ہے اپنے مخلصوں سے فلسطین ملتمس
میدان میں نکلئے، علم بھی اٹھایئے
امریکی فیصلے کی مذمت کا شکریہ
اب ہوسکے تو کوئی قدم بھی اٹھایئے
بدھ 13دسمبر2017کو ترکی کے دارالحکومت استنبول میں ہونے والے اسلامی تعاون تنظیم یااو آئی سی کے اجلاس میںبیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے اعلان کو مسترد کرتے ہوئے کہاگیاکہ امتِ مسلمہ کو امریکی صدر کا بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کا فیصلہ منظور نہیں اس کے برعکس وہ مقبوضہ بیت المقدس کو فلسطین کا دارالحکومت قرار دیتی ہے۔سوال یہ ہے کہ بس چند الفاظ پرمشتمل ایک عددبیان دینا اسرائیلی اورامریکی جارحانہ اقدام کوروکنے کے لئے کافی ہے۔ مقبوضہ بیت المقدس میں امریکی سفارت خانہ کھولنے کے بارے میں امریکی صدر ٹرمپ کے فیصلے کے ردعمل میں 57مسلم ممالک کی جانب سے مشرقی بیت المقدس کو فلسطین کا دارالحکومت قرار دینے کا اعلان قانونی، اخلاقی اور تاریخی حقائق کااظہاربجا لیکن کیایہ بیان بھی اسی وقت ہوامیں تحلیل نہیںہوا ، اور موقع پرہی اسکی ہوا،اکھڑنہیںگئی کہ جب امت مسلمہ کے لئے موت و حیات کے مسئلے پرہورہے ، اسلامی تعاون تنظیم یااو آئی سی کے اجلاس میں 57مسلم ممالک میں سے صرف22 ممالک کے سربراہانِ حکومت جبکہ 25 ممالک کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی ۔دشمنان دین کوٹھیک پتاچل گیااوراسے اس بات کااندازہ لگانے میں کوئی دقعت محسوس نہ ہوئی کہ مسلمان ممالک کے سربراہان مملکت اپنے قبلہ اول کے چھینے جانے پہ کس قدربے کلی اور پیچ وتاب میں ہیں۔سچی بات یہ ہے کہ یہ سب زبانی جمع خرچ ہے جسے امریکہ ،اسرائیل سمیت تمام دشمنان اسلام بہت پہلے سے پوری طرح واقف ہیں،اس لئے وہ قطعی طورپراسے اپنے لئے کوئی سرخ لکیرہرگزنہیں سمجھتے۔وہ ٹھیک سمجھتاہے کہ یہ بازوں میرے آزمائے ہوئے ہیں۔جبکہ امہ کویہ امیدتھی کہ پہلے جیسے طرزعمل سے علیٰ الرغم مسلم ممالک کے بزدل اورمدہوش حکمران،صلاح الدین ایوبی نہیں توشاہ فیصل ہی بن جاتے۔
اکتوبر1973میںجب اسرائیل نے جب عرب اسرائیل کی جنگ میں پہلے اسرائیل جنگ ہارگیاتھالیکن امریکہ کی عملی امدادسے جنگ کاپانسہ پلٹ گیااوراسرائیل شام اورمصرکے بہت اندرتک گھستاچلاگیا۔اس موقع پرشاہ فیصل نے ایک غیرت مندانہ فیصلہ لیتے ہوئے امریکہ ،کینیڈا،برطانیہ ،جاپان ،ہالینڈ،پرتگال ،رہوڈشیااورافریقہ شامل تھے ان تمام ممالک کوتیل کی ترسیل بندکردی جنہوں نے اسرائیل کی اس جنگ میں عملی مددکی تھی ۔ اس اقدام سے امریکہ اوریورپ میں ایک بڑابحران پیداہوا۔انکی سٹاک ایکسچینج کی مارکٹیں زوال سے دوچارہوئیں۔ایسی صورتحال امریکہ اوریورپ کے لئے ناقابل برداشت تھی اورتین ماہ کے اندراندرہی امریکہ اوریورپ نے گھٹنے ٹیک لئے ۔ صدرنکسن کے قدم ڈگمگائے اس نے اسرائیل کے پوری صورتحال رکھ دی اوراسے نہ صرف جنگ بندی پرمجبورکرایابلکہ وہ تمام علاقے واپس کروائے جومصرسے شام تک پنجہ یہودمیں آچکے تھے ۔