10دسمبر کو ہر سال طول و عرض عالم میں حقوق بشر کو یاد کیا جاتا ہے۔ کشمیر میں مخصوصاََ اِس دن اُن سب واقعات و حادثات کو یاد کیا جاتا ہے جس کا سامنا یہاں کے عوام الناس کو کرنا پڑتا ہے۔کشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے جس سے یہاں ایک مزاحمتی تحریک وجود میں آئی ہے۔اِس مزاحمتی تحریک کا سامنا ایک ایسی ریاستی طاقت سے ہے جس کے وسائل لا محدود ہیں ۔مزاحمتی تحریک کے خلاف ریاستی طاقت کے بے دریغ استعمال سے حقوق بشر کی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں ۔حقوق بشر کی عالمی تنظیمیںاِس کا نوٹس بھی لیتی ہیں لیکن ریاست کبھی کبھار ہی اِن رپورٹوں پہ توجہ دیتی ہیں اور شاز و نادر ہی کسی واقع کی تحقیق ہوتی ہے۔ تحقیق کے نتائج اگر منظر عام پہ آتے بھی ہیں تب بھی حقوق بشر کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوتی۔ریاست کا نظریہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کیلئے کسی بھی خلاف ورزی کو جائز قرار دیا جا سکتا ہے ۔دیکھا جائے تو متنازعہ علاقوں میں ریاستی زیادتیاں ایک معمول بنتی جا رہی ہیں حالانکہ یہ حقوق بشر کی عالمی تنظیموں کے تعین کردہ اصولوں کے خلاف ہے۔دیکھا جائے تو حقوق بشر تاریخ کے اولین دور سے ہی انسانی توجہ جلب کئے ہوئے ہے۔
ریاست کا پہلا تصور یونان میں آج گئے کم و بیش 2500سال پہلے منظر عام پہ آیا ۔یہ تصور افلاطون (Plato)نے دیا لیکن وہ ریاستی سیاست سے اَس قدر عاجز ہوئے کہ اُنہوں نے اپنی مدرسے اکیڈمیا (Academia) میں جائے عافیت ڈھونڈھی اور یہی حال ارسطو (Aristotle) کا رہا جنہوں نے یونان میں ایک اور مدرسے لائسیم (Lyceum)کی بنیاد ڈالی۔افلاطون و ارسطو سے پہلے سقراط (Socrates) نے ذاتی اغراض رکھنے والے عناصر کے خلاف نو جوانوں اور پسماندہ طبقوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے یونان میں آواز بلند کی۔ وہ قید کر لئے گئے اور اُن کی سزا یہ مقرر ہوئی کہ وہ زہر پی کے اپنی زندگی کا خاتمہ کریں۔اِس زہر کو ہملاک (Hemlock)کہا جاتا تھا۔سقراط نے زہر پینا قبول کیالیکن حقوق بشر کے تحفظ کیلئے ایستادہ رہے حالانکہ جیسا کہ کہا جاتا ہے اُن کے جیلر نے اُن کو جیل سے نکل جانے کا راستہ فراہم کیا تھا۔
یونان میں جبکہ ریاست،سیاست و حقوق بشر کے بارے میں بحث و مباحثہ و اقدامات جاری و ساری تھے ایران میں عظیم ایرانی شہنشاہ سائرس (Cyrus the Great) نے تاریخ انسانی میں پہلی دفعہ حقوق بشر کا چارٹر شائع کیا۔یہ حقوق بشر کی پہلی دستاویز مانی جاتی ہے۔ یونان میں ریاستی سیاست میں اخلاقی قدروں کے تحفظ کی خاطر ایک فلاسفر سٹیٹس مین (Philosopher Statesman)کی پیشنہاد ہوئی۔ ایسے ادوار بہت کم آئے جہاں ایک فلاسفر نے جس کی نظر وسیع ہو و بے طرف ریا ستی امور کی زمام سنبھالی ہو۔ معروف مورخوں کو ایسا حکمراں مدینہ کی چھوٹی سی ریاست میں نظر آیا جہاں امور ریاست و سیاست کے نگہباں آنحضورؐ تھے۔حقوق بشر کی نگہبانی کیلئے آنحضور ؐنے مدینہ میں مہاجرین مکہ،انصار مدینہ و مدینہ کے نواحی علاقوں میں بسنے والے یہودی قبیلوں کی ایک دولت مشترکہ قائم کی جس میں سب کے حقوق کا برابر خیال رکھا گیا۔ یہودیوں نے پہلے تو دولت مشترکہ کے قیام کو قبول کیا لیکن چونکہ یہ قوم شروع و ہمیشہ سے ہی تسلط پسند رہی ہے جو کبھی سیاسی اور کبھی اقتصادی تسلط کے روپ میں سامنے آیا اسلئے وہ جلد ہی دولت مشترکہ سے باہر ہوئے۔ اُس کے بعد آنحضورؐ نے انصار میں مہاجرین کے مابین مواخات (برادری) کا رشتہ قائم کیا جس کے بموجب جو کچھ بھی کسی انصار کے پاس تھا اُس کا نصف حصہ اُن کے مہاجر بھائی کو ملا۔
قوم یہود کبھی بھی مساوی حقوق کے قائل نہیں رہی باوجود اینکہ یہودی مذہب کے قیام سے پہلے عبرانی (یہودی نسلاََ عبرانی کہلاتے ہیں) مصر میں فرعونی عتاب کا شکار ہوئے اور اِس عتاب سے اُنہیں بچانے کیلئے حضرت موسی ؑ کی ذات محترم کام آئی۔ یہ حضرت موسی ؑ کی پیغمبرانہ للکار تھی جو حقوق بشر کے دفاع میں فرعونی دربارمیں بلند ہوئی۔ اِس سے پہلے نمرود کے دربار میں احکام اللہی کے مطابق زندگی گذارنے کے حق کے دفاع میں حضرت ابراہیم ؑ کی آواز بلند ہوئی ۔ حضرت موسی ؑ ، حضرت داؤد ؑ و حضرت سلیمان ؑ کے پیامبرانہ دور کے بعد جب قوم یہود اپنی غلط کاریوں کی وجہ سے رومیوں کے غلام بنے تو حضرت عیسی ؑ ایک نیا پیغام لے کے عالمی صحنہ پہ نمودار ہوئے۔وہ یہودیوں کو بچانے کیلئے سامنے آئے تھے اور یہو دیوں کو یہ خبر بھی تھی کہ ایک مسیحا کا ظہور اُن کے بیچوں بیچ ہو گا لیکن جب حضرت عیسی ؑکا ظہور ہوا تو اُنہوں نے نہ صرف اُنہیں پہچاننے سے انکار کیا بلکہ یہودی مذہبی عقیدوں کے خلاف بغاوت کرنے کے الزام میں اُنہیں رومی گورنر پو نٹیس پیلیٹ (Pontius Pilate) کے دربار میں لے گئے ۔حضرت ابراہیم ؑ و حضرت موسی ؑ کی مانند حضرت عیسی ؑ کی صدای احتجاج رومی گورنر کے دربار میں گونج اٹھی۔ یہ آواز بھی حقوق بشر کے دفاع میں تھی جس کی سزا میںاُنہیں صلیب پہ لٹکانے کی سزا سنائی گئی لیکن وہ اُس سے پہلے ہی آسمانوں پہ اٹھا لئے گئے۔
حقوق بشر کا مدعا و مقصد انسانی زندگی کا وقار بلند کرنا ہے نہ صرف مادی دائرے میں بلکہ اخلاقی و روحانی دائرے میں بھی اور جو بھی ذی وقار پیغمبراں حضرت آدم ؑ کے زمانے سے آخریں نبی آنحضور ؐ کے زمانے تک آئے اُن کی کوشش یہی رہی کہ انسانیت کا وقار بلند سے بلند تر ہو جائے جبکہ نمرود سے لے کے فرعونوں تک ظالم و جابر حکمرانوں نے حقوق بشر کو پامال کر کے رکھ دیا اور یہ یہی کچھ عصر حاضر میں بھی دنیا کے مختلف ممالک میں ہو رہا ہے ۔ اِس کی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں ۔ امریکہ میں سفید فام نسل نے جس طرح صدیوں سیاہ فاموں کے حقوق کی پامالی کی وہ تاریخ انسانی کے سیاہ ترین ابواب میں منعکس ہوا ہے۔ اِسی مناسبت سے جس طرح بھارتی سماج میں طبقہ بندی سے نچلے ذاتوں کے حقوق کی پامالی ہوئی بلکہ آج بھی ہو رہی ہے وہ بھی انسانوں میں تفریق برتنے کی بد ترین مثالوں میں ہے ۔مہاتما گاندھی نے ہندو سماج میں اُنہیں ہریجن کہہ کے پکارا یعنی بھگوان کے جنے لیکن زمانے کے ستائی ہوئی نچلی ذاتوں کے کچھ رہبروں نے ہریجن نام کو ترحم کے زمرے میں قرار دے کے ٹھکرا دیا۔بھارتی آئین میں مساوی حقوق کی گر چہ ضمانت دی گئی ہے پھر بھی روایت پسند امتیاز برتنے پر تلے ہوئے نظر آتے ہیں اور یہی کچھ امریکہ کے بارے میں کہا جا سکتا ہے گر چہ وہاں پہ اِس حد تک بیداری آ چکی ہے کہ ایک سیاہ فامم بارک اوباما کو دو بار صدر منتخب کیا گیاالبتہ پھر بھی گاہ بگاہ امریکہ میں نسلی تشدد کی خبریں ملتی رہتی ہیں۔
