عبادت انسان کی بنیادی جبلت ہے۔ اس سے روح کو غذا اور تازگی ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چند مٹھی بھر دہریوں کو چھوڑ کر دنیا کے تمام انسان خواہ وہ کسی مذہب، ملک اور قوم سے تعلق رکھتے ہوں، اپنے عقیدے کے مطابق کسی نہ کسی کی عبادت کرتے ہیں اور اس عمل سے قلبی سکون اور روحانی طمانیت پاتے ہیں۔ کوئی مقدس شخصیات ، کوئی سورج اور چاند ، کوئی دریا پہاڑ، پیڑپودوں، جانور اور حشرات الارض ، زندوں اور مردوں ، کوئی مورتی اور پتھر ، کوئی آگ ہوا اور پانی کو پوجتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں جو جہاں جس کو آقایا اپنے لئے فائدہ مند مانتا ہے یا جس سے ڈرتا یا خوف کھاتا ہے، اس کی پوجا کرتا ہے۔ تمدنی فرق کے ساتھ ہر قوم یا گروہ اپنے معبود کی عبادت مندرجہ ذیل طریقے سے کرتی ہے:(1) سب سے پہلے معبود کے سامنے کھڑے ہونا، حضوری اور حاضری ہے۔ اس کے سامنے سرکو جھکانا، کمر کو جھکانا، زمین پر منہ کے بل لیٹ جانا، جوڑنا یا مرادوں کی جھولی پھیلانا۔ یہ عبادت کی مختلف شکلیں ہیں جسے آپ مختلف معبدوں میں لوگوں کو کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔(2) عبادت کے دوسری قسم تسبیح یا منتراُچّارن ہے۔ لوگ اپنے معبود کا نام زبان پر لاتے ہیں اور اس کا ورد کرتے ہیں، تسبیح یا مالا پھیرتے ہیں ، سوبار، ہزار بار یا لاکھ بار اس کو دہراتے رہتے ہیں۔(3) عبادت کی تیسری قسم اپنی مذہبی کتاب کا پاٹھ کر ناہے جس میں لوگ اپنی مذہبی کتاب کو نہایت ادب و احترام کے ساتھ، پاک صاف ہوکر اور بیٹھ کر اطمینان سے پڑھتے ہیں۔(4) عبادت کا چوتھا طریقہ اُپواس ہے یعنی مخصوص اوقات میں بھوکا پیاسا رہ کریا پھر کوئی خاص چیز نہ کھا کر اپنے معبود کو خوش کرنے اور اس کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔(5) عبادت کا پانچواں طریقہ اپنے معبود یا معبودوں کی تعریف بیان کرنا، بھجن کر نایا اس کا گن گان کرنا ہے۔(6) عبادت کا چھٹا طریقہ تیرتھ یا ترا اور درشن ہے۔ جس مذہب کے لوگ جن مقامات کو مقدس مانتے ہیں ،وہاں اپنے پاپ اور گناہوں کو دھونے ، خود کو پاک و صاف کرنے، نیکی اور پُن پانے کے لئے ان مقامات کی زیارت کرنے جاتے ہیں اور وہاں سے روحانی فیضان حاصل کرتے ہیں۔ اس میں مقدس مقامات کی زیارت ، پوجا پاٹھ، درشن اور پریکرما شامل ہیں۔(7) عبادت کی ساتویں قسم قربانی یا بھینٹ چڑھانا ہے۔ مختلف مذاہب کے لوگ مختلف اوقات میں اپنے معبود کی خوشنودی کے لئے جانور کی قربانی یا بھینٹ چڑھاتے ہیں اور اس سے اپنی خود سپردگی اور سمرپن کا اظہار کرتے ہیں۔(8) عبادت کی آٹھویں قسم دان دکشنا دینا ہے جس میں لوگ غریبوں اور مفلوک الحال لوگوں کو کچھ صدقہ خیرات دیتے ہیں تاکہ انھیں نیکی حاصل ہو۔(9) عبادت کی نویں قسم سچی اور اچھی باتیں کرنا اور لوگوں کو اچھائیوں کی تلقین کرنا اور برائیوں سے منع کرنا ہے۔ تبلیغ، تذکیر، تعلیم ، پروچن ، ست سنگ، پربھات پھیری وغیرہ کرنا۔