آج دنیا کی پوری توجہ دہشت گردی کیخلاف جنگ پر مرکوز ہے ۔ اقوام عالم دہشت گردی کیخلاف ایک ہی صف میں کھڑے ہیں اوراپنے تمام اختلافات اور تضادات کو ایک طرف رکھ کر تمام وسائل اور قوت کے ساتھ ہر محاذ پر دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں لیکن یہ کس قدر حیرت انگیز بات ہے کہ پوری دنیا بے پناہ فوجی قوت اور وسائل کے ساتھ ایک طرف ہے اور مٹھی بھر دہشت گرد ایک طرف پھر بھی انہیں شکست دینے یا نیست و نابود کرنے کی وسیع تر کوششوں کے وہ نتائج برآمد نہیں ہورہے ہیں جو کہ ہونے چاہئے تھے بلکہ اس کے برعکس نہ صرف انتہاء پسندی اور دہشت گردی پھیلتی اور وسعت و قوت اختیار کرتی جارہی ہے بلکہ اپنے ساتھ وہ پوری دنیا میں انسانی شعور کے صدیوں کے ارتقائی عمل کی پیدا کی ہوئی قدروں کو بھی بدل رہی ہے ۔ کئی دہائیوں سے سیاسی ، اقتصادی ا، نظریاتی ،سماجی ، تہذیبی معیاروں اور اصولوں کے پیمانے جس خاموشی اور تیزی کے ساتھ بدل رہے ہیں وہ نہ صرف انسانی تہذیب کی بنیادیں کھنڈروں میں بدل کر نئے کھردرے پتھروں سے نئی بنیادیں کھڑی کررہے ہیں بلکہ انسانی شعور ارور احساس کو بھی بدل رہے ہیں ۔
انسانی تاریخ کے ہر دور میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں ، انسانی ضر ورتوں اور مسائل نے ہمیشہ نئے تصورات کو جنم دیا ہے ۔مذاہب بھی اپنے وقت کی انسانی ضرورتوں اور مسائل و مصائب کا حل لیکر آتے رہے ۔ وقت کے تغیرات نئے مسائل اور نئی ضرورتیں پیدا کرتے رہے یہاں تک کہ پیغمبر آخرالزماںحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم حیات انسانی کیلئے ایک آخری اور مستقل و مکمل منشور کے ساتھ تشریف لائے ۔یہ تاریخ انسانی کا وہ دور تھا جب انسان ترقی کے عروج کی دہلیز پر کھڑا تھا اس لئے اللہ کی طرف سے رہنمائی کا دروازہ بند ہوگیا ۔اس کے بعد انسان کی اپنی صوابدید پر ہر آنے والے دور کے چیلینجوں کا سامنا کرنے کی ذمہ داری عاید ہوئی ۔اسلام نے ایک طویل عرصے تک انسان کی رہنمائی کی ۔لیکن اپنی فطرت سے مجبور انسان نے اسلام کے بنیادی اصولوں کو فراموش کرکے اس کے پیغام اور نظرئیے کو متفرقات میں بھٹکا کر آنے والے ادوار کے مسائل اور مشکلات کا مقابلہ کرنے کیلئے رہنمائی کے نئے ذرائع کی تلاش پر اکسایا ۔صنعتی دور نے انسان کے لئے جو نئے مسائل پیدا کئے ان کا حل جرمنی کے ایک فلاسفر کارل مارکس نے کمیونزم کی تھیوری پیش کرکے دیا ۔لینن نے اس تصورکو حقیقت کاروپ دیکر روس میں کمیونسٹ انقلاب بپا کر دیا ۔دوسری جنگ عظیم نے عظیم سپر پاور برطانیہ جس کی سلطنت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا کی کمر توڑ کے رکھ دی اوراس کی جگہ امریکہ سرمایہ دارانہ نظام کا علمبردار بن کر سپر پاور کے روپ میں ابھرا ۔دوسری طرف سوویت روس سوویت یونین بن کر سوشلزم کے تصور کے ساتھ عظیم طاقت کے روپ میں ابھرا ۔جرمنی شکست فاش سے دوچار ہوکر دوٹکڑوں میں بٹ گیا تھا ۔ دوسری جنگ عظیم نے جونئے مسائل پیدا کئے تھے ۔ دو عظیم طاقتیں ان کے متضاد حل لیکر انسانی رہنمائی کا فرض انجام دینے کیلئے ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کشمکش میں مصروف ہوگئیں۔سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بھی بکھر چکا تھا اور امت مسلمہ اپنے الٰہی منشور اورلائحہ عمل کا مسلکی و جغرافیائی بٹوارہ کرتے ہوئے مغربی علم و ادب اور ترقی کی چکاچوند میں تحلیل ہوگئی ۔ترکی سے مصر تک قوم پرستی کی تحریکوں کا بول بالا تھا اور فلسطین میں اسرائیل کی نئی مملکت کا وجود عمل میں آچکا تھا ۔برصغیر ہند کا دو قومی نظرئیے کی بنیاد پر بٹوارہ ہوچکا تھا اور پاکستان کے نام سے مسلمانوں کا ایک نیا ملک وجود میں آچکا تھا ۔اس طرح پرانے مسائل کے ملبوں سے نئے مسائل کا ظہور ہونے لگا تھا اور نئے تصورات کی کشمکش کے ردعمل میں بھی کئی تصورات ابھر رہے تھے ۔سرمایہ دارانہ نظام کے علمبردار اہل کتاب تھے جو نظریاتی طور پر مسلم امہ کے قریب تھے اور سوشلزم کے علمبردار کمیونسٹ تھے جو مذہب کو ہی انسانی تکلیفوں کی جڑ سمجھتے تھے لیکن جو خداپر یقین رکھتے تھے وہی خلافت عثمانیہ کو تاراج کرنے کے ذمہ دار بھی تھے اور مسلم امہ کو ٹکڑوں میں بکھیر کر رکھ دینے کی منصوبہ بند کوششوں میں بھی مصروف تھے ۔ انہوں نے ہی مسلم ملکوں میں مطلق العنان حکمرانوں کے پیر جمانے کی حوصلہ افزائی کی تھی اور تقریباً ہر حکمراں کو انہوں نے اپنا پٹھو بنا کر مسلمانوں کے وسائل لوٹنے کا ذریعہ بنایاتھا ۔مسلم امہ ٹکڑے ٹکڑے ہوکر بھی اپنی تعداد ، اپنے وسائل اور اپنے جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے دو عظیم قوتوں کے درمیان ایک قوت کے طور پر برقرار تھی اور دو عظیم طاقتوں کا فوکس خاص طور پر امہ مسلمہ پر ہی تھا ۔امریکہ مسلم مملکتوں کو اپنی سرپرستی میں رکھنے کی منصوبہ بندی کررہا تھا اور سوویت روس انہیں امریکہ کے تصرف سے آزاد کرانے کی کوششیں کرنے میں مصروف تھا ۔جزیرۃ العرب میں سعودی عرب اس کے باوجود امریکہ کا سب سے بڑا اتحادی تھا کہ امریکہ اسرائیل کا سب سے بڑا محافظ تھا ۔مصر کے کرنل ناصر سرد جنگ کے ٹکراو سے دور رہنے کی کوشش میں پنڈت نہرو اور فیڈرل کاستروکے تصور نان الائنڈ تحریک کاحصہ تھے جسے سوویت روس کے قریب تصور کیا جارہا تھا کیونکہ اس میں شامل سارے ملک امریکہ کے مخالف تھے ۔مسلم ملکوںمیں سوویت یونین کااثر و رسوخ بڑھ رہا تھااور امریکہ کو اسرائیل کا وجود اور اپنے مفادات دونوں خطرے میں نظر آرہے تھے ۔اس موقعے پر امریکہ کے منصوبہ سازوں نے ایک بڑا منصوبہ تیار کیا جس کا لب لباب یہ تھاکہ سوویت یونین اور اس کے کمیونسٹ نظرئیے کو نظریاتی ، اقتصادی اورسیاسی طور پر شکست فاش سے دوچار کرنا ہے تو اس کی ایک ہی صورت ہے کہ اسلام کے نظریہ جہاد کو نئے دور کے تقاضوں کے مطابق ڈھال کر سرمایہ دارانہ نظام کی مخالف قوتوں کیخلاف پوری قوت اور شدت کے ساتھ استعمال کیاجائے ۔اس کے لئے ایسی مذہبی تنظیموں کا انتخاب کیا گیا جوپہلے سے ہی شدت پسندانہ اورانتہا پسندانہ نظریات کی تبلیغ کرنے میں مصروف تھیں لیکن جن کا اثر ورسوخ بہت محدود تھا ۔