طارق منور
جب انسان کسی حسین منظر یا کسی بے انتہا وادی کی سیر کرتا ہے۔ تو اپنے دل کی اندر کی کیفیت کو لفظوں کے بجائے سرخ روئی سے اظہار کرتا ہے۔ واہ! کتنی خوبصورت جگہ ہے۔ خاموشی چاروں طرف۔ جنگلوں کی سرسبزی پہاڑوں کی بلندی اور پہاڑ کا سینہ چیر کر گنگانے والا دریا۔ بے شک جب ایسا ماحول ہوگا ۔تو سکون آہی جاتا ہے۔ لیکن ان حسین مناظروں پر تعاریف کرنے والا انسان خود اس حقیقت سے نا آشنا ہوتا ہے۔ کہ کائنات میں اگر کوئی شے اللہ پاک نے خوبصورت بنائی ہے تو وہ ہے انسان،بنی آدم ۔ کلام اللہ میں یہ حقیقت اظہر من شمش کی رخشندہ ہے۔ تمام مخلوقات کی فہرست میں سرِ فہرست ہے انسان ، جسے اشرف المخلوقات کا لقب بھی ملا۔ جب یہ ساری عظمتیں انسان کی ہے تو پھر آج کا انسان پریشان کیوں؟ کیوں مایوسی اور نا امیدی کے سمندر میں خود کو ڈوبتا دیکھ رہا ہے ؟ کیوں غم و خزن کی آگ میں خود کو جلتا ہوا دیکھتا ہے ؟ بہت سارے فلاسفروں نے فلاسفی کا کتب خانہ رقمطراز کیا۔ ماٹیوشنل مضامین تحریر کیں۔ ڈاکٹروں ، حکیموں نے ادویات کے انبار تیار کیں کہ فلانی ٹیبلٹ کھانے سے پرشانی دور ہوجائے گی۔ اسی طرح ان گنت تجربہ کاروں نے اپنی اپنی تدابیر پیش کی۔ لیکن پھر اس مایوس کن انسان کا دل، سکون کی بو تک سے محروم رہتا ہے۔ آخر کیوں ؟ جس کتاب میں انسان کوحسین و جمیل اور با شعور کہا گیا ہے،اُسی معزز کتاب میں یہ بھی لکھا ہےکہ اس انسان کا دل تب تک چین اور سکون نہیں پاسکتا ہے جب تک کہ اپنے خالق و مالک کی ذکر نہ کریں۔ دلوں کو سکون اللہ پاک کی ذکر سے حاصل ہوتا ہے۔ مگر جب انسان اللہ پاک کے احکام کو ترک کرتا ہے۔ اپنے نبیؐ کے طریقوں کو پامال کرتا ہے تو اللہ انسان کے دل کو پریشان کر کے رکھ دیتا ہے، جو کوئی بھی گناہوں کی لذت لینا شروع کر دے اسکا حال یہی ہوتا ہے۔ اللہ پاک ہم کو اپنی نافرمانی سے بچائیں،لیکن کیا کریں ہم سے گناہ بھی ہوجاتے ہیں، بشرہی تو ہیں۔ خود اللہ تعالی فرماتےہیں کہ آپ ضعیف ہو، کمزور ہو، کم عقل ہو۔ مطلب کہ ہم سے گناہ بھی ہوسکتے ہیں۔ دنیا میں فقط انبیا کرام معصوم الخطا ٕ ہیں، باقی اس کے نیچے والے کوئی بھی معصوم ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا ہے۔ تو ہم سے اگر کوئی گناہ ہوجائے، تکبر کرنے بجائے ندامت اور عاجزی اختیار کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہے، جب چاہیںاس دروازے سے گزر سکتےہیں کوئی روک نہیں، کوئی ذات پات کا مسلہ نہیں۔ ایسے کتنے واقعات تاریخ میںگزرے ہیں جہاں معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ پاک کتنا کریم ہے، رحیم ہے۔انسان نےکتنے ہی گناہ کئے ہوں، آخر میں اس کی بھی بخشش ہوگی۔ حضرت موسیٰ علیہ سلام کے زمانے کا یہ مشہور واقعہ ہےکہ بارش نہیں برس رہی تھی۔ چشمِ فلک میں قحط چل رہا تھا۔ موسیٰ علیہ سلام نے اللہ سے درخواست کی یا اللہ بارش کی ضرورت ہے تو اللہ پاک نے فرمایا کہ تمہارے قوم میں ایک ایسا گناہ گار ہے، جب تک وہ نہ کہیں نکلے میں بارش نہیں برسائوں گا ۔ موسیٰؑ کوہِ طور سے اپنے شہر کی طرف آئےاور کہا، اے لوگوں اللہ تعالیٰ نے فرمایا، تب تک بارش نہیں ہوگی ۔جب تک ہماری قوم سے سب بڑا گناہ گار نہ نکلے۔ اب اسی جماعت میں وہ شخص تو موجود تھا۔ دائیں بائیں دیکھا، دل ہی دل میں ندامت ہوئی، عاجزی نے توبہ کا دروازہ کھٹکایا، گداز لفظوں میں کہنے لگا۔’’ مجھے پتہ ہے کہ اس محفل میں سب عظیم گناہ گار میں ہی ہوں، اب اگر نکلوں تو میری رسوائی ہوگی۔ اسی لیے اے پروردگار !