کشمیر میں حقوق بشر کی پامالی کی داستاں لمبی ہے۔ یہ سبھی مانتے ہیں کہ کشمیر وا قعی ایک مسلہ ہے حتّی بھارت بھی گر چہ بھارت کی نظر میں خط متارکہ کے آر پار کا کشمیر بلا شرکت غیرے اُس کا حصہ ہے ۔بھارت کے دعوے کی بنیاد وہ الحاق ہے جو کہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ 1947ء میں کیا۔ بھارت البتہ الحاق کی شرائط کو نادیدہ لیتا ہے جس میں بھارت کی وہ یقیں دہانیاں بھی شامل ہیں جس کے بموجب استصواب رائے سے مسلے کا حل ہونا قرار پایا ۔اقوام متحدہ کی قرار دادوں میں بھی حق خود ارادیت کو بنیادی اصول مانتے ہوئے رائے شماری کی تلقین کی گئی البتہ یہ حق جو حقوق بشر کا ایک بنیادی حق ہے ابھی تک کشمیر کے ضمن میں اجرا نہیں ہو سکا ہے۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق حق خود ارادیت کی تعریف یوں کی گئی ہے کہ یہ وہ حق ہے جو افراد پہ مشتمل اُس گروپ پہ عائد ہوتا ہے جن کاایک منفرد نسلی ،لسانی،مذہبی و جغرافیائی تشخص ہو۔بھارت دیش کا دعوہ ہے کہ ہمالیہ کی بلندیوں سے لے کے سمندروں کے ساحل تک ایسے ہزاروں گروہ ہیں جو نسلی ،لسانی،مذہبی و جغرافیائی تشخص میں منفرد ہیں اور ایسے میں آبادی کے ہر گروہ کو حق خود ارادیت کا حق دیا جائے تو بھارت بکھر کے رہ جائے گا۔اِس کے جواب میں کشمیری حریت پسندوں کا مانناہے کہ ریاست جموں و کشمیر کے بغیر بھارت نے کہیں بھی بین الاقوامی فورم پہ حق خود ارادیت کے اصول کو اپنانے کا قول و قرار نہیں کیا ہے۔
بھارت کا یہ بھی دعوہ ہے کہ کشمیر میں اُسے غیر معمولی حالات کا سامنا ہے جو سرحد پار سے ملٹنسی کی پشت پناہی سے وجود میں آیا ہے۔غیر معمولی حالات کو سخت قوانین اجرا کرنے کی دلیل مانا جاتا ہے مثلاََ افسپا (AFSPA)و پی ایس اے(PSA)اور دور گذشتہ میں پوٹا(POTA)۔حالیہ ایام میں سرکاری اطلاعات کے مطابق ریاست جموں و کشمیر میں 900 قیدی جیلوں میں بند ہیں ۔یہ قیدی ریاستی جیلوں اور ریاست کے باہر جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ اِن میں سے 42 قیدی ایسے ہیں جن کی سزا طول عمر کی قید تجویز ہوئی ہے ۔298 ایسے قیدی ہیں جو پبلک سیفٹی ایکٹ (Public Safety Act) کے تحت نظر بند ہیں ۔48 ایسے قیدیوں کا بھی ذکر ہے جو دہلی کے تہاڑ جیل میں نظر بند ہیں جہاں حال ہی میں کچھ کشمیری قیدیوں کی مار کٹائی کا سانحہ بھی شاہ سرخیوں میں نظر آیا۔ بھارت کے اِس دعوے کو کہ اُسے کشمیر میں غیر معمولی حالات کا سامنا ہے بین الاقوامی قوانین میں جانچنے کی ضرورت ہے جہاں غیر معمولی حالات میں بھی حقوق بشر کا احترام کرنے کی تلقین کی گئی ہے ۔ملکی قوانین کے اجرا میں جن پانبدیوں کی تلقین بین الاقوامی قوانین میں کی گئی اُس پہ بھارت نے بھی دستخط کئے ہیں ۔چونکہ بھارت نے اُسکا اقرار کیا ہوا ہے لہذا اُن پابندیوں کا پاس بھارت کی اخلاقی ذمہ واری ہے ۔ ملکی قوانین کے اجرا میں بین الاقوامی پابندیوں کا اطلاق کیسے ہونا چاہیے اِس کا جائزہ لینا ضروری ہے تاکہ یہ پرکھا جا سکے کہ کس حد تک بین الاقوامی پابندیوں کا اجرا ہو رہا ہے۔
