ہم کچھ کہیں تو سرکار مخالف گردانا جاسکتا ہے، فوراً بوریا بسترا باندھ کر مملکت خداداد کا ویزا بنانے کی چیتاونی دی جا سکتی ہے کہ تم بھارت ماتا کی زمین پر رہ نہیں سکتے لیکن خود آر ایس ایس لیبر یونین کا شکوہ ہے کہ مودی سرکار کی معاشی پالیسی کارپوریٹوں کے تابع ہے۔نوٹ بندی اور دوسرے جلد باز قوانین نے تو کمزور طبقوں کا ذریعہ معاش ہی ختم کردیا ۔مطلب صاف ظاہر ہے کہ سب کا ساتھ کی فہرست میں مودی ہے ، شاہ ہے، امبانی ہے ،اڈانی ہے لیکن ایڈوانی جوشی نہیں کہ وہ بھی اڑھائی سال سے کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
خیر وہ تو بڑے لوگوں کی بڑی باتیں ہیں کیونکہ بڑے بڑے شہروں ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی رہتی ہیں لیکن ہمارے چھوٹے قصبوں میں بڑی اور لمبی باتیں ہوتی ہیں۔مانا کہ ہمارے چھوٹے شہر، قصبے اور گائوں ہیں لیکن اپنے یہاں چوٹیاں تو لمبی کٹتی ہیں ، پھر مار پیٹ بھی بڑی سخت ہوتی ہے ۔خون بھی خوب بہتا ہے۔،کچھ فوجی گولیوں سے کچھ اپنے لوگوں کی عجلت پسندی اور بھولے پن سے۔اسی لئے جب جمیل ڈار نے ٹریکٹر کئی مہینے چلایا اور بعد میں مالک سے تنخواہ مانگی تو ریڈ ی میڈ الزام سر تھوپا گیا کہ یہ چوٹی کٹائو گینگ کا ممبر ہے ۔پھر کیا تھا مار پیٹ ہوئی ، جنتا نے آئو دیکھا نہ تائو ،ادھر سے ٹوٹ پڑے ادھر سے توڑ دیا ، یہاں سے مار پِٹی وہاں سے پسلیوں کی جھنکار چھوٹی۔پچاس ہزار کیا مانگے پچاسوں زخم لے کر پولیس نے بچایا ۔ پیچھے پیچھے نعرے بازی چلی ۔یہ جو جمیل ڈار ہے، قوم کا غدار ہے ، اور ٹریکٹر مالک زیر لب مسکراتے ہوئے خود کلامی میں بولتا رہا :ہضم ہوئے پچاس ہزار ہے ،اب مجھے آیا قرار ہے۔جمیل ڈار کوئی اکیلا شکار نہیں پولیس اہلکار بھی فہرست میں تیار ہے۔اس کے سر الزام کہ وہ خواتین کی تصاویر لیتا ہے۔کہاں وہ زمانہ کہ خود پولیس والے الزام تراش کر ملزم کے بدن کی خراش ہی نہیں زخم کاری کے ذریعے پھلواری بنا دیتے، کہاں بیچ سڑک دختر کشمیر نے کرسی سے وردی والے کو بندھوایا اور پھر اس کی اپنی تصاویر منظر عام پر آئیں ۔کوئی عام خام بندہ نہیں بلکہ وردی پوش ۔وردی پوش تو الزام کے مسلسل کٹہرے میں کھڑے ہیں کہ مار پیٹ وہ کریں، پیلٹ وہ چلائیں، گولیاں وہ داغیں، بلکہ حد تو یہ کہ چوٹیاں بھی و ہیں کاٹیں۔ دروغ بر گردن راوی جس نے یہ افواہ پھیلائی کہ براہ راست وردی پوش ملوث ہیں۔شاید اسی لئے فلمی ہیرو نے کب کا فیصلہ سنا دیا تھا کہ مجھے تو سب پولیس والوں کی صورتیں ایک جیسی دکھتی ہیں۔اس لئے پولیس والا کیا، فوجی کیا، نیم فوجی کیا اہل کشمیر کسی کو موجی بننے نہیں دیں گے۔ مہمان کیا گدا گر کیا ،دونوں اصنافِ آدم عنقا ہو گئے ہیں ۔