(10) عبادت کی دسویں قسم لوگوں کی بناد کھائے اور بنا احسان جتائے محتاجوں خدمت یا سیوا کرنا ہے۔ بھوکوں کو کھانا کھلانا، غریبوں کی مدد کرنا، بیماروں کے لئے دوا علاج کا انتظام کرنا، لنگر چلوانا اور اپنے ہاتھ سے مختلف خدمات انجام دینا(11) عبادت کی گیارہویں قسم لوگوں کو نقصان اور تکلیف سے بچانا ہے اور ان کی بھلائی کے لئے کام کرنا ہے۔ ظلم اور انیائے کے وقت اُن کا ساتھ دینا ۔ بیماری اور آفت کے وقت مدد کو آگے آنا، ریلیف بانٹنا اور لوگوں کو راحت پہنچانا۔
فرد اور سماج کوئی بھی ہو اور وہ کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو، وہ اپنے طریقوں سے مراسم عبودیت یعنی اپنی بندگی بجالاتا ہے، جس کا بنیادی مقصد اپنے معبود کے سامنے حضوری اور خود سپردگی ہے اور بندوں کی مدد ہے۔ اس میں جو چیز جوہری فرق پیدا کرتی ہے، وہ اخلاص ِنیت ہے اور اس سے عبادت میں روح سموجاتی ہے۔ ہندوبے شمار خدائوں کو پوجتے ہیں اور آواگون کے قائل ہیں۔ ان کی مذہبی کتابوں میں پاپ پن ، لوک پرلوک، سورگ نرک کی کلپنا تو ملتی ہے لیکن زندگی کا رُخ خالص مادی ہے اور وہ دو انتہائوں میں جیتے ہیں۔ گرہست جیون ہے جو مادی حصول کو ہی کامیابی مانتا ہے۔ دوسرا برہم ہستھ آشرم ہے جو سب کچھ تیاگ کر کے جوگ دھارن کرنے یعنی ر ہبانیت یا ترک ِدنیا کرنے کی بات کرتا ہے جس کو وہ ادھیاتم یعنی روحانیت کی سب سے اونچی منزل مانتے ہیں۔
عیسائیت عبادت اور خدمت سے عبارت ہے۔ یہ دین تثلیث یعنی تین خداؤں کا قائل ہے اور خدائی میں ماں، بیٹا اور روح القدس تینوں کو برابر کا شریک مانتا ہے بلکہ ماں بیٹے کے آگے خدا کی بھی نہیں چلتی ہے، وہ جسے چاہیں معاف کردیں اور جسے چاہیں کامیاب کردیں۔ یوں عملاً خدا کے بجائے ماں بیٹے کی پوجا ہوتی ہے۔ انہی کے سامنے سر جھکایا جاتا ہے، انہی کی حمدو ثنا ہوتی ہے، انہی کے نام سے قربانی اور خیرات کی جاتی ہے۔ یہاں بھی انسانیت دوانتہائوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک طرف خالص مادیت ہے ، دوسری طرف مکمل رہبانیت اور اس کو ’’روحانیت کی معراج ‘‘مانا جاتا ہے۔ عیسائیت عقیدۂ آخرت پر یقین رکھتی ہے مگر کفارہ (atonement ) کے فلسفے نے لوگوں کو نیکی بدی اور اس کے اچھے برے انجام سے آزاد کردیا ہے۔ عیسائی ہوگئے تو گویا بخشے بخشائے ہوگئے ،اخلاق و اعمال خواہ جیسے بھی ہوں۔
یہود خود کو انبیائے کرام ؑ کی اولاد اور تمام مخلوقات میں اشرف مانتے ہیں، گویا دنیا کی تخلیق اُنہیں کے لئے کی گئی ہے۔ ساری دنیا ان کی غلام اور ان کی خدمت پر معمور ہے۔ یہودیت بھی دین توحید ہونے کے باوجود شرک کے دلدل میں پھنسی ہے۔ چونکہ اس کو اپنی نجات کا پورا یقین ہے،اس لئے خود کو روحانیت کے اونچے مقام پر فائز مانتی ہے۔بدھ مت کسی خدا کے وجود کا قائل نہیں۔ اس لئے اس دھرم کو ماننے والوں نے گوتم بدھ کو ہی خدامان لیا اور اسی کے سامنے تمام تر مراسم ِعبودیت ادا کرتے ہیں۔ یہ مذہب انسانوں کو دنیا کے دُکھوں سے نجات دلانے کا دعویٰ رکھتا ہے۔ یہ بھی ہندومت کی طرح آواگون اور نروان کا قائل ہے ۔ بھارت میں سکھ مت ، جین مت اور کچھ دوسرے دھرم پائے جاتے ہیں جن میں بعض مماثلتیں بھی ہیں اور تھوڑا بہت فرق بھی ہے۔ بالعموم یہ ہندو مت کی تہذیب و ثقافت کے آئینہ دار ہیں اور انہیں اقدار اور اعمال کی پاسداری کرتے ہیں۔