جس طرح تو نے اب تک میرے گناہوں کو چھپایا تھا، آج بھی ستاری فرما، میں آپ کے حضور توبہ کرتا ہوں۔‘‘ اسی دم تیز دار بارش ہونے لگی، لوگ دیکھتے ہی دیکھتے دھنگ رہ گئے۔ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے کلام کرتے ہوے کہا۔ کوئی شخص تو نکلا ہی نہیں۔ پھر یہ بارش! اللہ پاک نے جواب میں فرمایا کلیم اللہ اس گناہ گار بندے نے توبہ کیا اور ہم نے اُسے معاف کیا اور اسی کی وجہ سے بارش بھی برسائی ۔پھر موسیٰ علیہ سلام نے عرض کیا کہ یا اللہ وہ شخص کون ہے؟ فرمایا، تب نہیں بتایا جب وہ گناہوں کے دلدل میں تھا۔ اب کیسے بتائوں۔ اللہ اکبر لا حول ولا قوة الا باللہ۔ میرے عزیزو! اللہ کی رحمت بہت وسیع ہے، یہ ہم کم ظرف اور کم عقل سمجھتے نہیں۔ اسی لئے پھر پریشان بھی رہتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں،جو کہتےہیں کہ ہمیں کہاں اللہ معاف کرے گا، ہم بڑے گناہ گار ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں، اِسی لئے ہم نماز نہیں پڑھتے ہیں اور پھر یہی لوگ بے سکونی کی شکایت کرتے رہتے ہیں۔ ہارٹ پیس ڈیبلٹ وغیرہ وغیرہ پتہ نہیں کیا کیا کھاتے رہتے ہیں کہ کہیں سے دل کو قرار آجائے۔ کیسے ممکن ہے کہ ہم اپنے گناہوں پر نادم بھی نہ ہوں اور پھر سکون بھی ملے۔ تاریخ گواہ ہے،جو لوگ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امید ہونگے انہوں نے خسارے کا سودا کیا اور جن لوگوں نے اسکی رحمت کا دامن تھاما، وہ منزلِ مقصود کی دہلیز پر راحت اور سکون کا جام نوش کر رہے ہیں۔لیکن یہ بھی نہ ہو کہ چلو ابھی توبہ کا دروازہ کھلا، جو چاہو کر لو یہ ٹھیک نہیں،کیوں کہ انسان کو اپنے موت کا پتہ نہیں کہ کب اور کس جگہ واقعہ ہوجائے۔ اگر گناہ کرتے کرتے موت آجائے تو کل حشر میں کیاحال ہوگا؟ اسی لیے اس کا خاص خیال رکھنا چاہیےکہ مجھ سے کوئی کبیرہ یاصغیرہ گناہ نہ ہوجائے، اور اگر ہوجائے تو فوراً اللہ کے دربار میں حاضری ڈالیں۔ دونو ہاتھ اس کے جانب اٹھائیں اور آنکھوں سے ندامت کے دو قطرے رواں کردے، بے شک وہ معاف فرما دیگا۔ اور جب تم مکمل یقین کرو گے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے گناہوں کو معاف کیا ہوگا تو خود بخود آپ کے دل پر سکون اور راحت کی کیفیت طاری ہوجائے گی ۔توبہ کرنے والے شخص کو اللہ تعالی بہت پسند کرتے ہیں نہ کہ گناہوں پر اِترانے والے کو۔ اس پر جو وعیدیں ہیں، اللہ پاک آپ اور مجھ کو اپنی اماں رکھے۔ آج کل یہ بھی ایک نئی ٹرنڈ بن چکی ہے کہ ایک دوست دوسرے دوست سے فخر سے اپنے گناہ شئیر کرتا ہے کہ میں نے کل فلاں گناہ کیا، یہ کیا وہ کیا۔ استغفراللہ! کل ان گناہوں کی ستاری نہیں ہوگی۔ اپنے گناہ اپنے آپ اور اللہ کے بیچ رکھو اور مایوس نہیں ہونا ہے، کیوں کہ میرے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ اگرتمہارے گناہ آسمان کی چھت تک ہو اور سمندر کے جاگ کی برابر ہو ،پھر تم اپنے اللہ سے معافی طلب کر لو گے تو وہ سارے گناہ معاف کردے گا۔لہٰذا اپنی زندگیوں کو اپنے پیارے نبی اکرمؐ کے طرز پر گزارو۔ کیا ہم کو یہ نہیں پتہ کہ ہمارا پیغمبر ؐ کتنی کثرت سے دن رات میں توبہ کرتے تھے۔ اگر وہ معصوم الخطا ٕ افضل البشر سید المرسلین ؐ اپنے اللہ کے حضور کثرت سے توبہ کرتا ہے۔ ہمارا حال کیا ہونا چاہیے؟ ابھی موقع ہے، اللہ نے زندگی دی ہے۔ اس کا فائدہ اٹھائو ۔ اگر ہمسے گناہ کے سر زد ہوجائیںتو اللہ ہمیں مرنے سے قبل ہی توبہ کرنے کی توفیق نصیب کریں۔ آمین
[email protected]