جس طرح جسمانی غذا کی ضروریات کے لئے کھاناپینالازم ہے اورروحانی ارتقاء کے لئے عبادات اہم ہے،اسی طرح علمی ضروریات کے لئے مطالعہ اہمیت رکھتاہے۔ مشہور چینی مقولہ ہے’’جس روزکوئی شخص اپنے مطالعہ اورمعلومات میںاضافہ نہیںکرتا وہ دن اس کے لئے بے کارجاتاہے‘‘۔ ترقی یافتہ قوموں کے عروج میںجوعوامل ہوتے ہیں ، ان میں اہم چیز ان کاکثرت مطالعہ ہوتاہے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاںذوق ِمطالعہ کارجحان کم ہوتا جارہاہے۔ حالانکہ قرآن وحدیث میںعلم حاصل کرنے پرکافی زوردیاگیاہے۔ عرب نیوزمیںچھپی ایک تحقیق سے پتہ چلتاہے کہ جہاں اوسطاً ایک امریکی سال میںگیارہ کتابیں؛ایک برطانوی ۷کتابیںپڑھتاہے،وہی ایک عرب سال میں اوسطاً صرف ایک چوتھائی صفحہ کامطالعہ کرتاہے۔
اہل علم کی زندگی کا حسین ترین باب ان کامطالعہ ہوتاہے ۔عرفان احمدکی مرتب کردہ کتاب ’’میرامطالعہ‘‘ عالم اسلام کے ۲۰؍عظیم شخصیتوں کے اسی حسین ترین باب کانچوڑ ہے بلکہ یہ ان کے علمی سفرنامہ کی رُودادہے۔آج سے ۲۰سال قبل تابش مہدی کی مرتب کردہ ’’میرامطالعہ ‘‘ نام سے ہندوستان سے ایک کتاب چھپی تھی لیکن زیرنظر کتاب اسی لحاظ سے اہم ہے کیونکہ ان میں جن ۲۰افرادکے مطالعہ کومرتب کیاگیا ہے ،ان کاتعلق مختلف شعبہ ہائے زندگی سے ہے۔ مرتب کااحسان ہے کہ انہوںنے چندصفحات میںبڑے لوگوں کی زندگی کے اہم ترین گوشوں کوقارئین تک پہنچایاہے۔ اس کتاب میں جن افرادکے سفرِمطالعہ کوشامل کیا ہے،ان میںعالم اسلام کے مفکر احمدجاوید،ڈاکٹرمحموداحمدغازی،محمدسہیل عمر اوردانشورصحافی عامرہاشم خاکوانی خاص طورپرقابل ذکرہیں۔
سبھی اہل علم شخصیات کے علمی سفرنامہ سے پتہ چلتاہے کہ ان حضرات نے جہاںمولانا اشرف علی تھانوی،مولانامودودی جیسی دینی شخصیتوں کامطالعہ کیاہے،وہیں دوسری طرف عصمت چغتائی،سعادت حسن منٹو وغیرہ کوبھی پڑھاہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مطالعہ کے سلسلے میںانسان کوتنگ نظر یا بخیل نہیںرہناچاہیے۔ہمہ جہت اورمتنوع موضوعات پرپڑھنے سے انسان کی فکرگہری ہوجاتی ہے۔یہ بھی معلوم ہواکہ مطالعہ کی عادت بچپن میںہی ڈالنی چاہیے۔ مطالعہ کی عادت کیسے پیدا ہو،اس سلسلے میںپاکستان کے عظیم مفکراحمدجاوید ر قم طرازہیں:’’میرامشورہ ہرایک سے یہی رہتاہے کہ پڑھے لکھے لوگوں کی صحبت میںبیٹھاکرو،انشاء اللہ مہینے بعدہی تم خودکتابیں ڈھونڈتے نظرآؤگے اوراپنی مصروفیات میںسے ترددکرکے وقت نکالوگے‘‘۔ بڑی شخصیات کے مطالعاتی شوق کوپروان چڑھانے میںابن صفی اورنسیم حجازی کااہم رول رہاہے۔یہ دونوںمصنفین قارئین میں مطالعے کی لت ڈالتے ہیں۔