عشاق ؔکشتواڑی
جغرافیائی نوعیت سے قدیم ضلع ڈوڈہ کی حدود ایک طرف بانہال جیسے صحت افزا مردم خیز مقام سے بوس و کنار کا منظر پیش کرتی ہیں وہیں دوسری جانب موجودہ تحصیل پاؤڈر کے تاریکی مقام سنساری نالہ کے ساتھ ساتھ تیسری طرف سنتھن ٹاپ تک احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ یہ خطۂ ارضی جغرافیائی لحاظ سے کلیتاً کوہستانی خدوخال کا مظہر ہے۔
تاریخی اعتبار سے یہ ضلع زمانہ قدیم سے علم و ادب، رشی منیوں، نامی گرامی اولیاء کرام اور مفکروں کی ماخذ و آماجگا رہا ہے۔ زمانہ قدیم سے ہی یہاں کے فلک بوس پہاڑوں اور اِن کی درمیانی وادیوں میں بسیط بلا لحاظ رنگ و نسل و ذات پات کے بکھیڑوں سے دور نفوس اپنی حیات کے شب و روز بسر کرتے چلے آ رہے ہیں۔ باوجود پسمانگی اور محدود ذرائع رسل و وسائل کے بھی یہاں کے جفا کش مفکروں اور ذی ہوش جیالے پیر وجواں نے اپنی علمی صلاحیت کے کاروانِ تہذیب و تمدن اور عِلم و ادب کے رحجانی عَلم کو تازہ دم رکھ کر اپنی بصیرت کا مظاہرہ کیا ہے اور ابھی بھی اس نئے پُر بہار دور میں یہ روایت برقرار و قائم دائم ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ آباد بستیوں میں نسل در نسل کی روایات جنم لیتی آئی ہیں اور اس طرح سے ہر نسل اپنی پیشِ رو نسل روایات سے استفادہ کرکے نئی جہتوں کی کھوج میں آگے بڑھتی جاتی ہے۔ یہ نفسیاتی سلسلہ آبِ چناب کی تُند خو سرشت کی طرح صدیوں سے رواں دواں ہوتی آرہی ہے اور اُمیدِ کامل ہے کہ آنے والے کل میں بھی اس کا یہی وطیرہ حسبِ سابقہ قائم و دائم رہے گا۔
لسانی اعتبار سے اس کوہستانی خطہ میں مختلف زبانوں کا تال میل زمانۂ قدیم سے یک قلب دو جاں کی صورت استوار کر رہا ہے۔ یہاں پر مجموعی طور پر اُردو اور کشمیری زبانوں کا بول بالا رہا ہے۔ علاقائی طور پر ان دو زبانوں کے علاوہ بھدرواہی، سراجی، پوگلی، کشتواڑی، پاڈری اور گوجری زبانوں کا سلسلہ بھی تاریکی اعتبار سے مروج ہے۔ جہاں تک اس خطہ میں اردو زبان کے چلن کا سوال زیرِ بحث آتا ہے اِس اعتبار سے یہ مُردم خیز خطہ مختلف ادوار میں ایسے کچھ نامدار اور کچھ گمنام مفکروں، سخن وروں، مورخوں اور ذی بصیرت نفوس کا گہوارہ رہا ہے جنہوں نے اپنی علمی بصیرت اور بشارت کی بدولت اپنا خونِ جگر دے کر علم و ادب کی قندیل کو سدا بہار رکھ کر اپنی تاریخ آپ مرتب کی ہے اور نسلِ نو کے لیے وہ اثاثہ چھوڑا ہے جس کی مثال عصرِ حاضر میں نئے قلمکاروں کی تحریروں سے برابر دستیاب ہو رہی ہے۔ شہرۂ آفاق مفکر، شاعر اور ادیب مرحوم طاوس بانہالی، مرغوب بانہالی، رسا جاودانی، عبدالغنی گونی، شوکت فریدی، کامگار کشتواڑی، نشاط کشتواڑی، پنڈت دینا ناتھ جوتشی، طالب بھلیسوی، کاشمیری لال روپ کشتواڑی، دونی چند شرما کے ساتھ ساتھ دیگر درجنوں جملہ شائقینِ ادب اور ثقافت کے اسمائے گرامی ضبطِ تحریر لائے جا سکتے ہیں۔
