مینا یوسف
کہا جاتا ہے کہ مرد اور عورت زندگی کی گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں ۔بعض صورتوں میںیہ بھی کہا جاتا ہے کہ عورت وہ پچھلا پہیہ ہے، جس سے سارا زور لگا کر زندگی کی گاڑی کو رواں دواں رکھنا ہوتا ہے اور مرد وہ اگلا پہیہ ہے، جو اپنی شان و شوکت برقرار رکھنے کے لئے آگے رہنا پسند کرتا ہے۔ یہاں پر یہ بات کہنا بے جاہ نہ ہوگی کہ ایک کامیاب آدمی کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔یعنی کہ ایک عورت ایک مرد کوکامیابی دلانے کے ساتھ ساتھ اُس کے دکھ سکھ میں ہمیشہ اُس کے ساتھ رہتی ہے۔ایک عورت کے بغیر اس کائینات کاوجود ناممکن ہے۔ بقول شاعر؎
وجود زن سے ہے تسویر کائنات میں رنگ اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزدروں
عورت جسے خدا تعالی نے اتنی اہمیت عطا کر کے اس دنیا میں بیجا ہے، ایک گھرکو نہ صرف رونق بخشتی ہے بلکہ روشن کرتی ہےلیکن یہ عورت ہمیشہ سے کسی نہ کسی طرح کے گھریلو تشدد کا شکار ہوتی چلی آرہی ہے۔ بات آج کی نہیںاگر صدیوں پیچھے بھی نظر دوڑائی جائے تو بخوبی دکھائی دے گا کہ ہرا دوار میں عورت سہمی ہوئی،مغلوب اورظلم و تشددبرداشت سے زیر ہورہی تھی ۔ایک مطالعاتی رپورٹ کے مطابق موجودہ دور میں بھی ہر تین عورتوں میں سے ایک عورت کسی نہ کسی طرح کے گھریلوظلم وزیادتی کا شکار ہوتی رہتی ہے۔ کئی ماہرین کے مطابق لوگوں کے مطابق تشدد صرف مار پیٹ کا نام ہے یا اُ ن سے مردوں کے مقابلے میں زیادہ کام لینا نہیں بلکہ مختلف انداز سے صنف نازک کو جسمانی یا ذہنی طور پر پریشان کرنا بھی ظلم کہلاتا ہے۔عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ جب ایک لڑکی دوسرے گھر میں شادی کر کے آتی ہے تو اُس پر سسرال والوں کی طرف سے مختلف انداز سے ظلم و ستم کی نیزہ باری ہوتی رہتی ہے ،جن کے زخم بعض اوقات اُس کے لئے ناسور کی صورت اختیا ر کرلیتے ہیں اورکسی کو کچھ بتائے بغیرگھٹ گھٹ کر مرجاتی ہے۔ گویا اُس کے ساتھ اتنا ذہنی تشدد کیا جاتا ہے کہ وہ اندر ہی اندر گل سَڑ کرلاعلاج بیماریوں کا شکار ہوجاتی ہے اور بے زبان جانور کی طرح جان دیتی ہے۔آج بھی وقفہ وقفہ کے بعد ایسی خبریں آتی رہتی ہیں جن میں سسرالیوں کے ناروا سلوک اور زیادتیوں کے باعث بہو بیٹیوں کو اپن جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔کسی کی غربت اورسادگی پر اُسے طعنے دیئے جاتے ہیں ،کسی کو جہیز کم لانے پر کوسا جاتا ہے ۔کسی کو نوکری کرنے پر اور کسی کو نوکری نہ کرنے پر زیادیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ایک طر ف جہاں بعض بے غیرت شوہر اپنی بیویوں پر جسمانی تشدد روا رکھتے ہیں تو دوسری طرف سسرال والوں کی زبانی نیزہ باری بھی اُس پر جاری رہتی ہے،جس کے نتیجے میں کئی خواتین خود کشی جیسے انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہورہی ہیں اور کوئی خاتون قوت ِبرادشت دکھائے تو اُسے ہٹانے کے لئے مختلف قسم کے حربے آزمائے جاتے ہیں۔کہیں کسی کو جلایا جاتا ہے اور کہیں زہر دے کر قتل کیا جاتا ہے۔
