کچھ مہینے قبل اپنے ایک عزیز نے ایک کشمیری شعری مجموعہ عنایت فرمایا، جس پر ثبت شاعر کی تصویر دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیاکیوں کہ یہ کسی اور کی نہیں بلکہ میرے محترم استاد مرحوم عبدالصمد لون صیادؔ کشمیری کی دل موہ لینے والی تصنیف تھی۔کچھ دیر خوبصورت ٹائٹل کور اور عمدہ گٹ اپ سے مزین پمپوش نامی اس مجموعے کی سرسری ورق گردانی کے بعد اس نیت سے اپنی لائبریری کی زینت بنا کر رکھا کہ فرست کے لمحات میں سکون سے اس کا مطالعہ کرونگالیکن اور بھی ہیں غم زمانے میں کے مصداق کئی مہینوں تک شعری مجموعے کے مطالعے سے قاصر رہا اور جب مجموعے کو مطالعے کے غرض سے اٹھایا تو آخر تک پڑھے بغیر چھوڑنے کو جی نہیں چارہا۔غرضیکہ شعری مجموعہ انتہائی دلچسپ ہے اور اس میں درج ایک ایک شعر قاری کے ذہن پر گہرے اثرات چھوڑتا ہے ۔فنی نقطہ نظر سے اگر چہ شعری مجموعے میں درج کلام کا معیار طے کرنا ناقدین کرام کا کام ہے لیکن مجموعے کے مطالعے کے بعد بحثیت ایک ادنیٰ قاری کے مجھے یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہے کہ مصنف نے خون دل میں انگلیاں ڈبو کربڑے ہی دلنشین انداز میںاپنے محسوسات اور مشاہدات کا اظہار کیا ہے ۔
ماسٹر عبدالصمد لون عرف صیاد کشمیری یکم مئے1937ء کو اجس بانڈی پورہ میں پیدا ہوئے۔ ان دنوں اگر چہ تعلیم حاصل کرنے کا رحجان بہت کم تھا اور آج کی طرح سہولیات بھی میسر نہ تھیں، پھر بھی انہوںنے ساتویں جماعت تک اپنے ہی گائوں میں تعلیم حاصل کرنے کے بعدمڈل کا امتحان گو ر منٹ مڈل سکول صفا پورہ جب کہ میٹرک کا امتحان ہائی سکول نوا کدل سرینگر سے پاس کیا ۔میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد اگر چہ موصوف محکمہ تعلیم میں استاد تعینات ہوگئے لیکن انہونے اپنا تعلیم کا سفر جاری رکھا اوربی ایڈ تک تعلیم حاصل کی ۔مرحوم ایک حساس ذہن مالک تھے اور اپنے ارد گرد کے حالات کا گہرا اثر لیتے تھے۔کشمیری شعر وادب سے بچپن سے ہی گہرا لگائو تھا اور اپنے احساسات کو منظوم انداز میں قلم بند کرتے تھے۔اپنے ادبی ذوق کی تشفی کے لئے مطالعے کے ساتھ ساتھ اکثر وبیشتر ادبی محفلوں میں شرکت کرتے تھے ۔ایسی ہی ایک مجلس کے بارے میں موصوف اپنے مجموعے کے پیش لفط میں یوں رقم طراز ہیں۔
’’ہماری بستی اجس میں پروفیسر حاجنی کی صدارت میں ایک شعری مجلس منعقد ہورہی تھی جس میں دوسرے علاقوں سے درجنوں شعرا حضرات شرکت فرما رہے تھے لیکن ہماری بستی میں اس پائے کا کوئی بھی شاعرنہیں تھاجو مجلس میں شریک ہوتا۔حاجنی صاحب نے اپنے خطبے میں فرمایاکہ ہم کلچرل اکادمی کے اشتراک سے اجس میں مشاعرے کا اہتمام کر رہے ہیں لیکن افسوس ہے کہ یہاں کا کوئی بھی شاعر حصہ نہیں لے رہا ہے۔ میں استدعا کر تا ہوں کہ یہاں کا کوئی شاعر مشاعرے میں حصہ لے ۔میں نے حاجنی صاحب کے الفاظ کو چلینج سمجھ کر ایک غزل سنانے سے پہلے حاجنی صاحب کو دکھائی، جنہوںنے غزل کی تعریف کرکے میری کافی حوصلہ افزائی کی‘‘۔
میرا روم روم مرحوم صیاد کشمیری کا قرض دار ہے کیوں کی مرحوم کئی سال تک میرے استاد رہے ہیں ۔خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ میں نے ان کے پاس اردو مضمون پڑا ہے، جسے وہ ادبی انداز میں پڑھانے میں بڑی مہارت رکھتے تھے ۔مرحوم ایک نہایت ہی پر خلوص اور شفیق استاد تھے جو طالب علموں کو بڑے ہی لگن اور دلچسپی سے علم کے نور سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے ذاتی مسائل اور پریشانیوں میں جھانکتے تھے اور حتی المقدور مستحق طلباء کی مدد کرنے کی سعی کرتے تھے ۔ مرحوم نمود و نمائیش کے بالکل دلدادہ نہیں تھے اور دوسری روزمرہ مصروفیات کے ساتھ ساتھ خاموشی سے شعر ادب کی زلفیں سنوارنے میں منہمک رہتے تھے ۔ محترم عاشق کشمیری صاحب ان کے بارے میں لکھتے ہیں ۔
’’ صیاد صاحب جموں کشمیر کے ان شعرا سے تعلق رکھتے ہیں جو شعر کہنا جانتے ہیں لیکن نمود نمائیش میں بالکل دلچسپی نہیں رکھتے یہی وجہ ہے کہ بہت کم لوگ ان کو بحیثیت ایک شاعر اور سخنور کے جانتے ہیں‘‘۔
مرحوم ساری عمر جماعت اسلامی سے وابستہ رہے اور ان کی زندگی میں کئی نشیب فراز آئے۔ سرکاری نوکری سے بحیثیت ہیڈ ماسٹر سبکدوش ہونے کے بعد نامساعد حالات کے سبب انہیںاپنے آبائی گائوں کو چھوڑ کر مہاجرت کی زندگی اختیار کرنا پڑی، جس دوران وہ علیل ہوگئے اور بالا ٓخر طویل علالت کے بعدکشمیری شعر ادب کا یہ گمنام سخنور13 اپریل 2014ء کو اپنے آبائی گھر اجس بانڈی پورہ میں اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر کے ابدی سفر پر روانہ ہوگئے۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
مرحوم میری تحریریں پڑھ کر نہ صرف میری حوصلہ افزائی کرتے تھے بلکہ اکثر اپنی شعری سرگر میوں کے بارے میں بھی بتاتے تھے۔مجھے یقین ہے کہ مرحوم اپنے پیچھے بہت سارا قیمتی شعری سرمایہ چھوڑ گئے ۔اب مرحوم کے لائق و فائق فرزند پر یہ ذمہ داری عائید ہوتی ہے کہ وہ حق ادائی کرتے ہوئے ان کے کلام کو یکجا کرکے منظر عام پر لاکر ضائع ہونے سے بچائے۔
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتام زندگی
ہے یہ شام زندگی صبح دوام زندگی
رابطہ۔۔۔۔۔۔[email protected]
٭٭٭