہونا محال ہے۔ اگر ہم نے موت کی تیاریاں کی ہوتیں، تو ہم سب کی زندگیوں میں سکون کے چشمے پھوٹے ہوتے۔
عدمِ سکون کی شدت میں تب ہی کمی آسکتی ہے جب خواہشات نفس کو روکا جائے۔ مال کوگِن گِن کر رکھنے کے بجائے ضروریات زندگی کی خاطر کمایا جائے۔ لوگوں کی جھوٹی تعریفوں میں آکر اپنے دماغ اور دل کو بےچینیوں کی وادیوں میں دھکیل دینے سے باز آجانا چاہیے۔ اپنے من میں ڈوب کر خود بےسکونی کے کیڑوں کو پاکیزہ زندگی گزارنے کے ہتھیار سے ختم کیا جائے۔ دنیا میں گھر بنانے سے بہتر ہے کہ کھانا بدوش کی زندگی گزاری جائے۔ سامان سو برس رکھنے کے بجائے پل پل کی خبر رکھ کر سکون اور اطمینان کو گلے لگایا جائے۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہماری زندگیوں میں اصلی سکون کی بارش برسائے اور دنیا اور آخرت کی اچھائیاں ہمارے نصیب میں عطا فرمائے۔اختتام اس شعر کے ساتھ کرتا جائوں کہ؎
یہ کشت زار یہ سبزہ یہ وادیٔ گُل پوش
سکون دشت یہ صحرا کا منظر خاموش
[email protected]