امریکہ کایہ اقدام عربوں کے محبت میں نہیں اٹھاتھابلکہ شاہ فیصل کے تیل کے ترسیلی مقاطعے سے اپنی اوریورپ کی بدترین صورتحال کے پیش نظراٹھایاتھا۔اسے قبل صدرنکسن نے شاہ فیصل کوبہت ڈرایاکہ تمہیں اقتصادی موت مرناہوگاتوشاہ فیصل کاجواب تھا کہ ’’ہم عرب ایک اونٹ اورایک خیمے میں زندگی گذارنے کے عادی ہیںاسی پوزیشن پرواپس جائیں گے یہ گوارہ ہوگالیکن یہ ہرگزگوارہ نہیں کہ اپنافیصلہ واپس لیں گے‘‘تف ہے!آج کے عیاش حکمرانوں پرکہ جومسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کے چھن جانے پرکم ازکم شاہ فیصل جیساکردارنبھانے سے عاری ہیں۔
شاہ فیصل اوربھٹوکے بعدمسلمان ممالک پرمسلط حکمران قبلہ اول کی بازیابی کے حوالے سے عملی طورپرسپراندازہوچکے ہیںاوروہ صرف اپنے اقتدارکے تحفظ پرکمربستہ ہیں ،اپنے ابنائے وطن سے جس کے چھن جانے کاانہیںڈراورخوف لاحق ہے اوروہ اپنوں کی سرکوبی کے لئے پاکستان کے جنرل ریٹائرڈراحیل شریف کی کمانڈمیں’’اسلامی اتحادی فوج ‘‘تشکیل دے چکے ہیں،جس کے قیام کااولین وآخرین مقصد یہ ہے کہ ان کے ابنائے وطن میں سے کوئی ایک فردبھی ان کے اقتدارکے لئے خطرے کی گھنٹی نہ بجاسکے۔اگرایساہواتوبہت بڑادہشت گرد قرارپائے گااوراسکی گردن اونچی ہونے سے قبل ہی اڑادی جائے گی۔
تاریخ کے بیشترصفحات اوران کی ہرایک سطرہمارے زوال کی المناک کہانی پر رورہی ہے ۔OICتنظیم تعاون اسلامی کاقیام 21اگست 1969 کو مسجد اقصیٰ پر یہودی حملے کے ردعمل کے طور پر 25 ستمبر 1969 کو مراکش کے شہر رباط میںعمل میں آیالیکن عملی طورپربیت المقدس کوپنجۂ یہودسے چھینے میں ناکام رہی ۔ مشرق وسطی، شمالی، مغربی اورجنوبی افریقا، وسط ایشیا، یورپ، جنوب مشرقی ایشیا اور برصغیر اور جنوبی امریکا کے 57 مسلم اکثریتی ممالک شامل ہیں۔ او آئی سی کی ذمہ داریوں میں دنیا بھر کے 1.5 ارب مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ شامل تھا۔ماضی میں بھی بیت المقدس کی حرمت کو نقصان پہنچانے اور اسکی حیثیت تبدیل کرنے کی اسرائیلی کوششوں کے ردعمل میں مسلم ممالک کے سربراہی اجلاس بلائے گئے اور ان کے نتیجے میں آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس کے نام سے بننے والی تنظیم خاصی متحرک نظر آنے لگی۔ 1974 میں اس تنظیم کا سربراہی اجلاس پاکستان کے شہر لاہور میں منعقد ہوا جس میں مسلم ممالک کے درمیان اتحاد و تعاون کو فروغ دینے کا جذبہ عروج پر نظر آیا اور مسلم امہ کی آواز اقوام متحدہ سمیت عالمی فورموں اور دنیا بھر کے دارالحکومتوں میں سنی جانے لگی مگر بعدازاں مسلم ممالک کے ارباب حل و عقد مسلم دشمن قوتوں کی سازشوں کے اس طرح نشانہ بنے کہ ایک ارب سے زائد آبادی اور بے پناہ قدرتی وسائل کے حامل 57ممالک منتشر نظر انے لگے۔ پچھلے ہفتے سے پیدا ہونے والی صورتحال کے نتیجے میں اب آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن کہلانے والا فورم انگڑائی لیتا محسوس ہورہا ہے۔
