ڈاکٹر فیاض فاضلى
سچائی ایسی صفت ہے جس کی اہمیت ہر مذہب اور ہر دور میں یک ساں طور پر تسلیم کی گئی ہے۔ اس کے بغیر انسانیت مکمل نہیں ہوتی۔سچائی پر چلنا اسْتقامت فی کیا سچ بولنا غلط ہو سکتا ہے، اگر اس سے کسی کو تکلیف پہنچتی ہے؟ سچ پر اشعار ہ ان دنوں س نہیں چاہتے۔
پرانے زمانے میں لوگ کہا کرتے تھے کہ ہمیشہ سچ کی جیت ہوتی ہے مگر آج کمپیوٹر ائزڈ دور میں یہ سب اُلٹ چکے ہیں۔وعدوں اور عہدوں کے درمیان ، ہم نے ایک اور سال (موسم) کھو دیا _، کوئی دو رائے نہیں موجودہ اس پر فتن دور میں سچ پر چلنا مشکل ہو رہا ہے۔زیادہ تر لوگ سچ بولنا اور سچ سننا پسند نہیں کرتے، _ اگرچہ پُرامن مہذب معاشرے سول سوسائٹی کی تعمیر میں کے قیام میں سچائی اور ایمانداری کا کردار بہت اہم ہے ۔ سچ بولنا اعلیٰ انسانی صفت ہے اور اخلاق کی سب سے بڑی پہچان ہے ۔اﷲ تعالیٰ کے یہاں بندوں کی سب سے اچھی صفت سچ بولنا ہے اور بُری صفت جھوٹ بولنا ہے۔موجودہ اس پر فتن دور میں اِسْتِقامَت سچائی واقعتاً ایک بڑا ہی حساس اور نہایت ہی اہم موضوع ہے بلکہ ماضی میں ہمارا معاشرہ کی ابتدائی تاریخ سے موجودہ حالات تک کا جائزہ لیں تو ہمارا معاشرہ کی پوری زریں تاریخ نیک لوگوں اور اہلِ ایمان کی خصوصیات سے بھرا ہوا آزمائشی مراحل سے گذرتے ہوئے اِسْتِقامَت فی الدین سے رقم ہے۔ شرعی اصطلاح میں اِسْتِقامَت دین پر ثابت قدمی کا مطلب احکامات اور منہیات پر ثابت قدم رہنا اور لومڑی کی طرح مکر و فریب سے کام نہ لینا یعنی اوامر کے بجا لانے اور نواہی کے ترک پر استمار بجا لانا ہے۔ آج کاروبار ہو یا زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہم جھوٹ کو اس حد تک اپنے روزمرہ معمولات میں شامل کئے ہوئے ہیں کہ ہمیں خود بعض اوقات پتہ نہیں ہوتا کہ ہم یہ سچ بول رہے ہیں یا جھوٹ۔ جسکا سراسر نقصان ہمیں ہی ہورہا ہوتا ہے۔ عام زندگی میں ،سچ بولنا کتنا مشکل ہوتا ہے اور اس کے کیا خسارے ہوتے ہیں ،جھوٹ بظاہر کتنا طاقت ور اوراثر انداز ہوتا ہے ان سب باتوں کو شاعری میں کثرت سے موضوع بنایا گیا ہے ۔ ہمارے اس انتخاب میں جھوٹ، سچ اور ان کے ارد گرد پھیلے ہوئے معاملات کی کتھا پڑھئے۔میں سچ کہوں گا مگر پھر بھی ہار جاؤں گا، وہ جھوٹ بولے گا اور لا جواب کر دے گا)
وقت کی ضرورت ہے۔اللّٰہ کے تمام احکام و اوامر پر سیدھے جمے و ڈٹے رہیں، اس سے ادھر ادھر راہِ فرار نہ اختیار کیا جائے بلکہ اس راہ میں جو مصائب و مشکلات و مسائل پیش آئیںیامخالفتیں ہوں، اُس پر صبر کرلیا جائے اور حق سے منہ موڑنے کے بجائے اسی راستے پر ثابت قدمی کے ساتھ آگے بڑھا جائے۔
