نئی دہلی// مرکزی کابینہ نے ایک وقت میں تین طلاقیں دینے کے عمل کو قابلِ سزا جرم قرار دینے کے آرڈیننس کی منظوری دے دی ۔مرکزی کابینہ کا اہم اجلاس وزیر اعظم نریندر مودی کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں سپریم کورٹ کے حکم کی تکمیل میں ایک نشست میں تین طلاقیں دینے کے عمل کو قابلِ سزا جرم قرار دینے کے آرڈیننس کی منظوری دے دی گئی۔ نئے قانون کے مطابق اپنی بیوی کو ایک بار میں تین طلاق بول کر طلاق دینے والے مسلم مردوں کو تین سال کی جیل کی سزا ہو سکتی ہے۔ اس بل میں مسلم خاتون کو بھتہ اور بچوں کی پرورش کے لئے خرچ کو لے کر بھی التزام ہے۔ سپریم کورٹ نے گزشتہ برس اگست میں ایک ساتھ 3 طلاقیں دینے کے عمل کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیتے ہوئے حکومت کو اس عمل کی سزا مقرر کرنے کے لئے قانون سازی کا حکم دیا تھا تاہم حکومت اس بل کو دونوں پارلیمنٹ سے منظور کرانے میں ناکام رہی تھی۔جس کے بعد حکومت نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ مسودہ قانون کو اگلے سیشن میں پیش کیا جائیگا۔مرکزی وزیرِ قانون و انصاف روی شنکر پرساد نے میڈیا کو وفاقی کابینہ کے فیصلے سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ بیک وقت دی جانے والے تین طلاقوں کو غیر قانونی قرار دیئے جانے کے باوجود یہ عمل بلاروک ٹوک جاری ہے جس کے سدباب کے لئے حکومت آرڈیننس لانے پر مجبور ہوئی۔وزیر قانون کا مزید کہنا تھا کہ اس سے قبل ایک وقت میں تین طلاقوں کو طلاقِ بدعت قرار دے کر سزا دینے سے متعلق بل لوک سبھا سے منظور ہو گیا تھا لیکن راجیہ سبھا میں اپوزیشن جماعتوں کی مخالفت کے باعث ترمیمی بل کا ڈرافٹ تیار نہیں ہو سکا تھا۔ حکومت کے پاس سپریم کورٹ کے فیصلے پرعمل درآمد کے لیے آرڈیننس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔گزشتہ ماہ بھارتی حکومت نے مسلم خواتین کے حقوق کے تحفظ سے متعلق بل میں 3 ترمیمات کی تھیں جن کے تحت یہ جرم نا قابل ضمانت تصور ہوگا تاہم ضمانت کے لئے شوہر مجسٹریٹ سے رجوع کر سکتا ہے۔ دوم اہلیہ یا ان کے اہل خانہ کی جانب سے شکایت درج کرانے پر ہی پولیس ایف آئی آر درج کر سکے گی اور تیسری ترمیم سے مجسٹریٹ کو میاں بیوی کے درمیان تصفیہ کرانے کے اختیارات حاصل ہوگئے تھے۔واضح رہے مسلم میرج لاء میں 3 ترامیم کے بعد چوتھی ترمیم میں ایک ساتھ تین طلاقیں دینے کو قابل سزا جرم قرار دینا تھا تاہم اپوزیشن جماعتوں کے تحفظات کے باعث حکومت ترمیم پیش ہی نہیں کرسکی تھی۔