جموں وکشمیر ہائی کورٹ نے خواتین کے خلاف تشدد پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے متاثرین کی امداد کیلئے سرکاری سکیموں کی وسیع تشہیر پر زور دینے کے علاوہ تشدد کے اس سلسلہ کے خاتمہ کی بھی وکالت کی ہے ۔مفاد عامہ کی ایک عرضی کی سماعت کے دوران ایک مفصل حکم نامہ جاری کیاگیا ہے جس میں خواتین کیخلاف تشدد کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے ،وہ دل دہلادینے والا ہے۔اُن تفصیلات میں جائے بغیر ماہرین سماجیات کی جانب سے گزشتہ برس کئے گئے ایک سروے کے مطابق کشمیر میں40فیصد سے زائد خواتین گھریلو تشدد کی شکار ہیں۔سروے کے مطابق گھریلو تشدد کے بیشتر معاملات میں وجوہات دہیج ،سسرال والوں کی مداخلت ،غلط فہمی ،شوہر کی طرف سے زیادتیاں، بچیوں کو جنم دینا وغیرہ شامل ہیں۔ سابق ریاستی خواتین کمیشن کے اشتراک سے2003میں ایک سروے کیاگیاتھا جس میں پایا گیا تھا کہ کشمیر میں30فیصد خواتین کو اپنے شوہروں کی جانب سے جسمانی تشدد کا سامنا ہے۔ تاہم اب یہ تعداد40فیصد سے متجاوز ہوچکی ہوگی۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق سابق ریاستی خواتین کمیشن میں سالانہ خواتین کی جانب سے گھریلو تشدد سے متعلق 1600سے1700شکایات درج کی جاتی تھیں اور ان میں سے بیشتر شکایات کشمیر صوبہ سے ہوتی ہیں اور یہاں بھی بیشتر شکایات جنوبی و وسطی کشمیر سے ہوتی ہیں۔جس کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف گائوں دیہات بلکہ قصبات اور سرینگر شہر میں بھی خواتین کو تشدد کا سامنا ہے۔ ماہرین سماجیات کے مطابق اگر چہ گزشتہ کچھ دہائیوں کے دوران خواتین کافی حد تک بااختیار ہوئی اور وہ تعلیم کے زیور سے بھی آراستہ ہوئیں تاہم اس کے نتیجہ میں شادیوں میں سسرالیوں کی جانب سے مطالبات میں بھی اضافہ ہوا۔ماہرین کے مطابق کشمیر میں اگر چہ آگہی آئی تاہم خواتین پہلے سے زیادہ غیر محفوظ بن گئیں اور انہیں ہر وقت مردوں کی جانب سے خطرات لاحق رہتے ہیں۔غور طلب با ت یہ ہے کہ کشمیر میں خواتین کی جانب سے خود سوزیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے اور شاید ہی ایسا کوئی دن گزرتا ہوگا جب خواتین کی جانب سے خود کشی کے معاملات سامنے نہ آتے ہوں۔ کشمیر میں روزانہ اوسطاً دو خواتین خود کشی کرلیتی ہیں اور اگر چہ میں نصف تعداد غیر شادی شدہ لڑکیوں کی ہوتی ہے تاہم نصف تعداد شادی شدہ خواتین کی ہوتی ہے جو گھریلو تشدد کی وجہ سے اپنی زندگی کا خاتمہ کردیتی ہیں۔متمدن معاشروں میں اس طرح کے رجحان کی کوئی گنجائش نہیں ہے تاہم افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کشمیر کے مسلم معاشرے میں اس رجحان میں اضافہ ہورہا ہے۔یہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ حکومت کے پاس خواتین کے خلاف گھریلو تشدد روکنے سے متعلق قانون کو عملیانے کیلئے پیسے نہیں ہیں جس کا اعتراف خود حکومت کرچکی ہے ۔دوسری بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ کشمیر کا معاشرتی نظام ایسا ہے کہ یہاں خواتین گھریلو تشدد برداشت کرلیتی ہیں لیکن کسی سے کہہ نہیں پاتی اور جب و ہ حد سے گزر جاتا ہے تو وہ خود کشی کرنے میں ہی اپنی عافیت محسوس کرلیتی ہیں۔مادہ پرستی ،شکم پرستی اور حرس نے کشمیر ی معاشرے کو اس قدر اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے کہ اب اس کے سوا کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا ہے۔نفسا نفسی کا عالم ہے اور اجتماعیت کا تصور فوت ہوچکا ہے ۔بیٹی بوجھ بن چکی ہے اور بہو گھر کی شان کی بجائے بحران بن چکی ہے۔سماجی خرافات کی قربان گاہ پر لڑکیوں کوبھینٹ چڑھنا پڑتا ہے اور سماج ہے کہ اُف تک نہیں کرتا ہے۔یہ رجحان کشمیر ی معاشرے کیلئے کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔ایک طرف مسلمان ہونے اور دین داری کے دعوے اور دوسری جانب بنت حوا کے خلاف تشدد کے بڑھتے واقعات شرمناک ہیں۔خواتین کے وجود سے ہی تصویر کائنات میں رنگ ہے اور یہ خواتین ہی ہیں جو مردوں کو جنم دیتی ہیں جبکہ اسلام میں خواتین کا مقام بہت بلند ہے لیکن اسکے باوجود مسلم معاشرہ میں خواتین کے زیادتیوں کا یہ عالم افسوسناک ہے ۔
دراصل اس سماج میں جہاں عام لوگ دین سے دور ہوچکے ہیں وہیں علماء نے بھی اپنے آپ کو محض جمعہ کے خطبات تک محدود کرکے رکھا ہے اور اصلاح معاشرہ کی کوئی کوشش نہیں ہورہی ہے۔حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ذمہ دار ٹھہرانا ٹھیک بات ہے لیکن اس سے قبل ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کہیں ہم سے تو کوئی کوتا ہی مت ہورہی ہے۔حکومتی سطح پر بھی لازم ہے کہ سکولوںمیں اخلاقی و دینی تعلیم کا نظم کیاجائے اور خواتین کے تحفظ کا کوئی ایسا نظام وضع کیاجائے کہ جو خواتین کے ساتھ زیادتی کا مرتکب ہو ،اس کو ایسی عبربتاک سزا ملے کہ وہ دوسروں کیلئے نشان عبرت بن جائے ۔جب عورت محفوظ ہوگی اور عورت اپنے مقام کو پالے گی تو سماج کی رنگینی بحال ہوگی اور کشمیری سماج اپنی شان رفتہ بحال کرپائے گا ۔