کہاں گائوں گائوں گھومنے والے گدا گر، کہاں شہر شہر موجود ماڈرن بھکاری کہ پانچ دس روپے لینے سے انکاری کہ صاحب آج کل مہنگائی کا زمانہ ہے پھر جی ایس ٹی نے تو جینا حرام کردیا ۔مانا کہ بیس لاکھ Turn Over پر کوئی گوشوارہ داخل کرنا نہیں لیکن ہم تو بیس سے تجاوز جو کر گئے کہ مودی سرکار کی جی ایس ٹی فوج جیٹلی صاحب کی قیادت میں تیار ،کب ہمیں پا بہ جولان کردے۔ہم جیسوں پر ہی تو نظر ہے باقی آپ سمجھ بیٹھے ۔ اب تو وردی پوش کے ساتھ دیر سویر وارد ہونے والا مہمان بھی بلائے جان نظر آتا ہے۔وہ تو خیر ایک دو دن مہمان بنتا تھا اور تیسرے دن بلائے جان کا روپ دھار لیتا لیکن اب کی بار مفتی سرکار میں سر شام ہی مہمان کی آمد ناگوار گزرتی ہے۔کہاں مہمان کی آمد باعث مسرت کہاں اب باہر والے گیٹ بند ہونے کے سبب وہ دروازہ پیٹتا رہے اور میزبان اندر ٹی وی پر خبریں سننے میں مصروف کہ آج کتنی چوٹیاں کٹی، کتنے ہجوم کا شکار بن کرپٹ گئے، کتنے پریس بیانات کا درد سہہ رہے ہیں اور مہمان بے چارہ بس دروازہ پیٹتا رہے۔صرف وہی خوش قسمت کہ کسی کی نظر نہ پڑے اور شک کی بنیاد پر ناک توڑ آنکھ پھوڑ کے دور سے گزرے ؎
وہ جو مہمان ہوتا تھا خدا کی دین ہوتا تھا
لے کے آتا تھا خوشیاں ،بڑا سکھ چین ہوتا تھا
کہاں اب مو تراشی نے سمے ہی بدل ڈالا
کھلے نہ اب کنڈی، رشتے کی تزئین ہوتا تھا
مہمان تو مہمان دودھ والا بھی شک کے دائرے میں ہے کہ اس کے برتن کا ٹھن ٹھن اب قینچی کا کرچ کرچ لگتا ہے۔ اخبار والا خبریں لکھتا رہتا ہے کہ لیکن ہاکر پر کڑی نظر ہے کہ اخبار گیٹ کی دراز کے اندر ڈالتے ہوئے کھرش کھرش بلیڈ یا استرا چلنے کی آواز سے مماثلت محسوس ہوتی ہے۔یہ اور بات کہ سبھی گھروں میں اتنی وافر زمین نہیں کہ سبزی یا پھول وغیرہ اگانے کے قابل ہو لیکن کئی گھرانے ایسے ہیں کہ مالی آتا رہتا ہے اور وہ اس وقت ہیبت ناک دکھتا ہے جب اس کے ہاتھ میں پیڑ وں کی تراش خراش کے لئے قینچی موئے تراش ہتھیار محسوس ہوتی ہے۔جسے کل تک آئو بھگت کرتے کہ باغیچے کی حالت سنوار دے گا آج مکینوں کی حالت بگاڑنے والا دیو لگتا ہے۔اپنے ملک کشمیر میں اگر کسی قسم کے ادارہ جات کی تعداد زیادہ ہے وہ یتیم خانوں اور خیراتی اداروں کی ہے ۔اپنی مرضی سے یا بادل نخواستہ اہل کشمیر ان اداروں کی امداد کرتے رہتے ہیں اور جب باریش کارکن مالی معاونت کے لئے گھر پدھارتے تو کچھ نہ کچھ ساتھ لے جاتے۔حالات کیا بدلے ، بال تراش اسکارڈ میدان عمل کیا کودے کہ ہر کوئی شک کے دائرے میں آیا۔خیراتی کارکنان کا قلم سرکاری قلم دکھنے لگا ، رسید بک وردی پوشوں کا روزنامچہ، ان کا بیگ باضابط قینچی بردار کا جھولا۔ سنا ہے آج کل ملک کشمیر میں خطوط اور پارسل تقسیم نہیں ہوتے ۔