اس کے تحت،ایک غیرفعال اور ایک بے معنی سی القدس کمیٹی قائم کی گئی جس کی قیادت مراکش کے فرمانروا کو سونپی گئی تھی اور اس کا دفتر رباط میں بنایا گیاتھا۔ اس کمیٹی کے قیام کا مقصد بیت المقدس پر اسرائیلی ریاست کے غیرقانونی قبضے کے معاملے کو زندہ رکھنا، اس کے لیے کوششیں کرنا، شہر کی عرب اور اسلامی شناخت کا تحفظ کرنا، اسے یہودیانے اور صہیونی عبرانی ریاست کا دارالحکومت بنانے کی سازشوں کا سد باب کرنا تھا۔بیت المقدس پراولاد صہیون کے پچاس سالہ تسلط کے دوران عربوں نے القدس کے حوالے سے سیکڑوں ترانے اور نغمے تیار کیے اور گائے۔ ان گنت نعرے بنائے اور لگائے گئے کہ ہم لاکھوں مسلمانوں کا لشکر لیے القدس پہنچ رہے ہیں۔مسلمانوں کی کوششیں نعروں، بیانات اور کمیٹیوں تک محدود رہی جب کہ صہیونی ریاست بیت المقدس کو یہودیانے کے لیے عملی سازشوں میں دن رات سرگرم عمل رہی۔اسرائیلی قبضہ صرف مشرقی بیت المقدس کے علاقوں پر نہیں بلکہ اس میں موجود تاریخی دینی مقامات جن میں مسجد اقصیٰ، قبہ الصخریٰ ، کنیسہ القیامہ پر قبضہ کرنے کے ساتھ دسیوں یہودی کالونیاں تعمیر کی گئی ہیں۔ مسجد اقصیٰ کی بنیادیں کھوکھلی کرنے کے لیے اس کے نیچے سرنگوں کا جال بچھایا جا رہا ہے اور نام نہاد ہیکل سلیمانی کی بنیادوں کی تلاش کے دوران مسجد اقصیٰ کی بنیادیں کمزور کی جا رہی ہیں۔بیت المقدس میں رہنے والے فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے۔ ان کے گھر مسمار کیے جا رہے ہیں اور نئے گھر بنانے کی اجازت نہیں۔اب فلسطینیوں کے پاس چند ایک پرانی کالونیاں رہ گئی ہیں۔اسرائیلی ریاست کی ناروا پابندیوں کے باعث مقبوضہ مغربی کنارے کے فلسطینی بھی نماز کے لیے بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ میں نہیں جاسکتے۔اب اگرچہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی کا سربراہی اجلاس بلاکر اس باب میں پہلا قدم اٹھایا ہے لیکن اس ایک روز منعقدہ ہنگامی اجلاس میں امریکہ اور اسرائیل کے خلاف ایسی اقتصادی پابندیوں اورانکی مصوعات کابیکاٹ کا اعلان کیاگیااورنہ ہی ان مسلمان ممالک نے جن کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں منقطع کرنے کی کوئی نویدسنائی۔
عالم اسلام کے حکمرانوں کا افسوس ناک رویہ ہے،جوآج تک قبلہ اول پر یہودیوں کے ناجائز قبضے کو چھڑواسکے ہیں اورنہ فلسطینی مسلمانوں پر آئے روز ہونے والے مظالم کو رکواسکے ۔سلام ان نہتے فلسطینی ہیں جو پچھلے ستر سالوں سے گردنیں کٹوانے کے باجودآج بھی غاصب یہودیوں کے سامنے سینہ تان کرکھڑے ہیں ۔عالم اسلام کے حکمرانوں کو کم ازکم ان نہتے فلسطینی مسلمانوں سے سبق سیکھنا چاہئے ،جواس قدر مظالم سہنے کے باوجودبھی یہ کہہ رہے ہیں کہ مسجداقصی ہماری گردنوں میں امانت ہے۔اس امانت کی خاطر ہماری گردنیں کٹ سکتی ہیں،مگر جھک نہیں سکتیں۔تف ہے !عالم اسلام کے ان نام نہاد لیڈروں پرجو امریکہ کو اربوں ڈالر دیتے ہیں مگر امریکہ کے بے غیرت بچے اسرائیل کو سفاکیت سے نہیں روک پاتے۔