شیخ ولی محمد
تعلیمی اداروں میں بچے درسی کتابوں میں صنعت کاری( Industrilization)کے بارے میں پڑھتے رہتے ہیں۔ تاریخ کا اُستاد انہیں یہ بھی بتاتا ہے کہ 1760سے لیکر 1850 تک انگلستان میں صنعتی انقلاب( Industrial revolution)کیسے آیا اور یہ کس طرح پوری دنیا میں پھیل گیا۔ صنعتی انقلاب کی بدولت مختلف ممالک کی معیشت (Economy) کیسے مضبوط ہوئی اور کس طرح روزگار کے بہت سارے مواقع پیدا ہوئے۔ صنعتی اداروں نے انسانی زندگی پربہت مثبت اثرات ڈالے۔ انسانی زندگی کو بدل ڈالا۔ مشینوں نے انسانی ہاتھوں کی جگہ لی۔ سائنس کا اُستاد بچوں کو کلاس میں سائنسی تھیوریاں (Theories) بتاتا ہے اور ان کی بھر پور وضاحت کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتا لیکن سائنس کے عملی روپ ٹیکنالوجی (Technology) کے بارے میں بچے نہیں جانتے۔ وہ روزمرہ زندگی میں کام آ رہے ٹیکنالوجی کے بہت سارے آلات دیکھتے رہتے ہیں تاہم ان کی بناوٹ اور ساخت سے بے خبر رہتے ہیں۔ گرمیوں کے موسم میں پنکھے کا لطف اُٹھاتے ہیں اور سردیوں میں ہیٹر سے اپنے آپ کو گرم رکھتے ہیں۔ جاڑے میں کڑاکے کی سردی میں گرم کپڑوں کا استعمال کرتے ہیں اور گرمیوں میں سوتی کپڑے پہنتے ہیں۔ پلاسٹک سے بنی ہوئی چھوٹی چیزوں سے لیکر بڑی چیزیں ہر روز دیکھتے رہتے ہیں جبکہ سٹیل کی چیزوں سے انہیں دن بھر واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ روزمرہ کی زندگی میں استعمال ہونے والی اشیاء کی ساخت اور بنانے کے طریقہ کار سے بے خبر ہوتے ہیں۔
فقط کتابوں کا مطالعہ کرنے سے بچوں میں اختراعی صلاحیت (Innovative development) پیدا نہیں ہوتی جب تک کہ بچے عملی طور پر کسی فیکٹری یا کارخانے کو نہ دیکھ سکیں جہاں پر مختلف چیزیں تیار کی جاتی ہیں۔ بچوں میں اختراعی جذبہ اور شوق پیدا کرنے کے لئے صنعتی مراکز کی سیر نہایت ہی اہمیت کی حامل ہے۔ نئی تعلیمی پالسی کا ہدف (Target) یہ بھی ہے کہ اب تعلیمی اداروں کا تقاضا یہی ہے کہ وہ روزگار ڈھونڈنے والے (Job seekers) کے بجائے روزگار دینے والے (Job providers) پیدا کر سکیں۔ وقت کے اس اہم تقاضے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ماہرین تعلیم نے اب اکیڈیمک کلینڈر کے لئے ایسا نصاب ترتیب دیا ہے کہ چھوٹے کلاسوں سے ہی بچوں میں مختلف قسم کے ہنر اور فن سیکھنے کاجذبہ پیدا ہو سکے۔ چھٹی جماعت سے ہی ان میں انٹرن شپ (Intership) کا تصور پیدا ہو سکے۔ تعلیمی سیشن کے دوران کم سے کم 10دن سکول کے ایسے ہونگے جن میں بچے کے کندھے پر بھاری وزنی بیگ نہ ہو۔ ان 10دنوں میں ایک دن ایسا بھی ممکن ہو جب بچے اجتماعی طور کسی کارخانے یا فیکٹری یا صنعتی مرکز کی سیر کر سکیں۔
صنعتی سیر کے فائدے:۔
جب بچے کسی صنعتی مرکز یا کارخانے کا سیر کر کے اپنی آنکھوں سے تیار ہوئی چیزوںکا مشاہدہ کرتے ہیں تو جو کچھ انہوں نے اب تک کتابوں میں پڑھا ہو یا انہوں نے اپنے اُستادوں سے سُنا ہو، اس بارے میں اب ان کا یقین پختہ ہو جاتا ہے۔ سیر کے دوران وہ صنعتی یونٹوں کے ذمہ داروں اور اہلکاروں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے مختلف چیزوں سے واقف ہوتے ہیں اور ان کے عملی علم میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر سکول منظم انداز میں بچوں کا صنعتی دورے کرائیں تو وہ انڈسٹریز کے ہر پہلو سے باخبر ہونگے۔ بچے متعلقہ صنعت کار اور انجینئر سے تفصیلات حاصل کرتے ہوئے بہت ساری چیزوں سے واقف ہوتے ہیں جیسے انڈسٹری کس قسم کی ہے۔جیسے چھوٹا کارخانہ (Small scale industry)،درمیانہ درجہ کا کارخانہ (Medium scale industry) یا بڑا کارخانہ (Large scale industry)،پیداواری یونٹ(Production Unit)،مارکیٹنگ یونٹ(Marketting unit) ،ایچ آر یعنی انسانی وسائل سے متعلق یونٹ(HR Unit) وغیرہ ۔