این سی آر بی(national crime record buearu)کے مطابق ۲۰۱۹ میں خواتین کے ساتھ گھریلو تشدد کے چار لاکھ پانچ ہزار کیس درج ہوئےہیں۔اعداد و شمار کے مطابق ۸۶ فیصد عورتیں گھریلو تشدد کا شکار ہوئی ہیں، جن میں سے ۷۷ فیصد خواتین نہ تو شکایت درج کرواتی ہیں اور نہ ہی کسی سے مدد مانگتی ہیں۔جبکہ کورونا کی وبائی صورت حال میں عالمی لاک ڈاون کے دوران پوری دنیا میں خواتین کے ساتھ گھریلو تشدد کے واقعات میں مزید اضافہ نوٹ کیا گیا۔ آج کل کے ترقی یافتہ دور میں جہاں عورتیں کسی سے بھی پیچھے نہیں ،وہی اس صنف نازک کہی جانے والی عورت آج بھی تواتر کے ساتھ ظلم و زیادتیوں اور تشدد کا شکار ہورہی ہے۔چاہے وہ شادی شدہ خواتین کے ساتھ سسرال والوں کی طرف سے ہو ںیا دفتروں میں خواتین کے ساتھ کام کرنے والے مرد حضرات کی طرف سے ہوں یا شاہراہوں پر آوارہ پھرنے والےاوباش لڑکوں اورریلوں اور بسوں میں سفر کرنے والے غنڈوں کی طرف سے ہوں۔رپورٹوں کے مطابق گھریلو تشدد کے کئی ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جن میں شوہر اپنی بیوی کے سارے زیورات لے جا کر یا تو جوئے میں اُڑا دیتے ہیں یا کئی دیگر برُے کاموں میں صرف کر دیتے ہیں اور بیوی کوئی مخاصمت دکھائے تواُسے دھمکا کر رکھا جاتا ہے کہ چُپ رہے تو ٹھیک ورنہ اُس کا گلا کاٹ کر مار دیا جائے گااور نتیجتاً ایسا ہی کیا جاتا ہے۔ہمارے ترقی یافتہ سماج میں روز ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ کسی نہ کسی بہن ،بیٹی،بہو یا بیوی کے ارمان ادھورے رہ جاتے ہیں، اُس کے خوابوں اور جذباتوں کا جنازہ نکلتا رہتا ہے اور وہ ہر ظلم کواندر ہی اندر سہتے ہوئے آخر کارگھٹ گھٹ کر دم توڑ دیتی ہے۔
چنانچہ عورتوں پر گھریلو تشدد سے تحفظ دلانے کے لئے ۲۰۰۵ میں ایک ایکٹ بنایا گیا ۔جس سے ہندوستانی حکومت اور پارلیمنٹ کی طرف سے ۲۰۰۶ میں نافذ کیا گیا۔اس میں نہ صرف جسمانی تشدد بلکہ تشدد کی دیگر اقسام جیسے جذباتی،زبانی،جنسی اور معاشی بدسلوکی بھی قابل ذکر ہیں۔ اس یکٹ کے مطابق عورتیں اپنے اوپر ہو رہے کسی بھی تشدد کے خلاف آواز بلند کر سکتی ہے۔اس کے علاوہ پولیس تھانوں میں الگ سے لیڈیز انسپکٹر اور لیڈیز کانسٹیبل کی تعیناتی بھی یقینی بنائی گئی ہے تاکہ عورتوں پر ہو رہے تشدد کو روکا جا سکے۔ان سب کے باوجود عورتیں اپنے اوپر ہو رہے تشدد اور ظلم و زیادتی کو برداشت کرتی آرہی ہیں۔ہمارے اس معاشرے میں بیشترخواتین کسی نہ کسی وجہ سے آج بھی دب کر رہ گئی ہیں،اوراپنے آپ پر ہونے والے ظلم و زیادتی کے خلاف اپنی آواز اُٹھانے یا اپنا حق مانگنے کی کوئی جرأت نہیں کرتیںاور نہ معلوم کیوں گھٹ گھٹ کر مرنے کو ہی ترجیح دے رہی ہیں۔
صفا پورہ،مانسبل
[email protected]