فاروق ارگلی
(گذشتہ سے پیوستہ)
اور اب بھارتیہ اِتہاس کے نہایت شاندار ادھیائے پر نظر ڈالیئے۔ اسلامی ہند میں صوفیائے کرام اور ہندو سادھو سنتوں کے میل جول اور ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش سے بھکتی تحریک یا بھکتی آندولن کا جنم ہوتا ہے۔ صنم پرست اور ایک اللہ کو ماننے والے ایک دوسرے کی ایسی باتیں اور طور طریقے اپنانے لگتے ہیں جن سے مسلمانوں کی شریعت اور ہندوؤں کے دھرم پر حرف نہ آتا ہو۔ یہ کیسا انوکھا اِتہاس ہے کہ مسلمانوں کے دورِ اقتدار میں پریم مارگ کے سنتوں کے ساتھ ساتھ مسلمان صوفیوں کو بھی رام جی اور کرشن جی کی خوبیوں میں حقیقت اور معرفت کے جلوے نظر آنے لگتے ہیں۔ اُس عہد کے ہندو سنت کویوں کے ساتھ ساتھ مسلم صوفی شاعروں نے بھی رام بھکتی اور کرشن بھکتی سے شرابور گیت، کوتیہ، دوہے اور سویّوں کی ایسی رچنا کی جو ہندی ساہتیہ کی انمول دھروہر بن گئے۔یہ بہت بڑا موضوع ہے، مختصر سے ذکر کے لیے بھی ایک ضخیم کتاب چاہیے، بس اشاریہ کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ یہ تاریخ کس طرح بدلی جاسکتی ہے کہ ایک مسلمان کرشن بھکت محمد ابراہیم رسکھان کے بھکتی گیت بھارت کے مندروں اور ہندو سماج کے دلوں میں آج بھی گونج رہے ہیں، اور کیا اس بات کی نفی کی جاسکتی ہے کہ چشتی سلسلے کے ایک بزرگ حضرت ملک محمد جائسی، اسلامی ہند میں جب تصوف اور روحانیت کی ترسیل اور ترجمانی کے لیے عوامی بھاشا میں ’پدماوت‘ کی تخلیق کرتے ہیں تو اس کی کہانی میں ہوس اور نفس امّارہ کا استعارہ یا وِلن مسلم سلطان علاء الدین خلجی کو بناتے ہیں۔ جائسی کی یہ تخلیق پوری سلطنت میں آج تک گونج رہی ہے لیکن تلاش کرنے کے باوجود راقم کو ایسا کوئی تذکرہ نہیں ملا کہ ان کے خلاف کسی مسلمان عالم، صوفیاء یا کسی مسلم دانشور نے کوئی اعتراض اُٹھایا ہو۔ ظاہر ہے کہ پہلے کی آستھائیں اتنی کمزور نہیں تھیں، جو ذرا ذرا سی بات پر آہت ہوجاتی ہیں۔ ’پدماوت‘ بھارتیہ ساہتیہ کا شاہکار تسلیم کی جاتی ہے اور یہی بزرگ حضرت جائسی جب ’کنہاوت‘ کے عنوان سے کرشن جی کی مہما اور لیلا درشانے میں اپنا شاعرانہ کمال دِکھاتے ہیں تو اُس سمے سے آج تک ہندو سماج آنند وبھور ہے۔
تکثیری سماج کے دلوں کو جیتنے کا جو طریقہ حضرت خواجہ غریب نواز نے اپنایا تھا ،درحقیقت وہ ایک عظیم روحانی انقلاب کا پیش خیمہ تھا۔ آپ نے تکثیری معاشرے کے ساتھ یک رنگی کے لیے ہندو سادھو سنتوں کی طرح گیروا لباس زیر تن فرمالیا۔ خانقاہ میں گوشت کا استعمال ممنوع کردیا کہ دوسروں کی دل آزاری نہ ہو۔ ان کے دربار میں مذہب اور عقیدے کی تفریق نہیں تھی۔ غریب نواز سب کی مدد، خبرگیری اور حاجت روائی فرماتے ہیں۔ یہ نظریہ غریب نواز کے خلفاء اور بعد کے تمام صوفیائے کرام کے لیے مشعل راہ بن گیا۔ ان صوفیانہ نظریات کی تاریخ گزرتے وقت کے ساتھ حیرت انگیز کردار پیدا کرتی رہی۔ بھکتی تحریک کا جنم حضرت امیر خسرو کی روایات کے اثر سے شروع ہوتا ہے، اس تحریک کے اُفق سے طلوع ہونے والے سب سے تابندہ ستارے چشتی سلسلے کے مسلمان صوفی حضرت بھیکا چشتیؒ (لکھنؤ) کے مرید شیخ کبیر ہندو بھکتی کی بھاشا میں وحدانیت، حقانیت اور انسانیت کا پیغام دیتے نظر آتے ہیں۔ شیخ کبیر سوامی رامانند جی کے چیلے بن کر سنت کبیر ہوجاتے ہیں، لیکن ان کے کلام سے صاف ظاہر ہے کہ وہ مسلمان صوفی تھے۔؎
لا الٰہ کا تانا الااللہ کا بانا