ہوں بھی کیسے کل تک ڈاکیہ ڈاک لایا ،ڈاکیہ ڈاک لایا کی آواز سنتے ہی چھوٹے بچے بھی لیٹر پکڑنے دوڑتے لیکن اب تو دروازہ اندر سے بند ہے اور اوپر والی چٹخنی بند ہے کہ کہیں مستی میں کوئی بچہ کھول نہ پائے۔ ہم تو وہ ہیں کہ جب بھی کوئی چیز اپنی آنکھوں اور اپنے تصور سے دیکھنا چاہیں تو کوئی فن کار مقابلے پر نہیں اُتر سکتا ۔ ہم نے سیلاب کے دنوں میں ایک معالج کی میت ڈیڑھ کروڑ روپے کے ساتھ مملکت خداداد پہنچا دی۔سیلابی ریلوں کو ایک باریش بزرگ کی طرف سے راستہ متعین کروایا اور شہری حدود کی شروعات میں نیم فوجی محافظ کی آنکھوں سے دیکھا، شہر پہنچتے پہنچتے فوجی گارڈ سے تصدیق کرائی اور شہر کے وسط میں ایک اور نیم فوجی سرشتے کے دربان سے دیدار کروایا۔پھر یہ مو تراش کس کھیت کی مولی ہے۔، اسے ہم کونسا روپ دھار لینے پر آمادہ کریں یہ ہماری سوچ پر منحصر ہے، یہ ہماری اپنی تصوراتی دنیا ہے۔
ہم کو تو بتایا گیا تھا کہ جب بھارت ورش کا بھگوا کرن ہوگا تو گنگا، گائے اور رام مندر اس کے نشان ہونں گے یعنی روٹی،کپڑا اورمکان کے بدلے یہی نئے تین نشان دکھیں گے لیکن ہم کو کیا معلوم تھا کہ ترشول ، نوٹ بندی اور جی ایس ٹی اصل بارود ہے جس سے بھگوا لوگوں کی توپ چلے گی۔ترشول تو پہلے چلے کہ اخلاق، جنید، پہلو، ریاض اور نہ جانے کتنے شکار ہو گئے ؟پھر نوٹ بندی کا تیر چلا اور غریب کاریگروں کی روٹی چھین لی۔یوپی کے مزدروں کا کپڑا چھن گیا کہ ان کے لوم بے کار ہو گئے۔مکان تو چھن ہی جاناتھا کہ پوری انڈسٹری پر سکوت چھا گیا۔پہلے نوٹ بندی کا وار ہوا پھر جی ایس ٹی نے شکار کر لیا۔البتہ جب بھکت جنوں اور ان کے ٹھیکیداروں نے نوکری حاصل کرنے کا نیا منترا دریافت کیا تو ہم حیران و ششدر رہ گئے۔جان بچانے میں عافیت سمجھی کہ اخلاق کے قاتلوں کو این ٹی پی سی میں نوکری دلائی گئی۔واہ! کیا منترا نکالا کہ مسلمان کو مار ڈالو اور نوکری پائومگر ایسے میں یوپی کا یوگی دیوالی منانے ایودھیا پہنچا ۔ قمقموں سے سارا علاقہ سجایا گیا کہ یوگی مہاراج کو رام راجیہ کی یاد آئی۔رام راجیہ جو بقول اس کے ایودھیا کا نظریہ ہے جس میں کسی کو دُکھ نہ پہنچے کوئی تکلیف محسوس نہ کرے۔کوئی مکین مکان یا روٹی کے لئے نہ ترسے یعنی زعفرانی لوگوں کے کتنے خوش رنگ سپنے ہیں لیکن یہ سپنے تب تک زندہ ہیں جب تک آگے اپنے ہیں ۔پھر بھلا دلت اور مسلم تو اس قبیل کے لوگ نہیں جنہیں رام راجیہ کی اچھی کہانی سنائی جائے ۔انہیں تو ترشول کے وار ہی کھانے ہیں،چابک کی مار ہی کافی ہے، تلوار کی دھار کی نصیب ہے ۔