عصرِحاضر میں وارثانِ ادب کے زُمرے میں باحیات اہلِ بصیرت، اہلِ ذوق و اہلِ ادب کی صف میں شامل لا تعداد نفوس اپنی علمی بصیرت کا سحر نظم و نثر کی جہد میں کوشاں اپنے فکروفن کی بِساط بکھیرنے میں ہماتن معروف کار ہیں۔ جن میں سے چند نمایاں صاحبِ علم کے اسمائے گرامی کچھ یوں رقم ہیں۔ اسیر کشتواڑی، پروفیسر اسد اللہ وانی، بشیر رونیال، بشیر بھدرواہی، پروفیسر شہاب عنایت ملک، منشور بانہالی، کیول کرشن شرما، ڈاکٹر مشتاق احمدوانی، مشتاق فریدی اور راقم السطور عشاق کشتواڑی، ڈاکٹر چمن لال بھگت اور ڈاکٹر جگ موہن سنگھ کا نام اعزازی طور پر لیا جا سکتا ہے۔ جہاں تک ڈاکٹرجگ موہن سنگھ کی جائے پیدائش اور اسلافِ کنبہ کے گزر بسر اور رہن سہن کے ماحول کا تقاضہ ہے، ڈاکٹر موصوف کے اجداد ضلع ڈوڈہ کے صدر مقام یعنی ڈوڈہ، تحصیل کاستی گڑھ، موضع دھندل اور پنچایت کڈدھار سے پشتنی طور وابستہ حال ہیں یہ علاقہ دیسہ روڈ کے عقبی علاقہ یعنی ڈوڈہ سے تقریباً 25 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ ڈاکٹر جگ موہن سنگھ شری ولایت سنگھ نامی زمیندار کے متوسط گھرانے میں شریمتی نرملا دیوی کے بطن سے 5 جون 1990ء میں پیدا ہوئے۔ اوائل عمری میں اس ناتواں کی نازک گردن پر جگ موہن کی طوق ڈال کر نام کرن کی رسم والدین نے پوری کی۔ والد محترم خود بھی درجہ دہم پاس ہیں اور اُردو زبان سے دلی لگاؤ رکھتے تھے۔ موجب جس کے ننھے جگ موہن کو صلاحیت کا وافر ماحول ابتدا سے نصیب ہوا۔ والدین کی خواہشات کے عین مطابق یہ ننھا ثمر حصولِ تعلیم کے لیے مدرسہ کی دہلیز تلک پہنچنے کا اہل ہوا تو اسے گاؤں کے ہی سرکاری پرائمری اسکول کڈدھار میں داخلہ کی سعادت نصیب ہوئی۔ درجہ ششم سے درجہ ہشتم کی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول گُرمل سے حاصل کی۔ درجہ ناہم و درجہ دہم گورنمنٹ بوائز ہائر سیکنڈری سکول ضلع صدر مقام ڈوڈہ سے پاس کیا۔ درجہ یازدہم و درجہ دوازدہم کی تعلیم ہائر سیکنڈری سکول کاستی گڑھ سے حاصل کی۔ بی اے ڈگری کالج ڈوڈہ اور پھر ایم اے کی سند جامعہ جموں سے اعزازی طور پر پاس کرنے کے بعد بی ایڈ اور جے کے سیٹ کے مدارج طے کرکے پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ سے پی ایچ ڈی کا عَلم بلند کرکے ’پہنچے وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا‘ کہ مصداق اب تلاشِ معاش کی سنگلاخ راہ پر گامزن ہوکر اندرونِ ریاست گرداں و غلطاں زندگی کے شب و روز بسر کر رہے ہیں۔ شعر ملاحظہ ہو:
جابجا گلیوں میں دیکھا یہ نظارہ آج کل
باسند پھرتا ہے اکثر مارا مارا آج کل
دورانِ تعلیم بقول صاحب موصوف انہیں نہایت صاحبِ بصیرت اساتذہ کرام جیسے ڈاکٹر روبینہ شبنم ، ڈاکٹر چمن لال بھگت، ڈاکٹر عبدلرشید منہاس ، ڈاکٹر روبینہ شبنم ،غلام حسن، بھرت سنگھ منہاس، محمد حمید، اجیت بابو، یاسر بلوان، رنجیت منہاس، پروفیسربابورام وغیرہ کی صحبت کی سعادت نصیب ہوئی۔ موجب جس کے انہیں اوٌل تو مطالعہ کا ذوق پیدا ہوا اور دوئم خود بھی کچھ نہ کچھ خامہ صرائی کی طرف رُحجان بڑھا۔ جس کا آغاز بی اے کی تعلیم کے دوران کالج سے شائع ہونے والے میگزین کے لیے مضمون لکھ کر ہوا تھا۔ اخبارات اور موقر مجلات کا مطالعہ ان کی فطرت میں شامل ہے۔ موجب جس کے اِن کے اپنے قلمی افکار خود اِن کا معاون بننے لگے۔ یہی ایک عمل اِن کو معروف کر گیا۔