چنانچہ ان کی بھرپور مدد کرکے انہیں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کیلئے پوری طرح سے تیار کیا گیا اس معاملے میں سعودی عرب نے امریکہ کی بھرپور مدد کی ۔ ان جماعتوں کے اثر و رسوخ میں اضافے کے بعد کرنل ناصر کے جانشین انور سادات کا قتل ہوا ۔فلسطین میں یاسر عرفات کی قیادت میں الفتح کی مضبوط ترین انقلابی تنظیم کی مخالفت شروع ہوئی ۔ لیبیامیں کرنل قدافی کی مخالفت کا دور شروع ہوا ۔اسی اثناء میں افغانستان میں سوویت یونین کی سیاسی مداخلت کیخلاف پرزور آوازیں اٹھیں جس کے نتیجے میں سوویت یونین نے کالے پانیوں تک براہ راست رسائی کیلئے افغانستان میں فوجیں بھیج دیں جس کے خلاف افغانیوں نے اپنی تھری ناٹ تھری بندوقوں کے ساتھ مسلح جدوجہد شروع کردی ۔اس موقعے پر امریکہ کو پاکستان کی مدد کی اشد ضرورت پیش آئی امریکہ پہلے ہی سے اس کا اندازہ کرچکا تھا اور اس نے اپنی سب سے بڑی رکاوٹ ذوالفقار علی بھٹو جو ترقی پسند ذہن رکھتے تھے اور پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں اپنا کردار ادا کرچکے تھے کاتختہ الٹ دیا گیا تھا اور فوجی جنرل ضیاء الحق اسے پھانسی پر لٹکانے کی تمام تیاریاں مکمل کرچکے تھے ۔ضیاء الحق نے امریکہ کے لئے بلا شرط پاکستان کے دروازے کھول دئیے اور امریکہ نے اپنے خزانوں کے منہ کھول دئیے ۔یوں امریکہ کی سی آئی اے افغان سرحد پر اپنا ڈیرا ڈال کر بیٹھ گئی اور افغان مجاہدین کو جدید ترین اسلحے کی کمک روانہ کرکے سوویت یونین کی شکست کے ساماں کردئیے گئے ۔ دنیا بھر کے شدت پسند افغانستان پہونچے جن میں امریکہ کا سب سے بڑا ساتھی اسامہ بن لادن بھی شامل تھاجس کی القاعدہ دنیا بھر میں اپنا نیٹ ورک قائم کرچکی تھی ۔ضیاء الحق نے اندرون ملک تمام مذہبی تنظیموں کی سر کاری سرپرستی کا بیڑا اٹھایا اورہر تنظیم نے اپنے عسکری بازو کا قیام عمل میں لایا ۔مدرسے قائم ہوئے اور جہاد کی تعلیم عام ہوئی ۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی شدت پسندی کو فروغ دینے پر بھرپور توجہ دی گئی جس کا مقصد اس وقت صرف سوویت یونین کوبیخ و بن سے اکھاڑ دینا تھا ۔ ایک طرف دنیا میں یہ سب ہورہا تھا تو دوسری طرف ایران میں امریکہ کے اتحادی شاہ ایران کے خلاف آیت اللہ حمینی کی قیادت میں عوامی انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہورہا تھا ۔آیت اللہ کے انقلاب کااثر بھی مسلمانوں کے ذہنوں پر گہرا اثر چھوڑ گیا ۔سوویت یونین ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا تو امریکہ کا کام پورا ہوگیا ۔ سرد جنگ کا خاتمہ ہوا اور امریکہ عالمی سپاہی بن کر کھڑا ہوگیا اب اسے نہ پاکستان کی ضرورت تھی اور نہ ہی ان لوگوں کی جن کو اس نے بڑے جتن کرکے قوت اورطاقت بخشی تھی ۔ضیاء الحق بظاہرایک حادثے میں مارے گئے لیکن امریکہ کے درپردہ ہاتھ سے خود پاکستان کے ارباب اقتدار نے بھی انکار نہیں کیا ۔