اخلاق ، پہلوخان، جنید، نجیب، افروزل، سراج، عمر، احمد، حافظ شیخ، ظفر، نعمان، زاہد، قاسم، علیم الدین، اکبرخان اور شعیب، ہندوستانی مسلمانوں کے دلوں پر لگے وہ گہرے گھاؤ جوجمہوریت اور گنگا جمنی تہذیب کے منہ پر طمانچہ ہیں ۔ اس کے علاوہ سینکڑوں گمنام شہداء، لٹی ہوئی عصمتیں، تار تار ردائیں، جلتے گھر اور دکانیں، ملبے کا ڈھیر بنیں مساجد اور مدرسے،ہزاروں اشک بار آنکھیں، لاکھوں پاش پاش دل، ٹکڑوں میں بٹے جگر، آہ و بکا کی تانیں بکھیرتے قلم، فریاد کن زبانیں، زخم سے چور چور روحیں، روتی بلکتی آنکھیں ۔۔۔ یہ سب کسی مسیحا، ہمدرد، مخلص غم گسار کی تلاش میں سرگرداں ہیںمگر ناکامی اور نامرادی ہے کہ ان کا پیچھا چھوڑتی نہ انہیں منزل مراد پر پہنچا دیتی۔ کوئی تو ایسامسیحا ہو جو برستے آنسوؤں کو پونچھے، خائف دلوں کو تھامے، رِستے زخموں پر مرہم رکھے، بھیانک ظلمت ، گھٹا ٹوپ اندھیرے اور تاریک شب میں صبحِ اُمید ثابت ہو۔ عجب وقت آن پڑا ہے کہ جنہیں آڑے وقتوں کام آنا تھا، وہ غیروں کی جھولی میں پڑے ہیں۔ وہ میر کاروان جن سے کچھ دفاع کی اُمیدیں وابستہ ہوسکتی ہیں، وہ بے مروتی، مصلحت پسندی اور کھوکھلی بیان بازی سے زخموں پر نمک پاشی کر رہے ہیں ؎
وہی راہزن جنھوں نے میرے کارواں کو لوٹا
بہ خدا انہی میں شامل تھا امیر کارواں تک
بلاشبہ زخم خوردہ ہندی مسلمان کسی جائے پناہ کی تلاش میں ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ ان کے جانی دشمنوں کے برے عزائم اور حوصلے بڑھتے جارہے ہیں۔ مسلم بیزار بلوائیوں نے اچھی طرح سے جان لیا ہے کہ مسلمان لاوارث ہیں، ان کا کوئی آسرا نہیں، ان کے وہ بڑے، جنہیں بیچ بچاؤ کرنا تھا، وہ ہم سے اپنے ذاتی مفادوں کی بھیک مانگ کر جی رہے ہیں۔ مسلم دشمنوں نے پہلے اخلاق کو بے رحمی سے جرم بے گناہی میں موت کے گھاٹ اُتار کردیکھا آیا کوئی رد عمل ہوتا ہے کہ نہیں۔ انہوں نے دیکھا چند کم سواد اور دشمن کی چال سے بے خبر لوگ مسلمانوں کو سر پڑی آفت سے بچنے کی تدابیر بتانے کی بجائے ان مظلوموں کو ہی اُلٹا کوستے پھرتے ہیں : ظالمو! یہ تمہاری بد اعمالی کی نحوست ہے ، یہ اللہ کا عذاب ہے ، تم خراب نہ ہوتے تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ اس سے ایک جانب بے یارو مددگار مسلمانوں کو پہاڑی کے جیسے یہی وعظ سناسنا کر عدم تحفظ کی لہروں میں غرقآب کیا جاتارہا ،مذمتی بیانات کا طور مار باندھے جاتے رہے، بے مقصدجلسے جلوس اور قرادادیں منظور ہوتی رہیں مگر مسلم کمیونٹی پر آفتوں کا نزول بھی ہوتا رہا ۔ دوسری جانب دشمنوں کے قاتلانہ منصوبے آگے بڑھتے رہے کیونکہ مسلمانوں کے قتل وغارت پر تلے بلوائی جان گئے کہ اس کے شکار میں کوئی جان نہیں ، ظاہر ہے ان کے کالے حوصلے بڑھتے ہی گئے، پولیس اور سرکار کی اعانت نے انہیں نہتوں پراور جری پر مزیدکردیا۔کڑواسچ یہ ہے کہ یہ آدم خور یکے بعد دیگرے مسلمانوں کے خون سے برابر ہولی کھیلے جارہے ہیں۔