افسوس عالم اسلام کے اہل مذہب پر جو حکمرانوں کے درباروں میں جاکران کے تلوے چاٹتے ہیں اور ان کے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے افسوسناک طرزعمل اختیارکئے ہوئے ہیں، مگر اسرائیلی یہودیوں کے قبلہ اول کی بے حرمتی پر ان حکمرانوں کو غیرت نہیں دلاتے۔کس قدر بے شرمی کی بات ہے کہ کیمونسٹ کیوبا کی ایک خاتون فلسطینی مظلوموں کی خاطریونیسیکو کے ایک اجلاس کے ذریعے دنیا بھر میں اسرائیل کورسواکرسکتی ہے مگر بھاری بھر فوج اور مال وودلت کی فروانی رکھنے والے مسلمان ملکوں کے حکمران اسرائیل کو مسجد اقصی کی بے حرمتی سے نہیں روک سکتے۔
عرب ملکوں کا تعلق ہے وہ آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں اڑانے میں لگے ہوئے ہیںجبکہ بعض اپنے ہی ابناء وطن کودہشت گرداورخارجی کہہ کران کاقلع وقمع کررہے ہیں انہیں اس قدرخوفزدہ کردیاگیایاانہیں ایسی مشروپ پلادی دی گئی کہ وہ قبلہ اول کی بازیابی کے حوالے سے کوئی مظاہرہ ،کوئی احتجاج کرنے کے قابل ہی نہ رہے اب جب کہ ٹرمپ نے باضابطہ اعلان کردیاکہ بیت المقدس یہودکامعبدہے نہ کہ مسلمانوں کاقبلہ اول تو پوری دنیاکے مسلمانوں میں ہلچل مچ گئی لیکن اس موقع پرعرب حکمرانوں نے اپنے عوام کوبیت المقدس کے بجائے سینماگھروں کی جلوہ نمائی فرمائی۔اس موقع پرسعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کاکہناتھا کہ جدت کو انحطاط خیال کرنے والے انتہا پسندکے لیے مملکت میں کوئی جگہ نہیں ہے ۔یہی صورتحال عجم کے مسلم حکمرانوں کی ہے ۔ الغرض مسلمان حکمران سب کے سب اپنے اقتدار اور کرسیاں بچانے کے چکروں میں ہیں۔
فلسطینیوں کی بات الگ ہے جب تک القدس پر صہیونی ریاست کا ناجائز تسلط قائم ہے فلسطینیوں کی روح مزاحمت بھی زندہ ہے۔ گوکہ مزاحمتی قوتوں کو محصور کرکے صدی کی ڈیلیں طے کی جا رہی ہیں۔ کیا القدس کوآج کسی اور صلاح الدین ایوبی کی ضرورت ہے جو جہاد کی روح بیدار کرے اور اللہ کے حکم سے القدس کو آزاد کرتے ہوئے اس میں داخل ہوئے۔غزہ کی پٹی کا محاصرہ اور حماس کے گرد گھیرا تنگ کرنے میں صرف اسرائیل ہی نہیں بلکہ خطے کے دوسرے ممالک اور فلسطینی اتھارٹی بھی اس کار شرمیں برابر کے شریک رہے۔ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہوا جب خطہ کھا جانے والے بحرانوں کا شکار ہوگیا۔ حماس پر دبائو بڑھا تو اس نے غزہ کی پٹی سے دست کش ہونے اور انتظامی امور محمود عباس کے سپرد کرنے کا اعلان کیا۔ حماس نے اپنی کم سے کم قومی امنگوں اور مطالبات پر قائم رہتے ہوئے حکومت سے الگ رہ کر اسرائیل کے خلاف مسلح مزاحمت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔واضح رہے کہ یہ آج کی بات نہیں کہ مسجداقصیٰ کواُمہ سے چھیناجارہاہے بلکہ یہ سلسلہ بہت پہلے سے جاری تھالیکن مسلمان بزدل حکمران مجرمانہ طرزعمل اختیارکرتے ہوئے اس سلسلے کوروکنے کے لئے کوئی اقدام اٹھاتے نظرنہیں آئے۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کاقبلہ اول چھینے کے لئے کب اورکس طرح کی جارحیت ہوتی رہی ہے۔
ؕ