دولفظوں پر مشتمل لفظ ’’سچ‘‘ وہ چیز ہے جو اپنے اندر وسیع طاقت رکھتا ہے مگر اسے کہتے ہوئے آج بڑے بڑوں کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں ۔ اسے کہتے ہوئے بہت صبر اور ضبط کا دامن بھی ہاتھ میں رکھنا پڑتا ہے۔سچائی پر نہ صرف یقین کریں بلکہ قائم بھی رہیں ،بھلے ہی جھوٹ کے اس نقار خانے میں سچائی کی آواز کی طوطی کی حیثیت ہی کیوں نہ ہو۔ یہ طوطی کی آواز جھوٹ پر بھاری پڑ نے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اسی لئے سچائی پر نہ صرف یقین کریں بلکہ ہر حال میں قائم رہیں ۔آج کے وقت کی اہم ضرورت ہے۔’’ کیا سچ کے لیے کھڑا ہونا مشکل ہے ؟ معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کا دارومدار لوگوں کی ایمانداری اور دیانتداری پر ہے، _ جب لوگ ایماندار ہوں گے تو معاشرے کا ماحول پرامن ہو گا _ ،دیانت ایک اچھی صفت اور مخلوق پر خالق کی طرف سے ایک نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے یہ صفت عطا کرتا ہے _ایمانداری اور دیانتداری بہترین خصوصیات ہیں ۔ فطری طور پر ہر انسان سچائی، سچ بولنے اور سچ سننے کو پسند کرتا ہے۔ جب انسان کسی ایسے آدمی سے سامنا کرے جو صداقت اور سچائی کے عنوان سے مشہور ہو تو اس سے بات کرتے ہوئے سکون اور اطمینان محسوس کرتا ہے، کیونکہ اس سے گفتگو کرکے مطمئن ہوجاتا ہے کہ جو کچھ اس نے سنا ہے، وہ سچ ہے۔ پرانے زمانے میں لوگ کہا کرتے تھے کہ ہمیشہ سچ کی جیت ہوتی ہے مگر آج کمپیوٹر ائزڈ دور میں یہ سب الٹ چکے ہیں ۔ یہ اٹل حقیقت ہے کہ سچ ہمیشہ جیتتا رہا ہے، چاہے دیر سے ہی سہی۔ سچ کی سب بڑی خوبصورتی کہہ لیں کہ اسے کہتے ہوئے ہمیں کبھی خوف نہیں آتا بلکہ بعض اوقات تو سچ کہنے سے ڈرایا جاتا ہے کہ ایسا کرو گے تو یہ ہوجائیگا، کیوں اپنی جان پر سچ بول کر مصیبت مول لے رہے ہو۔ خاموش رہو۔ اس طرح کے غرض یار دوست جملے کہہ کر سچ کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں مگر انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ سچ تو سچ ہوتا ہے، وہ کسی بھی روپ میں کبھی نہ کبھی سامنے آکر ہی رہتا ہے۔ آج نہ سہی مستقبل میں ۔
اخلاقی اور روحانی فوائد کے باوجود، کیوںلوگ سچ سننے/بولنے کے لیے تیار نہیں ہیں؟ اکثر میں نے اپنے دوستوں اور ساتھیوں اور بزرگوں کے ساتھ اس مسئلے پر تبادلہ خیال کیا ہے _ لیکن سب سے ردعمل یہ ہے کہ کیا سچ ان دنوں کام کرتا ہے۔ ’’کیا ہمیشہ سچ کی جیت ہوتی ہے؟ ‘‘یہ رویہ ’’جو بھی کام کرتا ہے صحیح ہے ۔سچ یا جھوٹ جو بھی کام کرتا ہے، اچھا ہوتا ہے۔ سچائی کا زمانہ آج لئے بھی نہیں رہا کہ ہم سچائی کو اپنے معاملات کے بجائے دوسروں کے معاملات میں دوسروں کے قول و فعل میں تلاش کرتے ہیں تو سچائی کہاں سےملے گی؟
