دنیا بھرمیں صحافیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کے باوجود دنیا کے کئی ممالک میں صحافی برادری کو مختلف قسم کی مشکلات اور خطرات کا سامنا ہے۔ گزشتہ دِنوں وسط مدتی انتخابات سے متعلق وہائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کے دوران عالمی نشریاتی ادارے سی این این کے صحافی جِم اکوسٹا نے صدر ٹرمپ سے وسطی امریکہ میں سرحد کے قریب آنے والے تارکین وطن کے قافلے کے بارے میں سوال پوچھنے پر صدر امریکہ نے بے حد غصے میں اُن سے کہا: ’’تم بہت برے اور بدتمیز شخص ہو، مائیک چھوڑو۔‘‘ اس کے بعد وہائٹ ہاؤس کی ایک اہل کار نے صحافی سے مائیک لینے کی کوشش کی لیکن اُنہوں نے اُس کا ہاتھ جھٹک دیا۔ٹرمپ سے سخت اور تلخ سوال پوچھنے پر صحافی جم اکوسٹا پر وہائٹ ہاؤس میں داخلہ پر پابندی لگا دی گئی اور اُن کا اجازت نامہ معطل کر دیا گیا۔ دنیا میں ڈونالڈ ٹرمپ کی اس حرکت کی پُرزور مذمت کی گئی۔ سی این این کے صحافی سے امریکی صدر کی کہا سنی کا ویڈیو جب میڈیا اور سوشل میڈیا پر تیزی سے پھیلاتو اس بابت امریکی میڈیا کا ایک گروہ ایسا بھی ہے جو کہیں نہ کہیں یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ جم اکوسٹا ٹرمپ کو چھیڑ کر کیمرے کو اپنی جانب مرکوز رکھنا چاہتے تھے تاکہ سی این این یہ دکھلائے کہ کس طرح ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارے ایک بہادر صحافی نے ڈونالڈ ٹرمپ کو ٹوکا اور حقائق جاننے کی کوشش کی۔
اس الزام میں کتنی صداقت ہے یہ تو ہم نہیں جانتے مگر ویڈیو دیکھنے سے محسوس ہوتا ہے کہ ٹرمپ کی طرف سے مناسب جواب نہ ملنے پر نامہ نگار نے اپنی بات بار بار کہنے کو ترجیح دی۔ ٹرمپ نے رپورٹر پر جھوٹ کا الزام لگانے کی کوشش کی۔ وائٹ ہاؤس کی ترجمان سارہ سینڈرز نے کہا ہے کہ صحافی اکوسٹا کا اجازت نامہ معطل کرنے کی وجہ اُن کے سوالات نہیں بلکہ اُس نوجوان لڑکی کو ہاتھ لگانا تھا جو وہاں موجود تھی ۔ خیال رہے کہ وسط مدتی انتخابات کی مہم کے دوران ٹرمپ نے کہا تھا کہ میکسیکو سے امریکہ میں داخل ہونے والے پناہ گزینوں نے اگر فورسز پر پتھرائو کیا تو اُنہیں براہ راست گولی مار دی جائے گی ۔ٹرمپ کے جارحانہ مزاج کی وجہ سے اُن کے اور امریکی میڈیا کے درمیان تلخی بڑھی ہے۔ چند ماہ قبل ٹرمپ نے امریکی میڈیا کو عوام کا دشمن اور اپوزیشن پارٹی کہہ کر مخاطب کیا تھا۔ اس کا سخت نوٹس لیتے ہوئے آپسی تال میل کے ساتھ ساڑھے تین سو سے زیادہ امریکی اخبارات نے ڈونالڈ ٹرمپ کے خلاف اداریے لکھے تھے۔برطانوی اخبار دی گارجین بھی اس مہم کا حصہ تھا۔ اقوام متحدہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے اِس بیان نے صحافیوں کے خلاف تشدد کو بڑھایا ہے۔ٹرمپ نے ہمیشہ اپنے عہدہ صدارت کو ریالٹی شو کے طور پر مانا ہے اور ہر اچھے ریالٹی شو کو ایک ولن کی ضرورت ہوتی ہے۔ روزِ اول سے ٹرمپ یہی چاہتے تھے کہ میڈیا اُن کا ولن یا دشمن بن جائے اور ٹرمپ کا صحافیوں کے ساتھ الجھنے کا یہ کوئی پہلا معاملہ نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی ٹرمپ نے کئی مرتبہ ایسی حرکت کی ہے ۔یہ خوش آئند بات ہے کہ امریکہ کے ایک سے زائد خبر رساں ادارے جو ایک دوسرے کے سخت حریف ہیں، مختلف نظریات کے باوجود سی این این کے جم اکوسٹا کی حمایت میں ٹرمپ انتظامیہ کے فیصلہ کے خلاف احتجاج کرنے کیلئے متحد ہیں۔ سی این این انتظامیہ نے مقدمہ میں الزام لگایا کہ اکوسٹا پر پابندی خفیہ سروس کے تحت لگائی گئی ہے جو سی این این کے پہلے اور پانچویں ترمیمی حقوق کے خلاف ورزی ہے۔ اکوسٹا کا پریس کارڈ معطل کئے جانے کے خلاف سی این این کی طرف سے پٹشن کے نمٹاتے ہوئے عدالت نے صحافی کا پریس کارڈ بحال کرنے کا حکم دیا ہے۔
ٹرمپ کی یہ اوچھی حرکت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ امریکہ میں بھی آزادیٔ صحافت خطرے میں ہے۔ ٹرمپ صحافتی آزادیوں کو دبا رہے ہیں۔ غور طلب ہے کہ صدر ٹرمپ اور سی این این کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ یہ میڈیا ہاؤس اکثر ا لاوقات صدر ٹرمپ کی برہمی کا نشانہ بنتا رہا ہے۔ آزادی ٔ اظہار کے حامی لوگ پوچھ رہے ہیں کہ کیا اب امریکی جمہوریت میں بھی صدر سے سوال کرنے پر بھی قدغن لگایا جائے گا؟
نوٹ : کالم نگار ممبئی میں رہائش پذیر کالم نگار اور صحافی ہیں۔