شاید اسی لئے بھاجپا سرکار میں جھارکھنڈ کی ننھی بچی بھات بھات (چاول چاول) کہتے جان کھو بیٹھی کہ آدھار کارڈ نہ ہوتے، اسے سات آٹھ دن کھانا نہ ملایعنی بھگوا کرن کے لئے ہزار ہا کروڑ دیوالی منانے، رام مندر بنانے اور اپنی تعریف میں سرکاری پیسہ خرچ کرکے اشتہار دینے کے لئے ہے لیکن بھوکی بیٹی کا پیٹ بھرنے کے لئے نہیں۔سرکار کی تعریفیں تو ہوں بھلے ہی بھارت ورش غریبی کے عشاریے میں سویں نمبر پر ہی رہے اور پھر شمالی کوریا یا بنگلہ دیش سے پیچھے ہی رہ جائے اور زعفرانی رام راجیہ میں بھلے انسانی راج نہ چلے مگر گئو راج تو چلتا ہے۔فرید آباد ہریانہ میں بھینس کا گوشت لے جانے والوں پر شکنجہ کسا۔ہجوم ٹوٹ پڑا،جتنی بھینس کی ہڈیاں نہ توڑی تھیں ،اتنی ان کی توڑی گئیں۔جتنا گوشت بھینس کا نہ لائے تھے، اس سے زیادہ ان کا کوٹا گیا۔پھر مزیدار بنانے کے لئے مصالحے کی جگہ ایف آئی درج ہوئی ۔جو حملہ آور وہ صاف بچ نکلے جو زعفرانی دہشت کا شکار ہوئے وہ پولیس والوں کے ہتھے چڑھے۔خیر گائے تو اہم شئے ہے، اسی لئے الور راجستھان میں ابھی پہلو خان کا خون خشک نہ ہوا تھا کہ مسلم گھرانوں سے اکیاون گائیں ضبط کرکے گئو شالہ کو بھینٹ کردیں۔یہ اور بات کہ جو گئو شالائوں میں ہیں، وہ سنبھل نہیں پا رہی لیکن مسلم گھرانوں کے پاس رہنے سے وہ شاید رتبہ کھو دیتی ہیں۔
ادھر خان لوگ شکار، ادھر مغل حکمران بھی جال میں پھنسے کہ ممبر اسمبلی نے نیا سنگیت بجایا ۔نئی تار چھیڑی ،نیا راگ الاپا کہ تاج محل بنانے والے غدار تھے ،اس لئے ان کی تعمیر شدہ کوئی چیز تاریخ کا حصہ کیسے بنے۔ ممبر اسمبلی کے سنگیت کی کان پھاڑ دھن ابھی جاری ہی تھی کہ ممبر پارلیمنٹ ونے کٹیار لائو لشکر کے ساتھ میدان میں کود پڑا کہ ہم تو بڑی سیٹ کے مالک بھلا چھوٹی سیٹ والا کچھ کہے اور ہم چپ رہیں۔اسے تو تاج کی جگہ ہندو مندر کے اندر شو لنگ دکھائی دیا جسے بقول اس کے توڑ کر وہاں مزار تعمیر کیا گیا۔یوگی مہاراج کو وہاں بھارتی مزدوروں کے خون پسینے کی بو محسوس ہوئی۔ ہم بھی کوئی کچی گولیاں نہیں کھیلے تھے کہ ہم نے بھی تاریخ کے اوراق اُلٹے، غداروں کی تعمیرات کی فہرست بنا ڈالی۔پھائوڑا لے کر تیار کھڑے ہیں کہ انگریز غداروں کی تعمیر کردہ ریل لائن تحس نحس کردیں۔لال قلعے پر پندرہ اگست کوئی ترنگا نہ لہرایا جائے۔قطب مینار تو ٹیڑھا میڑھا شو لنگم لگتا ہے ،اس لئے شو بھکتوں کے حوالے کر دیں۔ویسے ہم نے تو پھائوڈا اٹھانے سے پہلے سوچا تھا کہ ایسی سوچ والے کے جوتے مارے جائیں لیکن ا س کی قسمت اچھی کہ اب کی بار مودی سرکار نے جوتوں پر بھاری جی ایس ٹی لگا یاہے ۔کوئی جرأت ہی نہیں کر سکتا کہ اتنے مہنگے جوتے مارے جائیں ؎
یہ سماعتوں پہ جو شورہے یہ ہوائے وقت کا زور ہے
یا میرے ہی دل کا جو چور ہے جو چھپا ہے میری ہی گھات میں
رابط [email protected]/9419009169