لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے کہا کہ شعبہ صحت سرکار کی ترجیحات میں شامل ہے اور بجٹ کی 5فیصد سے زیادہ رقم خرچ کی جاتی ہے۔ گزشتہ دنوں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے منوج سنہا نے کہا کہ بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانے کیلئے 7ہزار 177 کروڑ روپوں کے پروجیکٹ شروع کئے گئے ہیں۔ اس بات سے انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران مرکزی حکومت کی فراح دلانہ مالی امداد کے نتیجے میں جموں و کشمیر میں صحت کا شعبہ یکسر تبدیل ہو چکا ہے اور نہ صرف بنیادی سطح پر طبی ڈھانچہ کو مستحکم کیا گیا ہے بلکہ ثانوی اور تحتانوی سطح پر بھی صحت و طبی تعلیم کا شعبہ انقلابی تبدیلیوں سے گزر چکا ہے۔ مرکز کی مالی امداد کے تحت جموں وکشمیر میں 7میڈیکل کالجوں کا قیام عمل میں لایا گیا جن میں سے 5میڈیکل کالج شروع بھی ہو چکے ہیں جبکہ دو تکمیل کے ختمی مراحل میں ہیں اسی طرح جموں و کشمیر کیلئے 2الگ الگ ایمز بنائے جا رہے ہیں، جن سے نہ صرف طبی تعلیم مستحکم ہو گی بلکہ علاج و معالجہ کا نظام بھی نئی بلندیوں کو چھو لے گا۔ علاوہ ازیں ، 2 کینسر انسٹی ٹیوٹ اور ایک بون انسٹی ٹیوٹ کا قیام بھی اس سمت میں ایک اہم پیش رفت ہو گی۔ آیوشمان بھارت صحت سکیم کے تحت جموں و کشمیر کے ہر شہری کو علاج و معالجہ کیلئے 5 لاکھ روپے کا بیمہ فراہم کیا جا رہا ہے جس کے تحت اب تک60 لاکھ سے زیادہ لوگوںکو گولڈن کارڈ فراہم کئے گئے ہیں۔ سوا کروڑ کی آبادی والے جموں و کشمیر یونین ٹرٹری میں 10نئے نرسنگ کالج قائم کرنے کے علاوہ ایم بی بی ایس نشستوں کی تعداد بھی بڑھا کر 1100کر دی گئی ہے، یہ سب ایسے اقدامات ہیں، جن کے طفیل جموں و کشمیر کی دیہی و شہری آبادی کو صحت اور طبی تعلیم کے حوالے سے درپیش مسائل کا کافی حد تک ازالہ ہو چکا ہے اور اس کے نتیجے میں ہمارا طبی ڈھانچہ بھی قومی سطح کی درجہ بندی میں کافی آگے بڑھ چکا ہے۔
تعمیر و ترقی کا سفر بدستور جاری ہے اور مرکزی حکومت جموں و کشمیر میں زندگی کے ہر شعبے میں خوشحالی لانے کیلئے منہمک ہے اور اس ضمن میں پیسوں کی کمی کو کسی بھی صورت میں آڑے نہیں آنے دیا جا رہا ہے۔ جمو ں و کشمیر کے لوگ بھی کافی حد تک اس حقیقت کو تسلیم کر چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ حکومتی نظام سے بتدریج جڑتے چلے جا رہے ہیں۔ عوام کی غالب اکثریت کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران جموں و کشمیر کا ترقیاتی منظرنامہ یکسر تبدیل ہو چکا ہے، گائوں گائوں تعلیمی و طبی ادارے کھل چکے ہیں، جس کے نتیجے میں علم و آگہی اور علاج و معالجہ کی سہولیات لوگوں کو اب اپنے گھروں کی دہلیز پر ہی میسر ہیں۔ مانا کہ ابھی بھی مسائل ہیں اور ابھی بھی طبی نظام میں بہتری کی گنجائش موجود ہے، لیکن جس طرح مرکزی سکیموں کے تحت طبی شعبہ میں افرادی قوت میں کئی گنا اضافہ کرنے کے علاوہ طبی ڈھانچے کو فروغ دیا گیا، اس سے یقینی طور پر علاج و معالجہ کے حوالے سے عوامی مشکلات میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔ ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے اور اس کیلئے کوششیں مسلسل جاری ہیں۔ ایسے میں وقت کا تقاضا ہے کہ تمام متعلقین اختلافات کو چھوڑ کر جموں و کشمیر کو ترقی و خوشخالی کی نئی بلندیوں تک لے جانے کے سفر میں مرکزی اور یوٹی حکومت کے شانہ بشانہ چلیں، کیونکہ اجتماعی کوششوں کے نتیجے میں ہی 30 سالہ غیر یقینی اور اضطرابی دور کے منفی اثرات کو زائل کیا جا سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگ ترقی اور خوشخالی کی راہ کے مسافر بنیں کیونکہ تکرار سے کوئی مسئلہ حل ہوا ہے نہ آگے کبھی ہو سکتا ہے۔ جموں و کشمیرمیں ترقی کی رفتار کو دیکھتے ہوئے ایسی قوتوں کو بھی نوشتہ دیوار پڑھ لینی چاہئے جو اپنے مفادِ خصوصی کے خول میں رہ کر حقیقت سے آنکھیں چرا رہے ہیں۔ جموں و کشمیر بدل رہا ہے اور تبدیلی کے اس کارواں کو روکنا اب کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ بہتر یہی رہے گا کہ ہم سب اس تبدیلی کے کارواں میں شامل ہو جائیں اور انفرادی سطح پر اپنا جبکہ اجتماعی سطح پر اپنی قوم کا بھلا کریں۔