سرینگر//عالمی یوم بزرگان کا مقصد اگر چہ عمر کی اس دہلیر پر پہنچے بزرگ شہریوں کی دلجوئی اور انہیں احساس تنہائی کے درد سے باہر نکالنا ہے،تاہم وقت کے تھپیڑوں سے ہچکولے کھاتی ہوئی کشتی میں سوار ان بزرگ والدین و شہریوں کے دل مجروح ہیں اور انکا درد ناسور بن چکا ہے۔ دنیا بھر میں یکم اکتوبر کو یوم بزرگان یا بزرگ شہریوں کا دن منایا جاتا ہے۔وادی میں متعدد افراد بیرون ملکوں و ریاستوں میں حصول روزگار کیلئے مقیم ہیں جس کی وجہ سے انکے گھروں میںوالدین اور بزرگ تن و تنہا کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔تذبذب کے اس عالم میں انکا دکھ درد بانٹنے والا بھی کوئی نہیں ہے بلکہ اکثر کسی سے وہ بات کرنے کو بھی ترستے ہوئے نظر آتے ہیں۔شہر سرینگر کے ایک کنبے کا حال کچھ ایسا ہی ہے۔عمر کے آخری حصے میں پہنچے والدین دل گرفتہ ولاچار بھی ہیں اور مجبور بھی ،تاہم وہ اس مخمصے میں ہیں کہ انہوں نے جو کچھ کیا ،کیاوہ صحیح تھا یا نہیں؟عالمی سطح پر اس دن کو منانے کا مقصد ان بزرگ شہریوںکی طرف متوجہ ہونا ہے،جو ہمارے معاشرے میں بیشتر اوقات کے دوران عملاًنظر انداز ہوتے ہیں۔یہ دن ہمیں بزرگ شہریوں کے تئیں ہماری ذمہ داریاں نبھانے اور انہیں خوش و خرم رکھنے کی یاد دلاتا ہے۔امسال اس دن کا موضوع’’ معمر مخالف سوچ کے خلاف کھڑئے ہوجائو‘‘ ہے۔ اپنے وقت میں ایک مرکزی محکمہ میںاعلیٰ افسر رہا70برس کاشخص بھی اسی کرب میں تڑپ رہا ہے جبکہ اس کی اہلیہ اس دن کو کوس رہی ہے جب انہوں نے اپنے اکلوتے بیٹے کو نوکری کی ٖغرض سے ایک یورپی ملک روانہ کیا۔مذکورہ شہری کا کہنا ہے کہ اسکا بیٹا سال بھر میں ایک بار بوڑھے والدین کو دیکھنے کیلئے آتا ہے جبکہ اس شہری کی اہلیہ نے جذباتی انداز میں کہا کہ اس کے بیٹے کو شائد اس وقت چین ملے گا جب ہم سپرد لحد ہونگے۔شہر ہی نہیں بلکہ وادی کے ہر علاقہ میںکئی ایسے کنبے اور خانوادے ہیں جہاںاس طرح کی روداد سننے کو ملتی ہے۔ کہیں چھلکتی ہوئی آنکھوں سے تو کہیں لڑکھڑاتی ہوئی زبانوں سے ،کہیں ٹوٹے ہوئے دلوں کی دھرکنوں سے تو کہیں جذبات میں ابال سے۔دنیا بھر میں کئی برسوں سے آبادیاتی انقلاب بپا ہوا ہے۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزشن کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت60کروڑ بزرگ شہریوں کی تعداد ہے،جنہوں نے60سال کی عمر کی حدپھلانگ لی ہے جبکہ2025تک یہ تعداد120کروڑ تک پہنچے گی جبکہ انکی بیشتر تعداد ترقی پذیر ممالک میں ہیں۔ معروف ماہر سماجیات اور کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ سماجیات سے وابستہ پروفیسر پیرزادہ محمد امین کا کہنا ہے کہ ہم نے تو مغرب کی اندھی تقلید کی مگر اپنی روایت اور تہذیب کو فراموش کرگئے ۔پروفیسرموصوف کا ماننا ہے کہ بچوں کو اپنے تہذیب و تمدن سے آراستہ کرنا اور انہیں اخلاقی تعلیم فراہم کرنے کی وجہ سے ان کے ذہن کی اصل نشو نمو ہوسکتی ہے اور وہ اپنے بزرگوں اور والدین کے تئیں فرائض کو فراموش نہیں کرینگے۔ان کا ماننا ہے کہ جن والدین کے بچے انکی نظروں سے دور رہتے ہیں ان والدین کیلئے اس سے بڑا کوئی غم دنیا میں نہیں ہوسکتا اور انہیں تنہائی میں گھر کی دیواریں بھی کاٹنے کو دوڑتی ہے۔پروفیسر امین کا کہنا ہے کہ وادی کی ثقافت اور تہذیب میں اولڈ ایج ہومز یا خانۂ بزرگان کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے تاہم انہوں نے مشورہ دیا کہ مساجد میں اس طرح کی پروگراموں کا انعقاد کیا جانا چاہے کہ بزرگوں کو اپنی تنہائی کا احساس نہ ہو۔ان کا کہنا ہے کہ یورپی اور مغربی ملکوں کی مساجد میں ہفتہ وار پروگراموں کے علاوہ ان کے ساتھ کتب خانے بھی منسلک ہوتے ہیں، جہاں بزرگ لوگ مستفید ہوتے ہیں کیونکہ یہ مساجد کیمونیٹی سینٹروں کا کام دیتی ہیں۔