بیسویں صدی کے ابتدائی لگ بھگ تیس برسوں میں مصطفے ٰکمال پاشا کا نام لوگوں کی زبان پر بہت زیادہ رہا ۔بہت دنوں تک یہ شخص دن کی بڑی خبر،وقت کی سب سے زیا دہ اہم آواز اور زمانے کی سب سے بڑی برگزیدہ شخصیت سمجھاگیا ۔ برصغیر ہند (پاکستان وجود میں نہیں آیا تھا )کے عوام الناس مصطفیٰ کمال کی شخصیت سے بے حد متاثر تھے بلکہ ایک مخصوص جماعت تو اُس کی مالا جپتی تھی حالانکہ من حیثیت الجماعت وہ اُنہی دنوں قابض انگریز کے حلیف بن کر اُبھرامگر وچار دھارا بہت پہلے سے اُن کی وہی تھی جس کے کڑوے ثمرات آج اتنے برسوں بعد کھل کر سامنے آرہے ہیں۔
مصطفیٰ کمال کی پیدائش یونان کے شہر سالونیکا میں 1881ء میں ہوئی ۔دس سال کی عمر میں اُسے سکول میں داخل کرایا گیا مگر سکول کی مروجہ تعلیم سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے اُس نے فوجی سکول میں داخلہ لیا۔سن 1904ء میں اُس نے حربیہ اسٹاف کالج استنبول سے فوجی تعلیم مکمل کی اور سیاست سے الگ رہنے کی شرط پر سن 1906ء اُسے شام میں متعین گھوڑ سوار دستے کا کیپٹن مقرر کردیا گیا ۔ سن1911ء میں وہ ترکی وزیر جنگ کا نائب رہا اور اس دوران ترکوں کی انقلابی تنظیم میں گہری دلچسپی لیتا رہا ،اسی وجہ سے یعنی سیاست میں دلچسپی لینے کی پاداش میں ہی سلطان عبدالحمید ثانی نے اُسے قید میں ڈال دیا تھا ۔اُسی سال یعنی سن 1911ء میں مصطفیٰ کمال کو لبنان میں اٹلی کی فوج کا مقابلہ کرنا پڑا اور سن 1912ء میں اُس نے بلقان کا محاذ سنبھال لیا ۔ سربیہ،بلغاریہ،یونان اور البانیہ کی فوجوں سے تمام محاذوں پر خوں ریز لڑائی لڑانا پڑی،درۂ دانیال کی فتح کے ساتھ ساتھ مصطفیٰ کمال کی شہرت ترکی کے طول و عرض میں پھیل گئی اور وہ ایک فوجی ہیرو کی حیثیت میں زبان زد عام و خاص رہا اور اُس کی قلمی تصویریں گھروں کی دیواروں پر آویزاں ہونے لگیں۔سن1920ء میں قومی اسمبلی نے اُسے اپنا سربراہ منتخب کیا اور اس طرح سے ایک نئے زمانے کی داغ بیل پڑگئی ۔ سن1923میں نئے اسمبلی انتخاب کے ساتھ ہی مصطفیٰ کمال نے صدر کی حیثیت سے بادشاہت کے خاتمے اور جمہوریت کے قیام کا اعلان کردیا اور یہیں سے ہیرو زیرو لیول پر آگیا اور ایک طاغوتی پنجے نے اُسے جکڑ لیا ۔مسلمان نام کا مسلم سربراہ مسلمانوں کا ہی دشمن ثابت ہوگیا ،بقول حفیظ ؔ میرٹھی ؎
چارہ گر تو قاتل نکلا
ہم سمجھے تھے مسیحا ہوگا
اور اس طرح سے اُس نے سن 1924ء میں خلافت کا منصب مکمل طور ختم کردیا جس کا پودا یہود نے سلطان عبدالحمید کے دور خلافت میں ہی مدحت پاشا کے ہاتھوں سے لگوایا تھا ۔برطانیہ ،فرانس ،روس اور بلقان کی ریاستوں سے معاہدے ،ایران ، افغانستان ،عراق اور کئی دوسرے ممالک کے ساتھ دوستانہ روابط قائم ہونے اور ترکی کو جدید تر بنانے کے منصوبے پر عمل درآمد شروع ہوگیا ۔سابقہ آئین کو کالعدم کرکے ملک کا آئین اور قوانین جدید اصولوں پر مرتب کئے گئے ۔نظام تعلیم کو یکسر بدلا گیا ،ترکی کی زبان کا رسم الخط رومن میں تبدیل کردیا گیا ۔عورتوں کی مکمل آزادی (یا بربادی) کا اعلان ہوا ۔پردے کی مخالفت اور اسکرٹ کی حوصلہ افزائی کی گئی۔حد یہ کہ مدرسوں ،درسگاہوں اور مسجدوں میں تالے ڈالے گئے اور اذان دینے پر پابندی عائد کی گئی ۔یوں اُس نے اپنے ہی تابوت میں آخری کیل گاڑ دی۔شیطان صفت یہود،گول والکر برادری اور ساری نصاریٰ یورپی برادری کے ساتھ ملحدوں نے بھی جم کر خوشیاں منائیں اور جام ٹکرائے۔سامری نے مونچھوں پر تائو دیا اور شیطان نے بھی خوب خوب قہقہے لگائے ،بزرگوں کا کہنا ہے ؎