دانشور،صحافی،عامرہاشم خاکوانی نسیم حجازی کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’میںسمجھتاہوں کہ ہرطالب علم اورنوجوان کونسیم حجازی پڑھناچاہیے …..نسیم حجازی کے ناولوں میںحب الوطنی ،مضبوط کرداراورملک وقوم کے لئے کچھ کرگزرنے کے ساتھ ساتھ پاکیزہ جذبات اورمحبت کے خوبصورت تصورات پیداہوتے ہیں……. دنیاجہاں میںبچوں کے کرداروں کے لئے سپرہیروز کومتعارف کرایاجاتا۔ یہی کام نسیم حجازی نے کیا،فرق صرف یہ ہے کہ انہوںنے تاریخی ہیروزکا انتخاب کیااورانہیںکمال مہارت کے ساتھ ذہنوں میںراسخ کردیا‘‘۔
طارق جان نسیم حجازی کے بارے میںلکھتے ہیں:
’’وہ یقینا ہماری قوم کے محسنوں میںسے ہیں،انہوںنے اپنے ہرقاری کو متاثرکیا۔انہیںرلانااورتڑپانادونوںآتے تھے‘‘۔
کسی بھی مصنف کامطالعہ کرتے ہوئے یہ بات ذہن میںرکھنی چاہیے کہ جس وقت مصنف نے یہ کتاب لکھی ہے،اس وقت کے حالات کیاتھے، کیونکہ مصنف اپنے وقت کے حالات سے متاثرہوئے بغیر نہیںرہتا۔ ہرمصنف کااپنا الگ اسلوب ہوتاہے۔مطالعہ کرتے وقت اس بات کابھی خیال رکھناچاہیے۔ مولاناآزاد کے اسلوب کے بارے میں احمدجاویدصاحب ر قمطراز ہے:’’ابوالکلام آزادکی تحریر میںمعنی مغلوب ہوتے ہیں، اسلوب غالب ہوتاہے اوران کی تحریر مدلل نہیںتحکمانہ ہوتی ہے‘‘۔ چونکہ آئے دن بہت سی کتابیں لکھی جاتی ہے،کتابوں کاانتخاب اورمطالعہ کیسے کرنا چاہیے۔ڈاکٹرمحموداحمدغازی رقمطرازہیں:ـ
’’کچھ کتابیں ہوتی ہیںجن پرایک نظرڈال لیناکافی ہوتاہے۔دس پندرہ منٹ کے لئے نظرڈالیں،اندازہ ہوجاتاہے کہ کیسی کتاب ہے…..البتہ کچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیں،ان کودوتین گھنٹے دیکھناپڑتاہے۔کچھ کتابیںایسی ہوتی ہیں جوایک بارپڑھنے کی ہوتی ہیں ،کچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیںجوساری زندگی ساتھ رہتی ہیں‘‘۔طارق جان جوکہ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز میں سینرفیلوہے،رقمطرازہے:’’عالی جاہ عزت بگوچ کی کتاب ’Islam between East and West‘کے بارے میںلکھتے ہیں:’’میںنے یہ کتاب آٹھ بارپڑھی ہوگی اورہرباران کی کتاب کاتاثرمجھ پرگہراہوتاگیا‘‘۔
علم کی دنیامیںاستدلال کام کرتاہے ۔ اگرمصنف کے پاس دلیل ،آج نہیںتوکل وہ اپنی بات اہل علم سے منواتی ہے۔اہل علم کے مطالعاتی سفرمیں دیکھنے میں ملاکہ چاہے کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رہاہو،وہ مولانا مودودیؒ کی کتابوں سے متاثر ہوئے بغیرنہیںرہ پاتا۔کتاب سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ ادب کامطالعہ ناگزیرہے۔ صحافت کے نمایاں استادڈاکٹرطاہرمسعود لکھتے ہیں ’’ادبی مطالعہ نہ ہوتوانسان کی شخصیت ادھورے پن کاشکارہوجاتی ہے۔آدمی باطنی طورپربہت Richہوتاہے۔ بہت زیادہ Cultural Behaviourismاس کے اندرپیداہوتاہے،شائستگی آتی ہے،نتیجتاً وہ بہترانسان بنتاہے‘‘۔ استاداحمدجاویداس حوالے سے رقمطرازہے:
