غازی سہیل خان
واقعتاً اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا ایک عظیم نعمت ہے۔ زندگی میں اُتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں اور مشکلات و پریشانیوں کا مقابلہ صبر کے ساتھ کرنا انسان کو مزید مصائب کے سامنے مضبوط بناتا ہے۔تاہم چند افراد کہتے ہیں کہ انسان پر جب کوئی مشکل یا بوجھ آئے تو اُسے محض صبر اور شکر سے کام لینا چاہیے۔ لیکن جب ہم اس بات کو انفرادی اور اجتماعی زندگی پر لاگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ایک نئی بحث جنم لیتی ہے۔مجموعی طور پر ہم، چاہے انفرادی سطح پر ہوں یا ملتِ اسلامیہ کے اجتماعی دائرے میں، زندگی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے اعتدال کی راہ اختیار نہیں کرتے۔ ایک طبقہ ایسا ہے جو ہر مشکل، پریشانی اور بوجھ کے جواب میں محض صبر و شکر کی تسبیح پر اکتفا کرتا ہے اور دوسرا طبقہ وہ ہے جو صبر و شکر کے اس عظیم ہتھیار کو ترک کرکے صرف مسائل کے عملی حل پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔میری نظر میں دونوں رویے اعتدال سے ہٹے ہوئے ہیں۔ بعض لوگ ذاتی یا ملی مسائل کے حل کے حوالے سے آنکھیں موند لیتے ہیں یا ان پر گفتگو ہی نہیں کرنا چاہتے، جس کے نتیجے میں یہ مسائل بڑھتے جاتے ہیں اور بالآخر لاعلاج مرض کی صورت اختیار کر لیتے ہیں جو انسان کی موت پر منتج ہوتا ہے۔
یہ ضروری نہیں کہ مشکلات کا تذکرہ شکایت کے مترادف ہو۔ اگر ذاتی یا پیشہ ورانہ زندگی کے بوجھ پر بات کی جائے تو یہ کسی نفسیاتی کمزوری کی علامت نہیں ہے۔ مسائل کی نشاندہی نہ ہو اور مشکلات پر گفتگو نہ کی جائے تو ترقی کے بجائے ادارے، جماعتیں اور افراد زوال کا شکار ہو جاتے ہیں۔علاوہ ازیں، بوجھ سے زیادہ نعمتوں کے بارے میں بات کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ کہا جاتا ہے کہ ’’جہاں توجہ مرکوز ہوتی ہے، توانائی بہہ جاتی ہے۔‘‘ یہ بات کہنے اور سننے کی حد تک درست ہے، لیکن عملی زندگی کے کچھ حقائق ہیں۔ جب تکلیف، سختیاں اور مشکلات آتی ہیں تو وہ انسان کو جھنجھوڑ کر نعمتوں کی قدر کا احساس دلاتی ہیں۔ دیکھنے والی آنکھوں کی بصارت کے نعمت ہونے کا احساس تب تک نہیں ہوتا جب تک وہ بیماری کی زد میں آکر دیکھنے کی صلاحیت کھو نہ بیٹھیں۔ یادداشت کے نعمت ہونے کا حقیقی شعور ڈیمنشیا کے مریض کو سب سے زیادہ ہوتا ہے۔غرض یہ کہ ہم دوسروں کو نعمتوں کا احساس تبھی کرا سکتے ہیں جب پہلے مشکلات پر بات کی جائے۔ اس لیے ضروری ہے کہ نہ صرف مشکلات اور مصائب کا ذکر کیا جائے کہ زندگی دو بھر ہو جائے اور نہ ہی صرف نعمتوں کا ذکر کیا جائے کہ انسان حقائق سے غافل ہو جائے، بلکہ دونوں پہلوؤں کو ساتھ رکھنا چاہیے۔ نعمت مشکلات کے بغیر اپنی اصل حیثیت نہیں رکھتی اور مشکلات نعمتوں کے بغیر مشکلات نہیں رہتیں۔ دونوں کا شعور تبھی مکمل ہوتا ہے جب دونوں ایک ساتھ زیرِ بحث آئیں۔لہٰذا ہمیں چاہیے کہ انفرادی، اجتماعی اور ملی مسائل کے ساتھ ساتھ ذاتی بوجھ کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ گفتگو کریں اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کے حضور شکر اور صبر کے ساتھ رجوع کریں۔ تب ہی ہم زندگی میں انفرادی اور اجتماعی طور پر کامیاب ہو سکتے ہیں۔