داس کبیر بٹن کو بیٹھا اُلجھا سوت پرانا
متصوفین شیخ کبیر کو صوفی ہی مانتے ہیں جن کے صاحبزادے حضرت شیخ کمالؒ کا مزار احمدآباد میں مرجع خلائق ہے۔ شیخ کبیر نے ایک مسلمان صوفی ہوتے ہوئے ہندو سنتوں کی دھج بنالی۔ ماتھے پر تلک لگالیا، پھر اپنے بے پناہ اثر انگیز کلام سے ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کو مذہبی تعصب، ریاکاری اور پاکھنڈ کے لیے زبردست پھٹکار لگائی۔ ماہرین تصوف کبیر کے کلام کے ظاہری معنوں کے اندرون میں صوفی شعراء سعدی، رومی، خسرو، عطار اور جامی وغیرہ کے افکار کی بازگشت محسوس کرتے ہیں۔ ویسے بھی بھکتی تحریک کے تمام ہی بزرگوں کے افکار و روایات میں وہ اثرات واضح ہیں جو حضرت امیر خسرو کے عظیم الشان مشن کی آواز تھے کہ :
کافر عشقم مسلمانی مرا درکار نیست
ہررگِ منتار گشتہ حاجت ِ زُنّار نیست
عشقِ حقیقی کی یہ ’کافری‘ بھکتی تحریک کے سبھی بزرگوں کے یہاں جلوہ فگن نظر آتی ہے خواہ وہ سنت تکا رام ہوں، سنت رے داس ہوں، شیخ قطبن ہوں، حضرت شیخ داؤد یعنی سنت دادودیال ہوں یا پھر حضرت بابا گرونانک ہوں، شیخ کبیر کی یہ آواز تو آج بھی برصغیر کے سبھی بسنے والوں کو محبت کا پیغام دے رہے ہی:
پوتھی پڑھ پڑھ جگ موا پنڈت بھیا نہ کوئے
ڈھائی اکشر پریم کے پڑھے سو پنڈت ہوئے
اور وقت کے ساتھ پنجاب کی سرزمین سے حضرت گرونانک کی صورت میں ایک آفتابِ تازہ پیدا ہوا۔ گرونانک کبیر کی طرح ہی خالقِ کائنات کی وحدانیت کے مبلغ اور کفر وشرک کے مخالف تھے۔ جیسا کہ مشہور دانشور پنڈت سندرلال اپنی کتاب ’بھارت میں انگریزی راج‘ (جلد اوّل) میں لکھتے ہیں کہ ’’نانک کا مذہب اتحاد اور محبت کا مذہب تھا،ان کے ارادت مندوں میں ہندو مسلمان سبھی تھے، ان کا سب سے پیارا مرید مردانہ ایک میراثی تھا جو رباب بجانے میں ماہر تھا۔ چونکہ بابا بھجن کیرتن اور سماع کو عبادتِ الٰہی کا ذریعہ مانتے تھے اس لیے مردانہ زندگی بھر ان کے ساتھ رہا۔‘‘
حضرت گرونانک کے عہد میں پنجاب بزرگانِ دین کی روحانی روشنی سے منور تھا۔ لاہور، پانی پت، سرہند، پاک پٹن، کچھ اور ملتان صوفیائے کرام کے عظیم مراکز بن چکے تھے۔ حضرت داتا گنج بخش، حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی، حضرت بابا فرید الدین گنج شکر، حضرت مخدوم جہانیاں جہاںگشت، حضرت شیخ اسماعیل بخاری اور دوسرے عظیم المرتبت صوفیائے کرام نے نہ صرف پنجاب بلکہ پورے ملک میں روحانی، اخلاقی اور تہذیبی انقلاب برپا کیا تھا۔ حضرت گرونانک کی سیرت اور تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہوئے واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ وہ صوفیائے کرام کی تعلیمات سے بیحد متاثر تھے۔ گروجی عربی، فارسی زبان اور اسلامی علوم سے پوری آگہی رکھتے تھے۔ انھوں نے ہندوستان میں انسانی قدروں کے فروغ اور ہندو مسلم اتحاد کو اپنا نصب العین قرار دیا۔ اپنے مسلمان مرید مردانہ کے ساتھ انھوں نے مختلف ممالک کی سیاحت کی اور وہاں کے مذہبی عالموںاور صوفیوں سے ملاقاتیں کیں۔ اپنی طویل سیاحت سے واپسی کے بعد گرونانک صاحب نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ ہندو مسلم اتحاد اور دونوں قوموں کی خرابیاں دُور کرکے ایک خدا کی بندگی اور امن و اتحاد کی تعلیم دینے میں بسر کیا۔ ان کا پیغام دلوں میں اُتر جانے والی اُن کی پنجابی شاعری تھی جس کے ذریعہ انھوں نے جو پیغام تکثیری اور اقلیتی عوام الناس کو دیا وہ پوری طرح صوفیائے کرام کی تعلیمات کا ہی عکسِ جمیل ہے۔ حضرت گرونانک جی نے ہندو دھرم اور اسلام کی اچھی باتوں کو ملا کر اپنا مخصوص روحانی مسلک ایجاد کیا۔ وہ تمام دُنیا کے انسانوں کو ایک خدا کی مخلوق مانتے ہیں، کائنات کا خالق صرف خدائے واحد ہے، ہندو مسلم میں تفریق، تعصب و تنگ نظری اور جہالت ہے۔ گروجی فرماتے ہیں:
ایشور اللہ نور اُپایا قدرت دے سب بندے
ایک نور سے سب جگ اُپجیا کو بھلے کو مندے
حضرت نانک پر اسلامی تعلیمات کا کتنا گہرا اثر تھا اس کا اندازہ ان کے اس پد سے بآسانی لگایا جاسکتا ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں فرماتے ہیں:
ا ّٹھوں پہر بہوندا پھرے کھاوَن سِنڑے سُول
دوزخ پوندا کیوں رہے جاںچت نہ ہوئےرسول
یعنی وہ آٹھوں پہر بھٹکتا پھرے، اس کے سینے میں درد غم کے خار چبھتے رہیں، وہ دوزخ میں کیوں نہ پڑے جب اس کے دل میں رسولؐ کی چاہ نہ ہو۔
حضرت بابا نانک نے ملک کے بہت سے سادھو سنتوں کاعارفانہ کلام جمع کرکے اپنے مسلک کی مقدس کتاب ’گرو گرنتھ صاحب‘ کی تدوین فرمائی، جس میں حضرت بابا فرید گنج شکرؒ کا کلام نہایت نمایاں ہے۔ گرو نانک صاحب نے جب اپنی خانقاہ (دربار صاحب یا گولڈن ٹیمپل) کی تعمیر کا ارادہ کیا تو اس کا سنگ بنیاد ظاہر ہے کہ ایک خاص مقصد کے تحت اُس دور کے خدا رسیدہ بزرگ حضرت میاں میر بالا پیرؒ کے دست مبارک سے رکھواتے ہیں۔ گروجی کے اس مقصد کو نامور صحافی اور دانشور خشونت سنگھ کے اس بیان سے سمجھا جاسکتا ہے کہ:
’’مسلم صوفیاء خصوصاً سلسلۂ چشتیہ کے صوفیاء کی تعلیمات کا بھکتی تحریک پر اثر ہوا، اُس تحریک کے نامور افراد میں کبیر، نامدیو، تکارام، نانک اور شری گرو صاحبان شامل تھے۔ ان افراد کا کلام گروگرنتھ صاحب میں شامل ہونا اس بات کی سب سے بڑی شہادت ہے۔‘‘ (سعدیہ دہلوی کی کتاب کا پیش لفظ)
اور آخر میں مغلیہ سلطنت کے طاقتور شہنشاہ جلال الدین اکبر کے دَور پر اچٹتی سی نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اکبر اپنی فراخ دلی اور ہندو مسلم اتحاد کومضبوط کرنے کے لیے اسلامی شریعت کی حدود سے گمراہی کی حد تک تجاوز کرجاتا ہے۔ اس کے دَور میں تلسی داس، رام چرت مانس کی رچنا کررہے ہیں۔ ہنومان جی کی مدح میں وہ ہنومان چالیسا لکھتے ہیں، وہ ہنومان چالیسا جسے آج کی سیاست نے نفرت کا ہتھیار بنا لیا ہے۔ تلسی داس جی کا دوست اور قدردان عہد اکبری کا نامور سپہ سالار فارسی اور ہندی کا عظیم شاعر عبدالرحیم خانخاناں اپنی شاعری میں کرشن بھکتی کا جادو جگاتے ہوئے معاصر ہندو بھکتی رس کے شعراء کو حیران کردیتا ہے جبکہ اُس دَور میں عظیم بزرگ حضرت مجدد الف ثانی موجود ہیں جو شہنشاہ اکبر کی گمراہیوں پر تنقید کرکے قیدوبند کی صعوبتیں تو برداشت کرلیتے ہیں لیکن تاریخ و تذکار میں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ انھوں نے تلسی داس سے دوستی، ان کی بھکتی شاعری اور دیش کے بڑے بڑے ہندو دھرم کے ودوانوں اور شاعروں کی سرپرستی و قدردانی کرنے پر رحیم پر کوئی فتویٰ صادر کیا ہو، کیونکہ رحیم تو صوفیائے کرام کی اُسی روحانی فکر کے ترجمان ہیں جو انسانوں کو انسانوں سے محبت کرنا سکھاتی ہے:
رحمٰن دھاگا پریم کا مت توڑو چٹکائے
ٹوٹے تو پھر نا جڑے ،جڑے گانٹھ پڑجائے
(رابطہ۔9212166170 )
[email protected]