’’ادبی مطالعہ ناگزیرہے۔ایک تویہ کہ اس سے آپ کوزبان کاعلم حاصل ہوتاہے۔ ادبی مطالعے کے بغیر زبان کاعلم حاصل کرنے کاکوئی دوسراذریعہ نہیںہے۔ اوردوسرا فائدہ اس کایہ ہے کہ اس سے آپ کاجمالیاتی شعورتربیت پاتاہے۔یہ دونوں مقاصد اتنے بڑے اوراہم ہیںکہ ان کونظراندازکرناگویاانسانوں کی طرح زندگی گزارنے سے دست بردارہوناہے۔ میرے نزدیک وہ انسان نہیںجس کولفظ کاعلم نہیں‘‘۔
مذکورہ کتاب میں ڈاکٹرمحموداحمدغازی اپنے مطالعاتی سفرمیں مولانامودودیؒ کی کتابوں کے حوالے سے جوبات لکھتے ہیں،وہ حیرت پیداکرتی ہیں۔ڈاکٹرصاحب رقمطرازہیں:
’’مولانا(مودودی)کی جن کتابوں سے لوگ متاثرہوتے ہیں،وہ ’’خلافت وملوکیت‘‘،’’قرآن کی چاربنیادی اصطلاحیں‘‘اور’’تجدیدواحیائے دین‘‘ہیں۔ ان کتابوں نے مجھے کم متاثرکیا۔ یہ مجھے مولاناکے معیار کی کتابیں معلوم نہیںہوتیں‘‘۔ حالانکہ مولانا کی فکر ان ’’قرآن کی چاربنیادی اصطلاحیں‘‘اور’’تجدیداحیائے دین ‘‘ سے ہی واضح ہوجاتی ہے۔مولانا بنیادی طورمفکراسلام ہے اورن کی فکر کارُخ بنیادی طور ان ہی کتابوںسے واضح ہوجاتاہے۔ اس کتاب کے بارے میں استاداحمدجاویدصاحب رقمطرازہیں:’’قرآن کی چاربنیادی اصطلاحیں،ان کی اہم ترین اوربنیادی کتاب ہیں‘‘۔ مزیدلکھتے ہیں :’’اگرمولانامودودی صاحب کی دوتین نمائندہ تحریریں منتخب کی جائیںتو’قرآن کی چاربنیادی اصطلاحیں‘ضرورشامل ہوںگی‘‘۔تجدیدواحیائے دین میںمولانانے خوبصورتی سے تاریخ کامطالعہ کرکے تجدیدواحیاء پرعلم کے موتی بکھرے ہیں۔ ’خلافت و ملوکیت‘میںمولانانے قرآن وسنت کی کسوٹی پر ہرتاریخی واقعہ بغیرکسی لاگ لپیٹ کے پرکھاہے اوربتایاہے کہ معصوم عن الخطاء صرف اورصرف نبی امی ﷺ کی ذات گرامی ہیں۔ ڈاکٹرعبیداللہ فہد لکھتے ہیں:’’مولانا مودودی نے خلافت کی ملوکیت میں منتقلی کے اسباب کایہ تنقیدی مطالعہ نہ پیش کیاہوتاتوتاریخ اسلام میں تجدیدواصلاح مساعی وتحریکات کی اسلامی توجیح نہ پیش کی جاسکتی تھی اوروقت کے ہرحکمران کو بجاطورپر یہ حق حاصل ہوتاکہ وہ اپنی حکومت کو اسلامی حکومت کہتا‘‘۔