بے شک امت اسلامی دنیا بھر میں بے سہاراہے، اور ہمارے’’ بڑے‘‘ اُن سے مراعات طلبی کر رہے ہیںجن کے بھیانک جبڑوں سے گجرات کے ہزاروں مسلمانوں کا خون رس رہا ہے۔ سید الرسل ؐ نے مسلمانوں کو جسد واحد فرمایا تھامگر ہم اس کا کہیں عملی اظہار نہیں دیکھتے۔ آہ! ہماری جھولی میں آصفہ اور زینب جیسی لٹی پٹی لاشیں اور تار تار ردائیں ہیں۔ ایسے وقت میں امیر معاویہ بن سفیان رضی اللہ عنہما، حجاج ابن یوسف اور منصور یاد آتے ہیںجنہوں نے ایک ایک مسلمان کی جان، عزت، حرمت، غیرت، آن بان اور شان کے لیے بڑے بڑے معرکے سر کیے اور وقت کی مسلم دشمن قوتوں کو بتا دیا کہ مسلمان راکھ کا ڈھیر نہیں ہوتا۔ آصفہ بیٹی کو صرف اس لیے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا کہ وہ مسلمان تھی۔ افرازل اس لیے زندہ جلایا گیا کہ وہ کلمہ پڑھتا تھا۔ نجیب کا جرم صرف اتنا تھا کہ وہ دین حق کا پیروکار تھا۔ اکبر کا سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ وہ لاالہ کا وارث تھا۔ مسلمانوں کو کبھی اپنے بے مقصد اختلافات سے فرصت ملے، سوشل میڈیا دانشوری سے کچھ فراغت ہاتھ لگے، اپنے مسلک کو جنتی باقیوں کو کافر وزندیق بنانے کے کام سے چھٹکارا ملے تو خدارا سوچیں:کیا ہم ذلیل ہونے کے لیے پیدا ہوئے ہیں؟ کیا ہم اسی طرح پستے رہیں گے؟ ایک ایک کر کے ختم ہوتے رہیں گے؟ ہم جنازے ڈھو ڈھوکرکر اور لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک ہار گئے ہیں، خون کے آنسو بہا بہا کر آنکھیں خشک ہوچکی ہیں، ضبط کے بندھن ٹوٹ چکے ہیں، صبر کے پیمانے چھلک پڑے ہیں، کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا ہے کہ ہم امن والوں کو امن دیں اور بدامنی پھیلانے والوں سے اعلاناً کہیں ؎
وہ دن گئے، جب ہر اک ستم کو ادائے محبوب کہہ کے خوش تھے
اب آئے گی ہم پہ اینٹ کوئی، تو پتھر اس کا جواب ہوگا
اللہ امن اور انصاف والوں کو پسند کر تا ہے مگر بزدلوں کی نصرت نہیں فرماتا، فطرت اور قدرت سے انحراف کرنے والوں کو تقدیر بھی نہیں بخشتی، ظلم بلا وجہ برداشت کرنا ظلم ہے، ستم کو سہہ کر چپی سادھ لینا زیادہ بڑا جرم ہے۔ قتل، فساد، فتنہ اور غارت گری کے خلاف منہ بند کرنا خود فریبی ہے ۔ انگریز تو صرف اپنے باغیوں کو قتل کیا کرتے تھے مگر دھرم کے نام پر مسلمانوں کی مار کاٹ کرنے والے بلوائی پر امن شہریوں کو مارتے ہیں، مزدورں کا خون بہاتے ہیں اور نہتوں کی جان لیتے ہیں اور بے قصور نوجوانوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنساکر ان کی زندگیوں سے کھیلا جاتا ہے۔ بھلے ہی مسلمان انصاف،امن، انسانیت، غیر جانب داری، محبت، اخوت ، بے تعصبی اور حُب الوطنی کا پیکر ومجسم ہوتا ہے لیکن وہ اپنے حق حیات اور متاعِ ایمان سے کوئی سمجھوتہ کرنا بھی اپنے ایمان کے منافی سمجھتا ہے ، وہ نہ خود ظلم کر تا ہے ، نہ دوسروں کو اپنے او پر ظلم کر نے کی اجازت دیتا ہے ۔ وہ ظالم و مظلوم کا بیک وقت مددگار ہوتا ہے ۔ ظالم ظلم کرے تو اس کے ہاتھ روکتاہے اور مظلوم ظلم کے پنجے میں ہو تو اس کا دفاع کرتاہے، چاہے ظالم اس کا ہم مذہب یا مظلوم سے اس کے عقیدے کا کوئی جوڑ بھی نہ ہو ۔ آج پر آشوب حالات میں خونِ مسلم کی ارزانی کا عالم یہ ہے کہ جانوروں کے تحفظ کے نام پر مسلمانوں کو تڑپا تڑپا کر مار دیا جاتا ہے۔ اس پر ستم یہ کہ آدھی اُمت مظلوموں کے حالات سے بالکل بے نیاز جئے جارہی ہے، آدھی امت مصلحت پسندی کے آہنی خول میں بند ہے، کچھ نے قومیت کا بت گلے لگایا ہے، باقی وطنیت کی نذر ہوئے ہیں۔ ایسے میں کوئی رہبر نہیں جو ملت کو پرخطر حالات کے بھنور سے باعزت نکال سکے، کوئی قائد نہیں جو اُمت مرحومہ کی ڈوبتی کشتی بچاکر کنارے لگا سکے۔