’’ روایتی طور پر ہم خدا سے ڈرنے والے لوگ ہیں۔سچائی ایسی صفت ہے جس کی اہمیت ہر مذہب اور ہر دور میں یکساں طورپر تسلیم کی گئی ہے، اس کے بغیر انسانیت مکمل نہیں ہوتی،بار بار سچ بولنے کی تاکید کی گئی ہے، چنانچہ محسنِ انسانیت، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ سچ بولنے کی تعلیم دی اور جھوٹ بولنے سے منع فرمایا۔ اللہ تعالیٰ جھوٹ بولنے والوں کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: ’’اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو راہ نہیں دکھاتے جو اسراف کرنے والے ہیں اور جھوٹے ہیں۔‘‘ (المؤمن :۲۸) چونکہ جھوٹ کے نتائج سخت مہلک اور خطرناک ہیں اور جھوٹ بولنے والے کے ساتھ ساتھ دوسرے بھی اس کے شر سے محفوظ نہیں رہتے، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ بولنے والوں کے لیے سخت وعیدیں بیان فرمائیں، جھوٹ بولنا اور جھوٹ بولنے والوں کے ساتھ کھڑا ہونا عام سماج میں بھی داخل ہو گیا ہے _ بلاشبہ یہ ’’خطرناک ‘‘اوقات ہیں۔ آس پاس کا ماحول ایسا ہی ہے۔ ‘ سچائی پر کھڑے رہنا بعض اوقات بہت مشکل ہوتا ہے ،کسی اخلاقی مسئلے پر تنہا کھڑے نظر آتے ہیں _ سیاست دانوں سے لے کر کاروباری شراکت داروں تک، سیکرٹریوں سے لے کر سیلز کلرک تک ، زمینوں پر قبضے کرنے والوں سے لے کر خوراک اور ادویات کے ملاوٹ کاروں تک سب سچ کے ساتھ کھلواڑ کرتے نظر آتے ہیں _ صارفین کے طور پر ہم اکثر بجلی کی مسلسل رکاوٹوں، ٹرانسمیشن سسٹم اور ٹریفک جام پر انگلیاں اٹھانے کی شکایت کرتے ہیں لیکن بجلی چوری یا غیر قانونی تجاوزات/تعمیرات یا لاپرواہی سے ڈرائیونگ کے معاملات پر ہم مجرمانہ خاموشی اختیار کرتے ہیں _ پھر بھی کیوں آج کے دنیاوی معاملات میں لوٹ کھسوٹ، دھوکے بازی، فریب دہی، انصاف کے منافی والے واقعات، تشدد، جھوٹ کی بھرمار والے واقعات اپنی انتہا پر ہیں۔ یہ گمان ہوتا جارہا ہے کہ کیا اب سچائی نہیں رہی؟ کیا واقعی زمانہ بدل گیا ہے؟ جھوٹ کے اس اندھیرے میں سچائی پر سے یقین متزلزل ہو رہا ہے۔ دل و دماغ متاثر ہو رہے ہیں، آخر کریں تو کیا کریں؟ بس ان حالات میں حوصلہ رکھیں۔کہتے ہیں کہ دنیا میں کسی کو سنوارنا ہے یا سدھار نا ہے تو وہ خود کی ذات ہوتی ہے۔ اسی لئے ہم اپنے معاملات میں سچائی اور انصاف کو اہمیت دیں۔ سچائی کو فوقیت دیں نہ کہ خود کو چھوڑ کر دوسروں میں عیب تلاش کریں۔ بدقسمتی سے مبلغین بدعنوانی پر انفرادی رویہ بدلنے کی تبلیغ کرنے کے بجائے اپنی آپس کی لڑائیوں اور فرقہ وارانہ تقسیم کے ساتھ مقبول ہونے کی تبلیغ کرتے ہیں ۔کیا میں ہر وقت سچ کے ساتھ کھیلنا بند کر سکتا ہوں؟اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے آپ کو ایک پاکیزہ اور عقیدت مند دل کی نشانیوں پر آزمائیں کہ پرامن معاشرے کے قیام میں ایمانداری کے کردار کو سمجھیں حق کی طاقت، سچائی کی اہمیت کے بارے میں جاننے اور اپنانے کی کوشش کر کریں۔
مضموں نگار سے ([email protected] اور twitter@drfiazfazili پر رابطہ کیا جا سکتا ہے)
مترجم ۔ ڈاکٹر غضنفر علی