قابلِ صد رشک ڈاکٹر جگ موہن سنگھ کے رقم شدہ ادبی نگارشات بذریعہ روزنامہ جات احقر کے مطالعہ سے کئی بار گزرے ہیں علاوہ اس کے اِن کی تین عدد تصانیف بعنوان ’’کثیرلسانی دفاعی لفظیات‘‘، ’’پروفیسر شہاب عنایت ملک کی کالم نگاری: تجزیاتی مطالعہ‘‘، ’’پروفیسر ظہورالدین کے افسانے (کلاسکیت سے مابعد جدیدیت تک)‘‘ کا سیر مطالعہ بھی نصیب ہوا۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر جگ موہن کے اب تک درجنوں مضامین مختلف رسائل و جرائداور روزنامہ جات مثلاً: دستک، ثالث، اُردو دُنیا، سب رس، فکر و تحقیق، شیرازہ، مژگاں، دربھنگہ ٹائمز، طلوع ادب، سبق اُردو، تحریک ِادب،اُڑان، کشمیر اعظمیٰ، لازوال اور تعمیل ارشاد وغیرہ میں شائع ہو چُکے ہیں۔ موجب اِس کے خامۂ احقر کچھ ان کی ادبی خدمات کے تہیں صریر خامہ پر آمادہ ہوا۔
ڈاکٹر جگ موہن سنگھ کی کتابوں کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ جس شائستگی سے پروفیسرظہورالدین کی افسانوی جہت اور پروفیسر شہاب عنایت ملک کی کالم نگاری پر تفصیل کے ساتھ ناقدانہ جائزہ لیا گیا ہے، وہ قابل صد داد ہے۔ اس وطیرے کو صاحب موصوف نے اپنی دیگر تحریروں میں اپنا کر اپنی ادبی بِساط کو شائقینِ ادب کے رو برو بچھا کر اپنی کاوش کا مظاہرہ کیا ہے۔جہاں تک ڈاکٹر جگ موہن کی تصانیف کا تقاضہ ہے وہ اپنے فکر و فن کے اظہار میں اپنا ایک منفرد فاتحانہ انداز رکھتے ہیں…………’’ایشور کرے زورِ قلم اور زیادہ‘‘۔
بے کاری اور بے روزگاری جیسے رمز آمیز برکتوں کے موجب تعلیم یافتہ نسل آج کل جوجھ رہی ہے۔ سرکاری اداروں میں روزگار حاصل کرنا جوئے شیر لانے والا مسئلہ ہو گیا ہے۔ صاحبِ موصوف بھی اسی صف میں شامل ہیں اور باوجود تنگدستی کے اُردو ادب کی خدمات انجام دے کر شب و روز کے گزر کا مقابلہ کر رہے ہیں۔اِس اُردو کش دور میں اب بھی کئی عاشقانِ زبان اس کی بقاو ترویج کے لیے کوشاں ہیں۔ کچھ کُندسر عناصر اُردو زبان کو مسلمانوں کی زبان قرار دے رہے ہیں اور اِس کی گنگا و جمنی تہذیب کو یکسر تہہِ خاک کرنے کے در پے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ اس زبان کی تاباں تاریخ رام بابو سکسینہ نے ہی مرتب کی ہے۔ اِس زبان کو منشی پریم چند، کرشن چند، راجندر سنگھ بیدی، بلونت سنگھ، چکبست، پریم ناتھ پردیسی، گیان چند جین، جگن ناتھ آزاد، گوپی چندنارنگ، مالک رام، برج پریمی، ٹھاکر پونچھی، رتن سنگھ، پشکرناتھ اور مالک رام آنند، کے ساتھ ساتھ لاتعداد ہندوؤں نے اپنا اوڑنا اور بچھونا تصور کرکے میدان ادب میں ایک لافانی مقام حاصل کرکے شہرت پائی ہے۔ جس کی زندہ مثال ڈاکٹر جگ موہن بھی ہیں۔ صاحب موصوف نے نہایت غیرجانبدارنہ طور سے اپنی تصانیف اور مختلف اخبارات و رسائل میں شائع شدہ مضامین میں اپنے فکر و فن کا عالمانہ انداز میں مظاہرہ کرکے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اُردو زبان ایک مشترکہ میراث ہے۔ اس کا کسی قوم، فرقہ یا مذہب سے کوئی واسطہ نہ پہلے تھا اور نہ ہی اب ہے۔
تہذیبِ ہند کی قاتلوں سے جاکے یہ پوچھے کوئی
پڑھ کے اُردو کیا کوئی ہندومسلمان ہو جائے گا
صدرِ انجمن ترقی اُردو (ہند) شاخ چناب ویلی کشتواڑ
فون نمبر9697524469