رواں ماہ کی نو تاریخ سے مسلسل حالات و واقعات کی ہانڈی ابل رہی ہے جس سے اس بات کی بھر پورعکاسی ہورہی ہے گویا ریاستی حکو مت نے کشمیری عوام کے ساتھ دوبدو جنگ چھیڑ چکی ہے ۔ ایک طرف معصوموںکا خون بہہ رہا ہے ، دوسری طرف قریہ قریہ اور قصبہ قصبہ پکڑ دھکڑ اور قید و بند کا لا متناہی سلسلہ برابر جاری ہے۔ ہفتہ عشرہ قبل پولیس اور فوج کی طرف سے پلوامہ ڈگری کا لج پر دھاوا بو ل کر طالب علموں کو لہو لہان کر نا حکو مت کے اسی اپروچ کا غماز ہے ۔ اس واقعہ سے یہ بات عیاں ہو جا تی ہے کہ پولیس اور فورسز یہاں کے ہر با شندے کو اپنا دشمن تصور کر تی ہیں اور جب چا ہئے ان پرٹوٹ پڑ نے کا حق محفوظ رکھتی ہیں ۔ پلوامہ ڈگری کالج کے احاطہ میں گھس کر طلباء کو زیادتیوں کا نشانہ بنانے کا واقعہ نہ صرف شرمناک ہے بلکہ فورسز کے سامنے انتظامی اور حکومتی بے بسی کا مظہر بھی ہے ۔اس سے یہ بات کا اظہر من الشمس ہو جا تی ہے کہ ریاست میں اصل اختیار کس کے ہاتھوں میں ہے ۔ مذکورہ کالج کے پرنسپل کی منت سماجت کی پراوہ کئے بغیر کا لج احاطے میں داخل ہونا فورسز اور ایس اوجی کی من ما نی اور کسی قاعدے قانون سے بے پرواہ ہو نے کی مبرہن دلیل ہے۔ اس واقعہ کی جہاں عوام الناس اور مزاحمتی قیادت سے کڑی مذمت کی گئی ،وہیں طلباء کمیو نٹی کی طرف سے کپوراہ سے لے کر بانہال تک زبردست احتجاج درج کیا گیا ۔کسی قانونی مواخذہ اور تادیبی کاروائی سے بے خوف سرکاری فورسز نے جواب میں احتجاج کر نے والے طا لب علموں پر ٹیر گیس اور پاوا شلوں کی بارش کے ساتھ ساتھ اپنے پیلٹ گنوںکے دہانے بھی کھو لے جس کے نتیجے میں درجنوں طلباء زخمی ہوگئے جن میں زنانہ کالج نواکدل میں زیر تعلیم اقرا رشید نا می طالبہ کی حالت ابھی تک ہسپتال میں نازک بنی ہوئی ہے اور کئی ایک طالب علم پیلٹ لگنے سے مضروب ہو چکے ہیں ۔ مہذب دنیا میں طالب علموں کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھنے کی مثال شاید ہی کہیں اور ملے گی ۔ جو حکومت اور اس کے فورسز وردی زیب تن کئے اور کتابوں کے بستہ کندھوں پر اُٹھائے ہو ئے نو نہال اور کمسن طالب علموں سے خو ف کھائی ہوئی ہو اور ان پر جان لیوا اور مہلک ہتھیاروں کا استعمال کر رہی ہو، اس حکو مت کا اقتدار میں رہنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیںبنتا کہ وہ عوام الناس کے جان و مال کی حفاظت کرنے کا دعویٰ بھی کرے۔ نو جوان نسل کو تعلیم کے نور سے آراستہ کر نے کا دم بھرے۔بہترین مستقبل تعمیر کرنے کے ان کے والدین کے خو ابو ں کو شرمندہ تعبیر کرنے کی ذمہ داری سے عہدہ بھرا ہو۔ مقابلہ جاتی اس دور میں گلوبل معیار کی تعلیم و تربیت مہیا کرنے کی اپنی منصبی ذمہ داریوں کو انجام دے ۔ بہتر مواقع روزگار اور ملکی وعالمی ڈیماننڈ کے مطابق انہیںپیشہ ورانہ مہارت سے لیس کریں۔ جہاں حکومت طالب علموں کی جانوں کی حفاظت کے برعکس ان پر بے رحمی سے ٹوٹ پڑے اور والدین کواپنے بچوں کے جان کی حفاظت کی فکر ہر لمحہ دامن گیر ہو ،وہاں ان کے بہتر مستقبل کی امید کیسی لگائی جا سکتی ہے؟ اس قوم کے ساتھ اس سے بڑھ کر المیہ اور کیا ہو سکتا ہے جہاں بزرگ اپنے کمسن بچوں اور نو جوانوں کے جنازے اپنے کندھوں پر آئے روز اُٹھاتے ہو ۔ اسکولوں اور کالجوں میں ہو نے کے بجائے پولیس تھانوں اور جیلوں میں بند پڑے نونہا لوں کی رہائی کے لئے در در کی ٹھو کریں کھاتے ہوں۔ پولیس اور فورسز کی طرف سے طالب علموں پر اس بے جواز اور بے تحاشا طاقت کے استعمال سے قوم کے ان نو نہا لوں کی نفسیات پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہو نگے۔ سرکاری فورسز کی اس بے جواز ایکشن سے قوم اورقوم کے اس مستقبل کو کیا پیغام پہنچا یا گیا ہے ۔ یہی نا کہ اس متنازعہ ریاست میں آپ اپنے حقوق کا مطالبہ نہیں کر سکتے ۔اگر آپ ایسا کر نے کی کوشش کر یں گے تو ہمارے پیلٹ گن، ٹیئر گیس، پاوا شیلوں،لاٹھیوں اور بندو قوں کا سامنا آپ کو کر نا ہو گا۔ اپنے حق کے لئے آواز اُٹھانے والوں کے لئے یہاںحکو متی پالیسی اور سرکاری فورسز کا طرز عمل اور اپروچ ایک ہی جیسا دیکھنے کو ملتا ہے وہ چاہئے ہتھیار بند عسکریت پسند ہو ، ہاتھ میں پتھر ا ُٹھائے نو جوان ہو یا اسکول اور کالج جانے والے طالب علم ہو ں ۔ حکومت اور وزارت کی کر سیوں پر براجمان حکمران لو گوں کو خا موشی اختیار کر نے کی اپیلیں کرتی ہیں ، ۔ سنگبازی سے باز آنے کے لئے والدین کو اپنے بچوں کو نصیحتیں کرنے کی اپیلیں کر تے ہیں لیکن بے لگام فورسز کو کسی قاعدے اور ڈسپلن کا پابند بنانے کی کوئی پرواہ انہیں نہیں ہے ۔ ایک طرف یہاں تعینات فورسز کو افسپا نا می قانون کی پشت پنا ہی حا صل ہے وہیں دوسری طرف فورسز کی بربریت کا دفاع اس حکمران طبقہ کا اولین فریضہ بن چکا ہے۔
کشمیر کے شرق وغرب میں نہتے لو گوں پر پولیس اور فورسز کی طرف سے بے تحاشا طاقت کا استعمال اب معمول بن چکا ہے۔جبر و زیادتیوں کا نشانہ بنا ئے جانے میں نہ صنف اور عمر کی تمیز رکھی جا رہی ہے اور نہ ہی مقام و مرتبہ کا پاس ولحاظ کیا جاتا ہے۔ عدل وانصاف کے تقاضے اور نہ ہی حقوق اور قانون نام کی کوئی چیز کا احترام پیش نظر رکھا جا رہا ہے۔ ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں پر بے لگام فورسز دھا وا بو ل کر طلباء اور عملے کو تختہ مشق بنارہے ہیں۔ جہاں دیکھا جائے ہر سو طاقت کی زبان بو لی جاتی ہے ۔ قبرستان کی خا موشی برپاکر نے کے لئے کمسنوں سے لے کر ضعیف العمر لو گوں کو تعذیب خا نوں اور جیلوں کی زینت بنا یا جا رہاہے۔ نو جوانوں کو فوجی گاڑیوں کے ساتھ با ندھتے ہو ئے انسانی ڈھال بنا کر علاقوں میں گشت کر ایا جا رہا ہے۔ فورسز کی جانب سے سو شل نیٹ ورکنگ سائٹس پر ایسے ویڈیوز اپ لوڈ کئے جارہے ہیں جن میں کئی کئی فورسز اہلکار ایک ساتھ کمسن بچوں اور نو جوانوں کو بے دردی کے ساتھ لاٹھیوں اور بندوقوں سے زدکوب کرتے ہوتے دکھا یا گیا ہے۔تاکہ خو ف اور دہشت کا ماحول پیدا کر نے کے لو گوں کو اپنی آواز بلندکرنے سے باز رکھا جا سکے۔ آئے روز رونما ہو نے والے مظالم اور قتل و غارت کے واقعات سے اس با ت کا عندیہ ملتا ہے کہ ایک منظم اور منصوبہ بند انداز سے یہاں کے خرمن امن کو آگ لگانے کی جان بو جھ کر کو ششیں کی جارہی ہیں ۔ اس کے لئے جہاں حکومتی اور سیاسی سطح پر پالسیاںمر تب کر کے ما حو ل تیار کیا جا رہا ہے وہیںفوجی طرز فکر اور سیکو رٹی مشینری کے طرز عمل اور اقدام سازی سے بھی بخو بی عیاں ہو رہا ہے کہ کشمیر میں جاری تحریک کی مخالف مختلف ایجنسیاں اور قوتیں غیر محسوس طریقے سے اپنے عزائم کی عمل آوری کے لئے حا لات بگاڑ نے کی در پے ہیں ۔ بھارتی داخلہ وزارت اور دفاعی ما ہرین جموں وکشمیر کے حالات پر مسلسل نظریں مر کو ز کر کے حکو مت ہند کو اپنی رپورٹیں پیش کر نے میں لگی ہو ئی ہیں۔