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
مصطفیٰ کمال کو مرے ہوئے زائد از ستھر سال ہوگئے ہیں مگر اُس کا پھیلایا ہوا زہر کافی دیر تک ترکی کی رگوں میں موجود رہا ۔باپ کے مرنے کے بعد صرف نو سال کی عمر میں اُس نے نیلے آسمان پر گھونسہ تان کر اپنی کج روی،کنج ذہنی فتور اور غرور کی تان میں آکر کہا تھا :’’آدمی کے ستانے والے میں تمہیں ریز ہ ریزہ کردوں گا ۔‘‘اُس کی پیدائشی یہود نوازی اور اسلام دشمنی کی ’’لمحوں کی خطا ‘‘موجودہ عصری ماہ و سال اب بھی بھُگت رہے ہیں۔اس کی تازہ ترین مثال ہمارے ذی حِس حجاج کرام نے چند برس قبل تک خود اپنی آنکھوں سے حرمین شریفین میں مشاہدہ کی ہوگی۔اول تو بے تحاشا لوگ ترکی سے حج کے لئے اپنی ہی وردی میں آتے تھے جن میں عورتوں کی تعداد غالب لگتی تھی،ہر ایک زائر کی جیب پر دل کے پاس ترکی کا لال جھنڈا بنا ہوتا ،جس کے نیچے انگریزی حروف تیجی میں ٹرساب(TURSAB)لکھا ہوتا تھا ۔ مست سانڈوں کی طرح جھومتے جھومتے قوی الحبثہ مردوزن نماز اور نمازی کا کوئی لحاظ نہیں کرتے تھے ۔نمازیوں کے سامنے سے عجلت میں پھلانگتے ،بچھے ہوئے مصلوں پر جوتوں کے ساتھ چلتے اور لوگوں کو روند کر گذر جاتے تھے۔سجدوں میں نمازیوں کے سروں پر بے دریغ ٹھوکر مارتے ،خانہ کعبہ کے احترام سے نابلد تھے ۔راقم نے خود دیکھا کہ یہ لوگ روضۂ مطہرہ کے سامنے سنہری جالی کے پاس جانے انجانے بے ادبیوں کے مر تکب ہوتے تھے۔جی بہت سٹپٹا تا تھا ،حد سے گزرنے کو چاہتا تھا مگر ہمیشہ حرم مدینہ کا تقدس آڑے آتا تھا ۔ایک اندازے کے مطابق بیشتر تُرک جو اُن دنوں حج کے لئے آتے تھے ،مناسک حج ،دعا و دیگر کلمات اور کئی لوازمات سے نا واقف ہوتے تھے ۔ایسا عام حجاج کا ماننا تھا ۔اُس وقت تک تو مصطفیٰ کمال کے بوئے ہوئے ببول دین اسلام کے پیروں میں چبھتے رہتے تھے مگر اللہ کا شکر ہے آج وہ حالات کہیںنہیں ہیں ۔میں نے بذات ِ خود سابقہ دو تین عمروں کے دوران واضح فرق محسوس کیا ،حتیٰ کہ سال رواں میں بھی میری کئی ترک نوجوانوں کے ساتھ لمبی گفتگوئیں ہوئیں جن سے ایمان تازہ ہوتا تھا۔آثار و قرائن اور مشاہدے سے تو یہی لگ رہاہے کہ ترکی کے موجودہ صدر طیب اردگان میں اسلام کی محبت بھی ہے اور جوش و جذبہ بھی بھرا ہے۔وہ واحد مسلمان سربراہ ہیں جس نے امریکی صدر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یروشلم کو اسرائیل کا دارالخلافہ بنائے جانے کی مخالفت کی ۔اُن کی قیادت ترکی کے لئے نشاۃ ثانیہ اور مجموعی طور پر ساری اسلامی دنیا کے لئے نیک فال ہے ۔اللہ تعالیٰ اُن کی عمر دراز کرے ۔آمین
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر-190001،کشمیر،
موبائل نمبر:-9419475995
�����