سبزار احمد بٹ
سفر نامے کی صنف باقی اصناف سخن کی طرح بہت قدیم ہے ۔ سفر نامے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ باقی لوگوں کو اپنے مشاہدات اور تجربات سے آگاہ کیا جائے ۔ سفر ناموں میں ادبی چاشنی بھی موجود ہوتی ہے تاکہ قاری کی دلچسپی کا باعث بنا رہے ۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سفر نامے دنیا کی مختلف زبانوں میں لکھے جارہے ہیں اور وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ سفر ناموں کا طرز تحریر بدلتا جا رہا ہے۔ زیر تبصرہ تصنیف طلیق رشید کا لکھا ہوا ’’ کشمیر سے فاراں تک ‘‘ نام کا ایک سفر نامہ ہے،اور یہ سفر نامہ ’’ سفر نامہ حج‘‘ ہے۔ لہٰذا کسی بھی مسلمان کا اس سے لگاؤ اور دلچسپی ہونا ایک فطری بات ہے ۔مصنف نے حج بیت اللہ کے لیے سرینگر سے روانگی اور واپسی تک کا حال ادبی انداز میں بیان کیا ہے ۔ سفر نامہ چھیالیس قسطوں پر مشتمل ہے۔ اکثرباتوں کے دلائل میں احادیث مبارکہ یا قرآنی آیات کا حوالہ دیا گیا ہے، جس سے ان کی باتیں مستحکم اور قابل اعتبار بن جاتی ہیں۔ شروعاتی قسطوں میں بے باکی اور خوبصورتی کے ساتھ یہ باتیں بتائیں گئیں ہیں کہ کس طرح سےبعض حاجی صاحبان اس مقدس سفر میں بھی انتظامیہ سے بے جا شکایتیں کرتے رہتے ہیں اورکچھ لوگ اس مقدس سفر کے دوران پیش آنے والے مشکل اور صبر آزما حالات کو اپنے لیے باعث سعادت سمجھتے ہیں ۔مصنف نے ’’ ایک ڈاکٹر صاحب ‘‘ نامی مختصر واقعہ میں ڈاکٹر صاحب کے رویے پر خوب تنقید بلکہ طنز بھی کیا ہے جو میرے خیال سے بھی قابل تنقید ہے۔ایک طرح کا واقعہ اس ڈاکٹر صاحب کی خودغرضی کی سوچ رکھنے والے سبھی لوگوں کے لیے چشم کشا ہے۔ مصنف نے مسجد نبوی کا خوبصورت انداز میں اپنے الفاظ کے ذریعے خاکہ کھینچنے کی عمدہ کوشش کی ہے ۔ مسجد نبوی کی جغرافی خدوخال بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس مسجد شریف کے بارے میں بہت ساری معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ قاری بھی مصنف کے ساتھ مسجد نبوی میں موجود ہوتا ہے۔مصنف نے مسجد نبوی کے تذکرے میں یہ بات بھی کہی ہے کہ یہاں پر مثالی امن و سکون ہے، کسی طرح کے شورشرابہ یا نعرے بازی کی اجازت نہیں ہے۔ مصنف کا ذاتی مشاہدہ ہے کہ انڈونیشیا، چین اور ترکی کے عازمین سب سے زیادہ نظم و ضبط کے پابند تھے اور ہندوستان کے عازمین میں کریلا( Kerala )کے عازمین نے نظم وضبط کا مثالی نمونہ پیش کیا۔ مصنف نے کشمیری عازمین کا نظم و ضبط کے معاملے کی سخت الفاظ میں گلہ کیا۔ مصنف کو عازمین کے رویے شاید اس لیے بھی کچھ زیادہ ہی یاد رہے ہیں کیونکہ مصنف عازمین کے ساتھ بطور ذمّہ دار رہے ہیں، اور اپنے اس گِلے کہ وجہ یہ بتائی کہ ایسا عمل مستقبل میں نہ دوہرایا جائے جو کسی حد تک درست بھی ہے ۔اس دوران اگر چہ مصنف کے عقائد کی ہلکی پھلکی جھلکیاں نظر آرہی ہیں تاہم ادبی چاشنی اور مصنف کا دلکش طرزوتحریر ان جھلکیوں پر غالب آجاتا ہے اور ان کا رنگ زائل پڑ جاتا ہے۔ طلیق رشید نے مزار بقیع کی زیارت کا واقع بھی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے کہ قاری کے سامنے مزار بقیع کا پورا نقشہ گھومنے لگتا ہے ، جبل احد کی زیارت کا بھی ذکر کیا ہے اور روضۂ رسولؐ پر سلام عرض کرنے کے حوالے سے اپنا مشاہدہ بھی پیش کیاہے ۔