اسامہ بن لادن اورامریکہ کے درمیان بھی ٹکراو پیدا ہوا ۔ اس طرح القاعدہ کا رخ بھی سوویت یونین سے امریکہ کی طرف پلٹ گیا ۔یوں امریکہ کے بوئے ہوئے بیج جو بہت تناور ہوچکے تھے امریکہ کو بھی سوویت یونین کے انجام سے دوچار کرنے کا عزم کربیٹھے ۔امریکہ نے ایرانی انقلاب کی کامیابی کو ناکامی میں بدل دینے کیلئے عراق کو ایران پر حملہ کرنے پر آمادہ کیا ۔ گیارہ سالہ جنگ کے بعد ایران اور عراق میں جنگ بندی ہوئی پھر عراق کو کویت پر حملہ کرنے کی صلاح دی اور جب اس نے ایسا کیا تو اس کے خلاف متحدہ محاذ بنایا ۔آخر کار عراق کو ہی نشانہ بنا کر اپنی فوجیں اس سرزمین پر اتاردیں ۔ان ساری مہموں میں امریکہ اکیلا نہیں تھا بلکہ یورپ اس کے ساتھ تھا ۔اور ان ساری مہموں کا اثر مسلم ذہن پر گہرائی کے ساتھ پڑا ۔ اسے تہذیبی ٹکراو سے موسوم کیا گیا اور شدت پسند قوتیں جو خود امریکہ کی ہی پیدا کردہ تھیں کو امریکہ کے خلاف مسلم جذبات کی قیادت کا موقعہ حاصل ہوا ۔اس طویل کہانی کو تفصیل سے پیش کرنے کے لئے کئی کتابیں درکار ہوں گی چنانچہ بات کو مختصر کرکے مقصدتک پہونچنا ضروری ہے ۔مسلم شدت پسندی نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا تو دنیا کی تمام قوموں کے اندر ردعمل کے جذبات پیدا ہوئے انہی جذبات نے ڈونالڈ ٹرمپ کو امریکہ کا صدر بنادیا ۔انہی جذبات نے ہندوستان میں آر ایس ایس کے نظریات کو اقتدار کی دہلیز تک پہونچا دیا ۔ انہیں جذبات نے میانمار میں مسلمانوں کی چھوٹی سی اقلیت کو بیخ و بن سے اکھاڑ دینے کا حوصلہ اُس آنگ سانگ سوچی کو دیا جس نے مطلق العنانیت کے خلاف طویل اور صبر آزما جدوجہد کے نتیجے میں نوبل انعام حاصل کیا ہے ۔انہی جذبات کا نتیجہ ہے کہ عالمی سیاست کے معیار یکسر طور پر بدل رہے ہیں ۔روہنگیا ئی مسلمانوں کی حالت زار پر پوری دنیا خاموش تماشائی ہے ۔ اقوام متحدہ زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ بھی نہیں کرپارہا ہے ۔جو امریکہ انسانی حقوق کی پاسداری کا چمپئن کہلاتا تھا اس کی زبان پر تالے پڑے ہوئے ہیں ۔ جب میانمار میں انسانیت کا سر شرمسار ہورہا ہے دنیا کی سب سے بڑی سیکولر جمہوریت کے وزیر اعظم اس ملک کا دورہ کررہے ہیں اور اسی سرزمین پر دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کا عزم کا اظہار کرکے روہنگیائی مسلمانوں کو بھی اسی زمرے میں شامل کررہے ہیں ۔فلسطینیوں کا سب سے بڑا حامی کبھی ہندوستان ہوا کرتا تھا اور اب وہ اسرائیل کاسب سے بڑا اتحادی ہے ۔ فلسطینیوں کی بات کرنا بھی کسی کو گوارا نہیں یہاں تک کہ سعودی عرب بھی اب فلسطینی کاز سے دور ہٹ رہاہے ۔مذاہب ایک دوسرے کے خلاف ٹکراو پر آمادہ ہیں اور دنیا کے ہر ملک میں سرکاری اور غیر سرکاری شدت پسندی کا ابھار بڑھ رہا ہے ایسے میں دنیا ایک جہنم بنتی جارہی ہے جس میں حیات انسانی سر پٹک پٹک کر رورہی ہے ۔انسانی قدریں بدل رہی ہیں اور انسانی سوچ انسانیت سے دور ہوتی جارہی ہے ۔
نوٹ: مضمون نگار کی آراء سے ادارے کا کلی یا جزوی اتفاق ضروری نہیں