اسلام میں عبادت: مذاہب کے اس مجموعے میں اسلام بالکل الگ کھڑا ہے۔ اس کا عقیدہ واضح ، طریقۂ عبادت متعین اور نظام اخلاق مربوط و مستحکم ہے۔ اسلام ا للہ کی وحدانیت کا داعی ہی نہیں بلکہ اسی کو خالق ومالک اور حاکم مانتا ہے، دنیا اسی کی تخلیق ہے اوراُسی کا امر ہر چیز پر چلتا ہے۔ اس کا کوئی ساتھی ، ساجھی، شریک اور برابر نہیں ہے۔ نہ یہ کسی سے جنا ہے نہ اس سے کو ئی جنا ہے ۔ دین ِاسلام تمام انبیائے کرام ؑ کے ذریعے انسانی دنیا میں آیا،جن کے اخیر پر خاتم النبین محمد عربی ؐ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے۔ اسلام کی کتاب قرآن کریم ہے۔ دین ِحق روز جزا یعنی آخرت کی جوابدہی کا تصور دیتا ہے، جہاں ہر انسان اپنے قول و عمل، ایمان اور معاملات کا خود ذمہ دار ہے۔ آخرت کی عدالت میں انسانوں کو فرداً فرداً اجر بھی ملے گا ،سزائیں بھی ہوں گی اور معافیاں بھی ہوںگی۔ اسلام میں خالص خدا کی بندگی ہوتی ہے، رسولؐ کی اطاعت اور محبت پائی جاتی ہے،قرآن کے حکم کی بجاآوری ہوتی ہے۔ یہاں روحانی سکون ایمان ،ذکر اللہ ، مسجد، گھر، بازار ، کھیت، روزگار، بیوی،بچے،ا قرباء، پڑوسی، دوست اور مسافر سب کے درمیان بہ حیثیت مسلمان رہ کر حاصل کیا جاتا ہے۔ اسلام میں رُوحانی تسکین مسجد یا حجرے کے گوشے میں بیٹھ کر یا کسی جنگل یا پہاڑ پر جاکر دھونی رمانے کا نام نہیں ہے بلکہ دنیا اور دنیا کے معاملات میں گھرے رہتے ہوئے زوراورجبر، ظلم اور گناہ سے بچتے ہوئے تقویٰ کے ساتھ معاملات زندگی نبھانے کا نام ہے۔ اسلام میں روحانیت کا مطلب عقیدے کی تطہیر، معاملات کی بہتری، اخلاق کی پاکیزگی ،نیز انسانیت کی خدمت ، حق کی پاسداری اور عدل و توازن سے عبارت ہے۔ انسانوں سے ہمدردی اور انسانی مسائل حل کرنے کی کوشش اس کے لازمی حصہ ہیں جو انسانی سماج میں رہ کر اجتماعیت کے تقاضے کے تحت ہی پورا کیا جاسکتا ہے۔ یہی وہ جوہری فرق ہے جو اسلامی عبادات کو دیگر مذاہب کے مراسم عبودیت سے ممیز اور ممتاز کرتا ہے ۔اسلام میں کسی شخص کا ہوا میں اُڑنے اور پانی پر چلنے سے اس کی روحانیت ثابت نہیں ہوتی ۔ وہ اس زمین پر آدمی کی طرح رہنے اور زندگی گزارنے میں کتنا کامیاب ہے ،اسی چیز سے اس کی روحانی حیثیت اور ایمانی درجۂ واضح ہوتا ہے۔ قرآن رُوحانیت کی توضیح و تشریح کے لئے تقویٰ اور احسان کی اصطلاحیں استعمال کر تا ہے اور انہی دو اصطلاحوں سے اسلامی روحانیت کی تشکیل ہوتی ہے ۔ اس کے لئے قرآن و سنت کے احکا مات پر خلوص ِ دلا ورا ستقامت سے عمل پیرا ہونا کافی ہے۔
رابطہ:سابق وائس چیرمین، بہار انٹر میڈیٹ ایجو کیشن کونسل
abuzarkamaluddin.com
9934700848