مصنف نے جگہ جگہ پر عازمین کی اچھی بُری حرکات کا ذکر برملا طور پر کیا ہے۔جیسے گاڑیوں اور باقی مقامات پر اپنا نام پتہ لکھ دینا وغیرہ ۔’’ نسیمے از اعجاز آید‘‘ نامی قسط میں مصنف نے مکہ مدینہ کے بہترین ٍٹریفک نظام کا تذکرہ بھی کیا ہے کہ لاکھوں چھوٹی بڑی گاڑی سے سڑکیں مصروف رہنے کے باوجود کہیں پر بھی ٹریفک نظام میں کسی بھی طرح کا خلل نہیں آجاتا ہے ۔مصنف نے جبل احد، گنبد خضرا، غار ثور اور چند دیگر اہم مقامات کی تصویریں لے کر کتاب کے چند صفات پر چسپاں کی ہیں جن سے کتاب اور زیادہ دلکش اور جاذب نظر بن گئی ہے ۔مذکورہ سفر نامے میں منزل بہ منزل حال بیان کیا گیا ہے۔ پندرویں قسط میں مسجد حرام، بیت اللہ، اور حجرِ اسود کا ذکر آیا ہے اور حجرِ اسود کو بوسہ دینے اور بیت اللہ کا طواف کرنے کے دوران جو کچھ مشاہدے میں آیا ہے ،مصنف نے بیان کیا ہے۔قسط نمبرسولہ میں مصنف نے مختلف مسلکوں کے درمیان محبت، بھائی چارے اور ہم آہنگی کا جو واقع بیان کیا ہے وہ قابل ستائش ہے ،ایسی ہم آہنگی کی ضرورت ہمارے کشمیر میں بھی بڑی شدت سے محسوس کی جارہی ہے ،جس کے لیے ہم سب کو ایک دوسرے کا انتظار کئے بغیر اپنی اَنّا کو فنا کرنا ہوگا۔ مصنف نے اس سفر نامے میں مکہ مدینہ کے بازاروں کا ذکر کرتے ہوئے دکانداروں اور گاہکوں کی چند بہترین عادتوں کا ذکر کیا اور وہاں کی پولیس میں کرپشن کے حوالے سے زیرو ٹالرنس کی بات کی ہے۔حج مسلمانوں کو اتحاد و اتفاق کی نہ صرف دعوت دیتا ہے بلکہ عملی نمونہ بھی ہے جہاں دنیا کے مسلمان ایک ساتھ طواف کرتے ہیں ،ایسے میں فقط ایک بات یاد رہتی ہے کہ ہم سب مسلمان ہیں ۔اللہ کرے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق قائم ہو۔آمین
مصنف نے جہاںاپنے مشاہدے میں آئے چھوٹے سے چھوٹے واقعےکو قلمبند کیا ہےوہاں سعودی کے مارکیٹ، سلامتی انتظامات، ٹریفک صورتحال، سعودی عدالتی نظام، مختلف ملکوں سے آئے ہوئے عازمین کے مختلف رویے بھی بڑے دلچسپ انداز میں بیان کئے ہیں ۔مذکورہ سفر نامے میں منظر کشی کی بہترین مثالیں موجود ہیں ۔کہیں کہیں پر تو قاری پڑھنے میں اس قدر مگن ہوجاتا ہے کہ جیسے وہ خود ان جگہوں کا مشاہدہ کر رہا ہو۔منجملہ طور پر کہا جاسکتا ہے کہ مذکورہ کتاب ایک اچھا سفر نامہ ہونے کے ساتھ ساتھ عازمین کے لیے رہنما ثابت ہوسکتا ہے۔میں مصنف کو اس احسن کام کے لیے دل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کتاب پر بشارت بشیر، پروفیسر حمید نسیم رفیع آبادی، ڈاکٹر مبشر احسن وانی، ڈاکٹر معراج الدین ندوی، جیسی شخصیات نے حوصلہ افزا تبصرے کئے ہیں، جس سے اس کتاب کی اہمیت مسلم ہوتی ہے۔میری ذاتی رائے ہے کہ حج پر جانے والے حضرات کواس کتاب کا مطالعہ ضرور کر لینا چاہیےاور باقی مسلمانوں کے لیے بھی کتاب نہ صرف مفید اور معلوماتی ہے بلکہ اطمنان اور فرحت بخش بھی ہے ۔اس کتاب کے مطالعہ سے بیت اللہ کی زیارت کا شوق یقیناً بڑھ جاتا ہے اور ایک طرح کا تجسس پیدا ہوتا ہے۔
(رابطہ ۔ر 6006366749)
[email protected]