اسی طرح پاکستان کے سابق بیروکریٹ، کالم نویس اورتجزیہ نگار اوریامقبول جان اس کتاب کے اپنے مطالعاتی سفرمیںلکھتے ہیں:’’فلسفہ کبھی مسلمانوںکاموضوع نہیںرہا، مسلمان جب بھی فلسفہ میںآئے ہیں، وہ تباہ و بربادہوئے ہیں، ابن رشدؔ،الکندیؔ،معتزلہ یہ سب فلسفہ کی بدولت بربادہوئے۔ مسلمانوںکاموضوع اورمضمون معاشرہ ہے،اورمعاشرہ میںسائنس آتی ہے‘‘۔ فاضل مصنف کایہ دعویٰ کئی لحاظ سے تحقیق طلب ہے۔ پہلی بات یہ کہ جوبھی علم دنیامیںبرسروجودآیا،اس کاحاصل کرنا مسلما ن علماء اوردانشوروں کی مجبوری ہے۔ فلسفہ بنیادی طورپر چارعلوم پرمشتمل ہے،(۱)الجبرااورریاضی (۲)منطق(۳)دینیات(۴)نیچرل سائنس۔جن فقہا کو علم فلسفہ سے اختلاف رہاہے،ان کو صرف تھیالوجی کے اس حصے سے اختلاف رہاہے،جس کامضمون عقیدہ رہاہے۔ یہ الگ بات ہے کہ انہوںنے بھی فلسفہ کے بارے میں اٹھائے گئے سوالات کاجواب خودبھی فلسفیانہ اندازمیںدیاہے۔فلسفہ کی وجہ سے دنیامیں سائنس کاوجود ہواکیونکہ فلسفہ نے کائنات کے متعلق مختلف سوالات اٹھائے،جس وجہ سے سائنس برسرِوجودآیا۔ ساتھ ہی مختلف مباحث کی وجہ سے بین مذاہب مکالموں کاچلن عام ہوا۔ اجتہادی مزاج پیداکرنے میں بھی فلسفے کا رول رہاہے۔ انسان کوکائنات پرغوروفکر کرنے کی طرف مائل کیا جوکہ عین قرآنی مزاج ہے،البتہ دیگرعلوم کی طرح اسلامی مفکرین یہ چاہتے ہیں کہ ہرعلم کو قرآن وسنت کی کسوٹی پر تولاجائے۔دوسری بات فلسفہ میں مسلمانوںنے گراںقدرخدمات انجام دی ۔یعقوب الکندیؔمسلمانوںکے بڑے فلسفی رہے ہیں،سولہوی صدی کے ایک مغربی مفکر انہیں دنیائے تاریخ کے دس ذہین ترین انسانوںمیںشامل کرتے ہیں۔فارابی کودنیا کا معلم ثانی کہاگیاہے۔امام غزالی کے فلسفے سے جدیدفلسفے کے بانی ڈیکارٹؔ اورکانٹؔ تک نے استفادہ کیاہے۔ ہیومؔ کاقول ہے کہ امام غزالی نے مجھے خوابِ غفلت سے بیدارکیا۔ ابن رشدؔ کی عقلیت کے افکارکولے کرہی قرونِ وسطیٰ کاپس ماندہ یورپ سائنسی یورپ بنا۔ حیران کن امریہ ہے کہ یعقوب الکندیؔ،فارابی، ابن سیناؔ ،امام غزالیؔ اورابن رشدؔصرف فلسفی ہی نہیں،بلکہ دنیا کے عظیم سائنس دان شمارہوتے ہیںجن کے نام پر چاند پرکتنے گڑھوں (crator) ،پہاڑوں اورمیدانوں کے نام رکھے گئے ہیں۔
کتابیات کے عنوان سے اس کے کتاب کے آخرمیں چھ صفحات ہیں۔ جن میں اُن کتابوں کانام دیاگیا ہے،جس کاذکرکتاب میںہواہے۔اس فہرست سے جہاںقاری کم سے کم وقت میںاہم ترین کتابوں کی جانکاری حاصل کرسکتاہے، وہیںیہ کمی محسوس ہوئی کہ ان میںاکثرکتابوںکے مصنفین کانام درج نہیںہے۔ امید ہے اشاعت ثانی میں اس کمی کوپوراکیاجائے گا۔ کتاب ’’میرامطالعہ‘‘۳۰۰بڑے صفحات پرمشتمل عمدہ گیٹ اَپ میں Emel Publication Islamabad (Pak)نے شائع کی ہے۔ اردو میںبہت کم کتابیں اتنی معیاری طباعت سے شائع ہوئی ہے۔ کتاب سے معلوم چلتاہے کہ مرتب کااس سلسلے کوآگے بڑھانے کاارادہ ہے۔ امیدہے اس کارِخیرکوجلدسے جلد تکمیل تک پہنچائے گے۔
نوٹ : یہ مضمون۲۳؍اپریل ’’عالمی یومِ کتب‘‘کی مناسبت سے لکھی گیا ہے