انتہاء پسند بھارتی سیاسی تنظیمیں اور متعصب ہندو قوم پرست میڈیاا ور تجزیہ نگار جموں و کشمیر میں بھارت سے آزادی حاصل کر نے کے حق میں اٹھنے والی آوازوں کا قلع قمع کرنے اور معروف عوامی جذبہ حریت کو ختم کر نے کے لئے حکو مت کو تجا ویز پیش کر نے میں لگے ہوئے ہیں ۔کشمیری عوام کی تحریک آزادی کے ساتھ والہانہ عقیدت اور بھارتی قبضہ اور جارحیت کے خلاف پر عزم جدوجہد اور جوان جذبہ ہو نے کے وجو ہات جاننے اور اس کا سدباب کر نے کے لئے مختلف مواقع پر مذکورہ ایجنسیوں اور تجزیہ نگاروں کی طرف کئی ایسے انکشافات ہو تے رہے ہیں جو لایعنی ہو نے کے ساتھ ساتھ حیران کُن بھی ہیں ۔ حالیہ ایسے ہی ایک رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی جا چکیہے کہ کشمیر میں بھارت سے آزادی حاصل کر نے کی تحریک کے پیچھے تین محرکات اور عوامل کار فرما رہے ہیں۔ مدرسہ ، مولوی اور میڈیا ۔ بھارتی دفاعی ما ہرین اور سیاسی حا لات کے پیچ و خم سے آشنا ان تجزیہ نگاروں کے مطابق ان تینوں چیزوںپر کنٹرول حا صل کرکے کشمیریوں کی بھارت کے خلاف تحریک آزادی پر قابو پا یا جا سکتا ہے۔ بھارتی پالیسی سازوں کی رائے میں گویا کہ یہ تین ایسے بااثرعوامل ہیں جو کشمیریوں کی جدوجہد آزادی سے پیچھے نہ ہٹنے کے ذمہ دار ہیں ۔ ان ہی تین عناصرکے دم خم پر کشمیر میں تحریک آزادی جاری و ساری ہے ۔ اس بات میں کتنی حقیقت ہے اور زمینی حقائق ان سے کتنا میل کھا تے ہیں کو ئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ جموں و کشمیر کے حالات کے تناظر میں مدرسہ اور مو لویوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرانا اُس عالمی پالیسی کا حصہ ہے جس کا نام نہاد war or terror سے تعلق ہے ۔ یہ فی الاصل ایک منصوبہ ہے جس کے ذریعے سے کشمیر میں جاری جدو جہد کو عالمی دہشت گردی سے جو ڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تاکہ عالمی رائے عامہ کے سامنے مسئلہ کشمیر سے متعلق اصلی حقائق کو چھپا یاجائے اور تحریک آزادی کشمیر کو بدنا م کیا جائے۔ پچھلے ستر سالہ کشمیر کی تاریخ پر جب غائرانہ نظر دوڑائی جاتی ہے تو حقیقت اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ جمو ں و کشمیر کے لو گوں نے بھارت کے جموں و کشمیر پر تسلط کوکبھی قبو ل نہیں کیا ہے ۔ بھارت کا پر فریب طریقہ سے جموں و کشمیر میں قدم جمانے کے پہلے ہی دن سے یہاں کے لو گوں نے اس کے خلاف آواز اُٹھائی ہے ۔ بلاشبہ اس تحریک کو کئی نازک مراحل سے گزرنا پڑا ہے اور مہیب نشیب و فراز سے دو چار ہو نا پڑا ہے لیکن ماضی کا کو ئی مورخ یا معاصر تاریخ دان یہ بات ہنوز ثابت کر نے سے قاصر ہے کہ یہاں کے لو گ حق خو د ارادیت کے اپنے مطا لبہ سے کبھی دستبردار ہوچکے ہیں ۔ زندگی کے ہر شعبہ سے منسلک لو گ اس تحریک میں شامل اور شریک رہے ہیں۔ وہ چاہئے جدید تعلیم یافتہ طبقہ ہو یا روایتی مذہبی طرز فکر اور دینی تعلیم سے آراستہ لو گ ہوں۔ ان پڑھ ہو کہ پیشہ ورانہ تعلیم یافتہ ہو، شہری علاقوںکے باشندے ہویا کہ دوردراز دیہی علاقوں کے لوگ ہوں ۔ غرض یہاں کا ہر کوئی باشندہ جذبہ آزادی سے مؤجزن ہو کر تحریک میں اپنی لحاظ سے شریک رہا ہے۔ آج کی تاریخ میں اگر کوئی بھارتی پالیسی ساز او ر تجزیہ نگار اس تحریک کو کسی خا ص طبقہ یا گروہ تک محدود ہونے کافلسفہ جھاڑ لیتا ہے یہ اُس کی خام خیالی اور زمینی حقائق سے بے بہرہ ہو نے کا عکاس ہے ۔ ایسا کر کے وہ حکو مت کے ساتھ ساتھ بھارتی عوام کو گمراہ کرنے کی دانستہ کوشش کر رہا ہے ۔ اسی طرح یہاں کے مقامی میڈیا کو رواں تحریک کا ذمہ دار ٹھہرانا کسی مفروضہ سے کم نہیں ہے ۔ پو چھا جا سکتا ہے کہ کیا پچھلے ستر سالوں کے دوراں یہ تحریک میڈیا کے ہی بل پر جاری رہی ہے ۔ جب انٹرنیٹ ، سو شل نیٹ ورکنگ سائٹوں اور الیکٹرانک میڈیا کا کو ئی نام و نشان یہاں پایا نہیںجاتا تھا ۔ یہ بات نوٹ کر نے کے قابل ہے کہ یہاں کا میڈیا 47ء سے لے کر آج تک بھارتی اور ریاستی حکومت کے کنٹرول میں رہا ہے ۔ کیا کشمیری عوام کو اسی سرکاری میڈیا سے تحریکی بیداری حا صل ہو ئی ہے اور اسی سرکاری میڈیا سے لو گوں کو جد وجہد آزادی کے ساتھ منسلک ہونے کی تحریک ملی ہے ۔ عمومی طور پر جموں و کشمیر کے حدود میں میڈیا سرکاری ریڈیو ، ٹیلی ویژن اور چند اخباروں پر مشتمل رہا ہے جن تک رسائی آبادی کے ایک محدود حصہ کو حا صل رہی ہے اور میڈیا کے یہ ذرائع حکومت کی مکمل اختیار میں رہے ہیں۔یہ اب چند سالوں کی بات ہے جب سے انٹرنیٹ کی سہو لیات لو گوں کو حاصل ہو ئی ہیں جس کے نتیجے میں عام لوگوں کو آسانی سے حالات اور واقعات کی جانکاری مل رہی ہے اور وہیں دوسری طرف وادی کشمیر کا جغرافیائی محل و وقوع اس نو عیت کا ہے کہ ما ضی قریب تک یہ خطہ ارض با قی دنیا
سے مہینوں منقطع رہتا تھا۔ پھر کوئی میڈیا کو رواں جدو جہد آزادی کو محرک قرار دے شتر مرغ کی طرز عمل کہلایا جا سکتا ہے ۔ یہ ان تجزیہ نگاروں اور پالیسی سازوں کی کو تاہ عقلی ہے جو بے بنیاد اور بعید از حقائق مفروضے گھڑ کر امر واقع سے انکار کرتے ہیں ۔ بھارتی پالیسی سازوں اور تجزیہ نگاروں کی ایسی سوچ پر کو ئی ذی ہو ش انسان افسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتاہے۔ قوتِ بازوکے بل پر مر کزاور ریاستی حکو مت کس کس کے ساتھ یہاں نبر آزما ء نہیں ہے ۔ ایک طرف پولیس اور فوج کو نہتے عوام کو کچلنے کے لئے کھلی چھوٹ دینے والی حکومت ہیںاور دوسری طرف یہاں کا ساراعوام ہے ۔ شومیٔ قسمت یہ کہ دہلی کی جی حضوری میں ریاستی حکومت ہر اس زہر ناک منصوبہ اور حربے کو آزمانے میں لگی ہو ئی ہے جو کشمیری عوام کو اپنے مطا لبہ ٔ حق سے دستبردار کر وانے کے لئے وقت وقت پہ وضع کیا جاتاہے ۔ عوام میں مو جو د جذبہ ٔ مزاحمت کو کسی خا ص طبقہ، علاقہ ، یا مکتب فکر سے جو ڑنا حکو مت وقت کے ذہنی دیوالیہ پن کا آئینہ دار ہے۔ زمینی حقائق سے منہ مو ڑ کر صداقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا ہے ۔ با لآخرفریب ، کذب اور بہتان پر صداقت اور سچا ئی کو غلبہ حا صل ہو کر ہی رہے گا۔اس لئے بہتر یہی ہے کہ حکمران ٹولہ مار دھاڑ کی پالیسی ترک کر کے کشمیر مسئلے کا منصفانہ حل ڈھونڈ کر اپنے حسا س ذمہ داری اور حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرے ۔