بین الاقوامی مقرارت سول و سیاسی حقوق پہ عائد ہوتے ہیں ۔ اِن مقررات کے مطابق ایمرجنسی یا ایسا کہیں غیر معمولی حالات میںبین الاقوامی مقرارت ( [International Covenant on Civil and Political Rights (ICCPR)] کی دفعہ 4 کا اطلاق کیا جا سکتا ہے۔ دفعہ 4کی شق واحد ((4:1)ایمرجنسی کیلئے قانونی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ دفعہ (4:1)کی جزؤیات میں آیا ہے کہ ’’ایمرجنسی کے وقت جس سے ملک کو خطرہ لا حق ہواور جس کا اعلان سرکاری سطح پہ کیا گیا ہوایسے ممالک جو کہ موجودہ مقرارت (Covenant )کی پارٹی ہوں مقرارت (Covenant ) کے بالعکس ایسے اقدامات اٹھا سکتے ہیں جو حالات سے نبٹنے کیلئے لازمی ہو بشرطیکہ ایسے اقدامات دیگر قوانین بین الملی کے منافی نہ ہوں جن کا نفاز اُن پہ لازم ہے ثانیاََ ـ جس میں رنگ،نسل،جنس، مذہب و سماجی بنیاد کی بنا پہ غیر عادی سلوک روا نہ رکھا جائے‘‘ ۔دفعہ 4کی شق واحد (4:1)کی شرائط سخت ہیں جس میں کسی بھی ملک کو کسی بھی حد تک جانے کی اجازت نہیں ہے گر چہ دفعہ 4 کے مطابق غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات کی بہ شرائط ثانوی اجازت ہے۔ دفعہ 4 کی شق دوم (4:2) کے مطابق ایسے ممالک پہ جو غیر معمولی حالات میںدفعہ (4:1) کا اطلاق کریں پر کئی ایک پابندیاں عائدہیںمثلاََ وہ کئی دوسری دفعات کے منافی عمل نہیں کر سکتیں جن میں دفعات 6،7،8 (پراگراف اول و دوم)11،15،16اور18 شامل ہیں۔اِ ن سب دفعات کی تفصیلات اِس کالم میں نہیں سما سکتیں البتہ چند ایک کا جائزہ لینا کشمیر کے حالات و واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے ضروری ہے۔
دفعہ 6شق واحد (6:1) کے مطابق’’ ہر ایک فرد بشر کو زندہ رہنے کا بنیادی حق ہے، اِس حق کا قانونی دفاع ہونا چاہیے اور کسی کو بھی بے وجہ زندگی سے محروم نہیں کرنا چاہیے ‘‘ جبکہ دفعہ 7 کے مطابق’’کسی کو بھی تشدد (ٹارچر: (Torture)ظالمانہ،غیر انسانی، ناروا سلوک یا سزا کا نشانہ نہیں بنایا جا سکتا‘‘۔دیکھا جائے تو اِن دفعات اور اُن سے جڑی شقوں کے منافی عمل کرنے کی اجازت حتّی کہ غیر معمولی حالات (ایمرجنسی) میں نہیں ہے ۔دفعہ 4شق 3 (4:3)کے مطابق اُن اقدامات کے بارے میں دوسری سٹیٹ پارٹیوں کو مطلع کرنا ضروری ہے جو کوئی بھی مملکت غیر معمولی حالات میں اٹھائے ۔یہ اطلاع اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے وسیلے پہنچانی ہے۔دوسری سٹیٹ پارٹیوں کا مطلب وہ ممالک ہیں جو حقوق بشر کے بین الاقوامی اداروں کے مقررات کے تابع ہوں۔ اِس تنا ظر میں کشمیر میں حقوق بشر کو پرکھا جائے تو ریاست ان گنت معاملات میں جوابدہ ہے۔اللہ نگہباں!
Feedback on:[email protected]