سرینگر// حریت (گ)،حریت (ع)،لبریشن فرنٹ، دختران ملت،لبریشن فرنٹ (ح) ،پیروان ولایت، ڈیموکریٹک لبریشن پارٹی اورووئس آف وکٹمز نے مزاحمتی قائدین سید علی شاہ گیلانی، میرواعظ محمد عمر فاروق اورمحمد یاسین ملک کو گرفتار کرنے کے موقع پرصحافیوں کی مارپیٹ اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے روکنے کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ حریت(گ) نے سید علی گیلانی کی رہائش گاہ کے باہر پولیس کی طرف سے اخباری رپورٹروں اور فوٹو جرنلسٹوں کی مارپیٹ کرنے کو ریاستی دہشت گردی قرار دیتے ہوئے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔حریت ترجمان ایاز اکبر نے کہا کہ صحافیوں کو اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے روکنے اور ان پر حملہ کرنے کا کوئی آئینی، قانونی یا اخلاقی جواز نہیں ہے۔انہوں نے کہا’’ اس سے یہ حقیقت ثابت ہوجاتی ہے کہ جموں کشمیر عملاً ایک پولیس اسٹیٹ ہے اور یہاں آزادی اظہارِ رائے پر مکمل طور پابندی عائد ہے‘‘۔ حریت ترجمان نے اے ایف پی کے توصیف مصطفی، گریٹر کشمیر کے مبشر خان، یورپین پریس فوٹو ایجنسی کے فاروق جاوید خان، ٹائمز نو کے شیخ عمر، انڈین ایکسپریس کے شعیب مسعودی اور ڈی این اے کے عمران نثار کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ہے، جن کے ساتھ پولیس نے اس موقعہ پر زیادتی کی اور حملہ کیا۔حریت (ع) ترجمان نے پولیس کی جانب سے صحافیوں کے ساتھ زیادتی کرنے اوراُن کی مارپیٹ کرنے کو ریاستی دہشت گردی کا بدترین مظاہرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ جموںوکشمیر کو عملاً ایک پولیس سٹیٹ میں تبدیل کیاگیا ہے اور جب ریاستی پولیس کا رویہ صحافیوں کے ساتھ اس قدر جارحانہ ہو تو عام لوگوں کی بات ہی نہیں۔ ترجمان نے توصیف مصطفی، مبشر خان، فاروق جاوید، عمر شیخ، شعیب مسعودی اور عمران نثار وغیرہ پر پولیس کی جانب سے حملہ جمہوریت کے چوتھے ستون پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ جمہوریت اور اظہار رائے کی آزادی کے دعویدار جس ڈھٹائی سے یہاں جمہوری قدروں کو پامال اور اظہار رائے پر بزور طاقت قدغن عائد کررہے ہیں اور اپنے جائز حق کی خاطر اٹھنے والی آواز کو طاقت کے بل پر دبانے کی کوشش کررہے ہیں وہ نہ صرف حد درجہ مذموم ہے بلکہ اس سے جمہوریت اور اخلاقی قدروں کی پاسداری کے دعوے بے بنیاد ثابت ہو رہے ہیں ۔ترجمان نے کہا کہ جب کشمیر میںپریس اور صحافتی برادری کو اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران زدوکوب کیا جاتا ہو تو اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں کس طرح کی اندھیر نگری اور چوپٹ راج کا بول بالا ہے۔لبریشن فرنٹ نے میڈیا پر اس میٹنگ کی کوریج کو روکنے کیلئے حملہ کردینا جموں کشمیر میں بھارتی جمہوریت کے کھوکھلے پن کا منہہ بولتا ثبوت ہیں۔لبریشن فرنٹ نے کہا کہ بے شرم حکمرانوں اور انکی پولیس نے آج علیل سید علی شاہ گیلانی، محمد یاسین ملک اور میرواعظ محمد عمر فاروق کو گرفتار کرنے کے موقع پر موجود پریس نمائندگان پر حملہ کرکے ان میں سے کئی ایک بشمول سینئر فوٹو جرنلسٹ توصیف مصطفیٰ اور گریٹر کشمیر سے وابستہ مبشر خان کو زخمی کردیا ہے ۔ ترجمان نے کہا کہ پولیس کے یہ اقدام نام نہاد حکمرانوں اور انکی انتظامیہ کے اندر بڑھتی ہوئی بوکھلاہٹ کے آئینہ دار ہیں۔دختران ملت سربراہ آسیہ اندرابی نے صحافیوں پر پولیس زیادتی کو بربریت سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ یہی کشمیر کی اصل زمینی حقیقت ہے۔لبریشن فرنٹ (ح) چیئرمین جاوید میر نے بھی صحافیوں پر تشدد ڈھانے کی مذمت کی ہے۔ پیروان ولایت نے صحافیوں پر حملے کی مذمت کی ہے۔تنظیم کے سیکریٹری جنرل آغا سید یعسوب موسوی نے حیدر پورہ میں پیش آئے واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وادی میں اب انسانی حقوق کا نام و نشان تک بھی نہیں رہا ہے۔انہوں نے پولیس کی جانب سے توصیف مصطفی پر حملہ بزدلانہ کارروائی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اقوام عالم کے لئے یہ واضح ثبوت ہے کہ یہاں آزادی اظہاررائے پر بھی قدغنیں اور بندشیں ہیں۔ ووئس آف وکٹمزکے کوارڈی نیٹرعبدالرئوف خان نے صحافیوں پر حملے کو غیرجمہوری کارروائی قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب ریاستی پولیس کا رویہ صحافیوں کے ساتھ اس قدر جارحانہ ہو تو عام لوگوں کا اللہ ہی حافظ ۔ ڈیموکریٹک لبریشن پارٹی کے چیئرمین ہاشم قریشی نے صحافیوں پر ریاستی پولیس کی کاروائی کو غیرجمہوری اور غیرقانونی قرار دیتے ہوئے اس سے صحافت پر سیدھا وار قرار دیاکیونکہ صحافت سچ اورجھوٹ میں تمیزکرنے کا درس دیتاہے ۔سالویشن مومنٹ ترجمان نے حیدر پورہ میںمیڈیا والوں کے ساتھ ناشائستہ سلوک کی زبردست الفاظ میں مذمت کی ۔