خام مُواد( Raw material)مختلف مرحلوں سے گزر کر کیسے حتمی چیز( Finished goods)میں تبدیل ہوتا ہے۔ کارخانوں اور فیکٹریوں میں تیار ہو رہے چیزوں کا حجم دیکھ کر بچے خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ملک کی معیشت( Economy)میں صنعتی سیکٹر کا کتنا رول ہے۔ ہندوستان کی معیشت( Economy)اگر چہ زرعی سیکٹر سے جڑی ہوئی ہے اور 70فیصدآبادی زرعی شعبے سے وابستہ ہے تاہم اس کے باوجود ملکی مجموعی گھریلو پیداوار(Gross Domestic Product)یا(GDP)میں زرعی سیکٹر کا حصہ20.19فیصدہے۔ وجہ بالکل عیاں ہے کی زرعی پیداوار میں اضافہ کرنے کے لئے اگر چہ سائنس اور ٹیکنا لوجی کا بھر پور استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود قدرتی آفات اور غیر موافق موسمی حالات سے زرعی پیداوار متاثر ہو سکتی ہے۔ اس کے بر عکس صنعتی سیکٹر( Industrial sector)اس قسم کے حالات سے مستثنیٰ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملکی جی ڈی پی میں انڈسٹریل سیکٹر کا حصہ 25.92فیصدہے۔ یہی نہیں بلکہ پورے ملک کا جو ورک فورس( Force Work)یعنی مزدور طبقہ ہے، اس میں 17فیصدکا تعلق صنعتی سیکٹر(Industrial Sector)سے ہے۔ ملکی معیشت میں انڈ سٹریل سیکٹر کے اس غیر معمولی رول کو دیکھ کر بچوں کے لئے کسی صنعتی مرکز کی سیر نہایت ہی مفید اور معلوماتی ثابت ہو سکتی ہے۔ مختلف قسم کی انڈسٹریز کا مشاہدہ کرنے سے ان میں اختراعی خیالات( Innovative Ideas)پیدا ہوتے ہیں اور ان کا ذہن سائنسی ایجادات کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ یہ کارخانے اور فیکٹریاں مستقبل میں ان کے لئے عوامل ِ آمادگی(Motivational Factors)کا کام کرتے ہیں لہٰذا اس قسم کے مواقع طلباء کے لئے سنہری اوقات ہوتے ہیں۔
جموں و کشمیر یوٹی میں چھوٹے، درمیانہ اور بڑے صنعتی یونٹوں کا جال پھیلا ہوا ہے۔ ہر ضلع میں انڈ سٹریل سنٹرس قائم ہیں۔سیڈکو (SIDCO) اورسیکاپ(SICOP)کے تحت اس وقت یو ٹی میں 5294صنعتی یونٹس ہیں جو37341 کنال اراضی پر پھیلے ہوئے ہیں۔ دستیاب اعداد شمار کے مطابق رقبہ کے لحاظ سے انڈسٹریل گروتھ سنٹر لاسی پورہ( IGC Lassipora Pulwama) سب سے بڑا ہے جو 6193کنال اراضی پر پھیلا ہوا ہے اور جہاں پر 117صنعتی یونٹس قائم ہیں۔ اس کے علاوہ بڑے انڈ سٹریل سنٹرس میںانڈسٹریل اسٹیٹ رنگریٹ،انڈسٹریل اسٹیٹ کھنموہ ،انڈسٹریل اسٹیٹ شالہ ٹینگ،انڈسٹریل اسٹیٹ اومپورہ،فوڈ پارک دوآبگاہ،فوڈ پارک کھنموہ ،انڈسٹریل سینٹر بڑی برہمنا،انڈسٹریل گروتھ سینٹر سانبہ ،انڈسٹریل اسٹیٹ گھاٹی وغیرہ شامل ہیں۔اس صنعتی ڈھانچے سے اگر تعلیمی ادارے منظم انداز میں فائدہ اُٹھانا چاہیں توصنعت و حرفت اور تجارت سے وابستہ ہر آفیسر،ذمہ دار اور وہاں پر تعینات اہلکار اس کا خیر مقدم کریں گے۔ کیونکہ ہمارے آج کے نو نہال اور معصوم بچے جو کل کے صنعت کار ہونگے ،کی رہنمائی کرنا وقت کی اہم ضرورت اور پکار ہے۔
آخر پر اس سلسلے میں یہ بھی تجویز ہے کہ بچے اگر کسی صنعتی ادارے کی سیر کریں تو وہ اس روز اپنے ساتھ قلم و کاغذ رکھنا نہ بھولیں تاکہ وہاں پر مشاہدہ کے دوران مختصر نوٹس لکھ دیں اور بعد میں اساتذہ کی ہدایات اور نگرانی میں صنعتی ادارہ کے دورہ پرمبنی مفصل رپورٹ لکھیں۔ اس رپورٹ میں فوٹو گرافس کا استعمال بھی بہایت ہی مفید اور موثر رہے گاجس سے بچے اور صنعت کے درمیان تعامل پیدا ہوگا اور ساتھ میں یہی تحریری رپورٹ سکول نیوز پیپر میں شائع بھی ہوسکتی ہے۔
ای میل۔[email protected]
فون نمبر۔7051018892